ایک وقت تھا جب یہ نام سن کر لوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی گفتگو میں ایسی کشش تھی کہ مخالفین بھی سنتے تھے، ان کے جملے، اندازِ بیان اور حاضر جوابی نے انہیں وہ شہرت دی جس کا خواب ہر اینکر اور مذہبی اسکالر دیکھتا ہے۔ مگر قسمت کے کھیل عجیب ہوتے ہیں, جس شخص نے لاکھوں دلوں میں جگہ بنائی، وہی آخر میں تنہائی اور دکھ کا شکار ہوا۔
یہ بچہ کراچی کے ایک معروف علمی گھرانے میں پیدا ہوا۔ والد مذہبی اور علمی دنیا کی ایک معتبر شخصیت تھے۔ بچپن سے ہی ذہین، حاضر جواب اور بولنے میں نڈر۔ اسکول کے مباحثوں میں ہمیشہ اول آتا اور اساتذہ اسے ایک روشن مستقبل کا خواب سمجھتے۔ بچپن میں اس نے دین کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کی اور بہت کم عمر میں میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا۔
ایک اور اشارہ یہ ہے کہ یہ وہی بچہ تھا جو بعد میں پاکستان کا وہ چہرہ بن گیا جس نے رمضان ٹرانسمیشنز کا انداز ہی بدل دیا۔ کبھی مذہبی اسکالر، کبھی ٹی وی ہوسٹ، کبھی سیاستدان, اس نے ہر روپ میں خود کو منوایا۔ مگر شہرت کی چمک کے پیچھے ایک ایسی خاموشی چھپی تھی جسے بہت کم لوگ سمجھ پائے۔
جی ہاں، یہ کہانی ہے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی. وہی شخصیت جس نے اپنی زبان کی طاقت سے پاکستان کے ہر گھر میں اپنی شناخت بنائی۔ ان کا سفر علم سے آغاز ہوا، مگر انجام کرب سے بھرا تھا۔
عامر لیاقت حسین 1971 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ لیاقت حسین معروف سیاستدان اور مذہبی اسکالر تھے، جبکہ والدہ محمودہ سلطانہ بھی سماجی سرگرمیوں میں پیش پیش رہیں۔ عامر لیاقت نے اپنی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور بعد میں میڈیا میں قدم رکھا، جہاں ان کے پروگرام “عالم آن لائن” نے انہیں بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ رمضان ٹرانسمیشنز میں ان کا انداز نیا، منفرد اور مؤثر تھا۔ انہوں نے مذہبی گفتگو کو عام فہم انداز میں پیش کر کے عوام کے دل جیت لیے۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی تنازعات میں گھر گئی۔ شادیوں، طلاقوں، اختلافات، اور سیاسی بیانات نے ان کی شہرت کو متاثر کیا۔ دوست کم ہوتے گئے اور مخالفین بڑھتے گئے۔ وہ جو کبھی اسکرین پر لوگوں کو مسکراہٹ دیتے تھے، خود اندر سے ٹوٹنے لگے۔
2022 میں ان کی اچانک موت نے پوری قوم کو حیران کر دیا۔ ایک شخص جس نے لاکھوں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیری، خود تنہائی میں دنیا سے رخصت ہوا۔
عامر لیاقت حسین کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ شہرت سب کچھ نہیں ہوتی۔ انسان کو اصل سکون تب ہی ملتا ہے جب دل مطمئن ہو، اور زندگی کے شور میں اپنے اندر کی خاموشی کو سننا آ جائے۔