ڈامہ سیریئل 'بریانی'میں رمشا 'نسا' کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں۔ ڈرامے کی شروعات سے ہی انھیں ایک بے باک اور نڈر لڑکی دکھایا گیا ہے۔ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی، پڑھائی میں دل لگانے والی لڑکی جو اپنی رائے کا اظہار کرنے سے ہچکچاتی نہیں۔
پاکستانی ڈرامے ’ہم تم‘، ’گھسی پٹی محبت‘ اور ’کیسا ہے نصیباں‘ میں نمایاں کرداروں سے مقبول ہونے والی اداکارہ رمشا خان آج کل جدید دور کی ہیروئن کی عکاسی کرتی نظر آ رہی ہیں۔
بی بی سی اُردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رمشا خان کا کہنا تھا کہ وہ سکرین پر ایسا کوئی کردار نہیں نبھانا چاہتیں جو انھیں سمجھ نہ آئے۔ البتہ اُن کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن کا نبھایا ہوا کردار عوام کو اس طرح سمجھ نہیں آتا جیسا انھوں نے سوچا ہوتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام روتی دھوتی، مار کھاتی اور گھر سے نکالے جانے والی ہیروئن کی بجائے خواتین کے مضبوط کرداروں کو دیکھنے کے لیے تیار ہیں؟
ڈرامہ سیریل ’بریانی‘ میں رمشا ’نسا‘ کا مرکزی کردار نبھا رہی ہیں۔ ڈرامے کی شروعات سے ہی انھیں ایک بے باک اور نڈر لڑکی دکھایا گیا ہے۔ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی، پڑھائی میں دل لگانے والی لڑکی جو اپنی رائے کا اظہار کرنے سے ہچکچاتی نہیں۔
ڈرامے پر تنقید اور رمشا کا جواب

چند اقساط قبل نسا کو کافی تنقید کا سامنا رہا۔ ڈرامہ دیکھنے والوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ بات اتنی آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں ہے کہ ایک متوسط گھرانے کی لڑکی کھلے عام ایک لڑکے کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھومے اور وہ بھی اپنے ہی علاقے میں۔
یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والے میران اور نسا کے درمیان بڑھتی ہوئی نزدیکیوں پر بھی اعتراض اٹھایا گیا۔ سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے بعض ناظرین کا اعتراض تھا کہ اس طرح کھلے عام ہاتھ پکڑنے، بالوں کو سہلانے اور اس قسم کے مواد سے اس نوعیت کے رویوں کو ’نارملائز‘ کیے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے یہ بھی کہا کہ ڈرامے میں اس قسم کی چیزیں دیکھنے کے بعد ’ماں باپ مزید اپنی بیٹیوں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھیجنے سے گریز کریں گے۔‘
تاہم اداکارہ رمشا کے لیے یہ تبصرے کافی حیران کن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں دکھایا جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہو۔‘
رمشا نے کہا کہ اُن کی رائے میں ’آج کل یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔‘
’مجھے یاد ہے جب میں بھی سکول میں تھی تو ہاتھ پکڑنا اور یہ سب چیزیں کافی عام تھیں۔ اگر والدین کو ایسا نہیں لگتا ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھیں اور اُن سے بات کریں۔‘
اس حوالے سے ڈرامے پر ہونے والی تنقید پر رمشا سوال کرتی ہیں کہ جب سکرین پر ’تشدد دکھاتے ہیں، تب کیوں تنقید نہیں کی جاتی؟‘
’یہ ایک ہلکی پھلکی رومانوی کہانی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس سے لطف اندوز ہوں۔‘
’عوام اداکار کو جس کردار میں دیکھتی ہے ویسا ہی سمجھنے لگتی ہے‘
اس سال بڑی عید پر آنے والی پاکستانی فلم ’لوو گرو‘ میں رمشا نے ماہرہ خان کی دوست کا ایک چھوٹا سا کردار نبھایا جس میں ایک ڈانس نمبر بھی تھا۔ اس کردار کی نوعیت اور خاص کر ڈانس نمبر پر بھی انھیں عوام کی تنقید کا سامنا رہا۔
اُن کا کہنا تھا کے اپنے بارے میں اس قسم کی باتیں پڑھ کر اچھا تو نہیں لگتا لیکن عوام کو بھی ’یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت اداکار یہ ہمارا کام ہے کہ ہم مختلف کردار نبھائیں۔‘
’ایک ہیروئن اگر بغیر آستین کے کپڑے پہن لے تو عوام اس کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن آپ کے ایکٹرز ڈراموں میں مے نوشی کر رہے ہوں، بے وفائی کر رہے ہوں، اس کو تسلیم کر لیتی ہے۔ یہ لڑکوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔‘
ان کا کہنا کہ ڈرامے دیکھنے والے لوگ اداکاروں کو جس قسم کے کرداروں میں دیکھتے ہیں ویسا ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ ’لیکن ہماری شخصیت صرف اس کردار تک محدود نہیں ہے۔‘
کیا ڈرامہ انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے؟
ماضی میں رمشا نے ڈرامہ انڈسٹری میں معاوضہ ملنے میں تاخیر کے حوالے سے بات کی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں اب بھی کوئی فرق نہیں آیا ہے، چاہے وہ معاوضے کو لے کر ہو یا وقت کی پابندی پر۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈسٹری میں آج بھی اداکار اور اداکارہ کے درمیان تفریق کی جاتی ہے۔
’افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں انڈسٹری میں اس زمانے میں بھی مِسوجنی ہے۔ ابھی تک سیٹ پر میل ایکٹرز کو فیورز دی جاتے ہیں۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہو جاتی ہے تو اُن کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ لیکن جب خواتین ایکٹرز کی بات آتی ہے تو ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔‘
رمشا کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈراموں کی سکرپٹ دیکھ کر بھی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’مسوجنی کس حد تک موجود ہے۔‘
’سوشل اینزائٹی ایک حقیقت ہے جس کو لوگ بہت ہلکا لیتے ہیں‘
رمشا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی دنیا میں مگن رہتی ہیں اور جب کام نہ کر رہی ہوں تو اپنے کمرے میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ وہ نہ کسی سے زیادہ بات کرتی ہیں اور نہ ہی اپنے دو دوستوں کے علاوہ کسی دوست سے ملتی ہیں۔
وہ اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ وہ آسانی سے کسی پر بھروسہ بھی نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ان کا ’کوئی دوست نہیں ہے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’سوشل اینزائٹی ایک حقیقت ہے جس کو لوگ بہت ہلکا لیتے ہیں۔ مجھے ہے اور مجھے زیادہ لوگوں میں بہت مشکل ہوتی ہے۔‘
رمشا کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس چیز سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ ’میں امید کرتی ہوں کہ اس وجہ سے لوگ مجھے مغرور نہ سمجھیں۔‘