رما دواجی: نیویارک کے نومنتخب میئر زہران ممدانی کی اہلیہ جنھیں ان کے دوست ’دور جدید کی شہزادی ڈیانا‘ قرار دیتے ہیں

28 سال کی عمر میں رما دواجی نیو یارک سٹی کی اب تک کی سب سے کم عمر خاتون اول ہوں گی کیونکہ ان کے شوہر زہران ممدانی نے میئر کا انتخاب جیت لیا ہے۔
رما دواجی
Getty Images

28 سال کی عمر میں رما دواجی نیو یارک سٹی کی اب تک کی سب سے کم عمر خاتون اول ہوں گی کیونکہ ان کے شوہر زہران ممدانی نے میئر کا انتخاب جیت لیا ہے۔

اپنی فتح کے بعد تقریر میں منتخب میئر نے ان کے ساتھ کھڑی اپنی اہلیہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

انھوں نے کہا ’میری ناقابل یقین بیوی، رما۔‘ انھوں نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے عربی لفظ ’حیاتی‘ کہا جس کا مطلب ہے ’میری زندگی۔‘

زہران نہ کہا کہ ’ان کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کا میں اس لمحے اور ہر لمحے ساتھ پسند کروں گا۔‘

دواجی نیویارک کی رہائشی ہیں اور ان کے آباؤ اجداد شامی ہیں۔ وہ ایک فنکار ہیں جن کا کام اکثر مشرق وسطیٰ کے موضوعات سے متعلق ہوتا ہے۔

ان کا کام بی بی سی نیوز، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، وائس اور لندن کے ٹیٹ ماڈرن میوزیم میں شائع ہو چکا ہے۔

ممدانی نے 12 مئی کو ایک پوسٹ میں بتایا کہ ان کی شادی تین ماہ قبل ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا ’رما صرف میری بیوی نہیں ہیں۔ وہ ایک ناقابل یقین فنکار ہیں جو اپنی شرائط پر پہچان حاصل کرنے کی مستحق ہیں۔‘

ممدانی نے دی بلوارک کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ’ڈیٹنگ ایپس میں اب بھی امید موجود ہے۔‘

 Rama Duwaji at a polling station in Astoria, Queens
Getty Images
دواجی نیویارک کی رہائشی ہیں اور ان کے آباؤ اجداد شامی ہیں

وہ اپنے شوہر کی انتخابی مہم کے آغاز میں شاذ و نادر ہی نظر آتی تھیں، جس کی وجہ سے مخالفین نے یہ دعویٰ کیا کہ 34 سالہ ریاستی اسمبلی کے رکن اپنی بیوی کو ’چھپا رہے ہیں۔‘

ان کی غیرموجودگی قابل ذکر تھی کیونکہ امریکی امیدوار اکثر خاندانی اقدار سے وابستگی ظاہر کرنے کے لیے اپنے شریک حیات کو پوری طرح سے پیش کرتے ہیں۔

ممدانی نے مئی کی پوسٹ میں اپنی اہلیہ کی غیرموجودگی پر جواب دیا جس میں نیویارک سٹی کلرک کے دفتر میں ان کی شادی کو ظاہر کرنے والی تصاویر کا ایک سلسلہ شامل تھا۔

انھوں نے لکھا ’اگر آپ آج یا کسی بھی وقت ٹوئٹر پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہیں کہ سیاست کتنی شیطانی ہوسکتی ہے۔ میں عام طور پر ایسی چیزوں کو مسترد کرتا ہوں چاہے وہ موت کی دھمکیاں ہوں یا مجھے ملک بدر کرنے کا مطالبہ ہو۔ لیکن جب یہ ان لوگوں کے بارے میں ہوتا ہے جن سے آپ محبت کرتے ہیں تو یہ مختلف ہوتا ہے۔۔۔ آپ میرے خیالات پر تنقید کر سکتے ہیں، لیکن میرے خاندان پر نہیں۔‘

سی این این کے مطابق دواجی نے سپاٹ لائٹ سے دور رہنے کا انتخاب کیا یہاں تک کہ ان کے شوہر مشہور بھی ہوئے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ پسِ پردہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔

تاہم وہ ان لوگوں میں شامل تھیں جنھوں نے ممدانی کی برانڈ شناخت کو حتمی شکل دی، جس میں ان کے پیلے، نارنجی اور نیلے رنگ کی مہم کے مواد پر استعمال ہونے والے بولڈ آئیکونوگرافی اور فونٹ شامل ہیں۔

دواجی ہیوسٹن، ٹیکساس میں پیدا ہوئی تھیں۔ نو سال کی عمر میں وہ دبئی چلی گئیں جس کے بعد انھوں نے قطر میں تعلیم حاصل کی۔

عربی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان کے والدین شامی مسلمان ہیں جو بنیادی طور پر دمشق سے تعلق رکھتے ہیں۔

کیمروں سے بڑی حد تک دور رہنے کے باوجود دواجی کے متعدد دوستوں نے ممدانی انتظامیہ میں ان کے کردار کے بارے میں قیاس آرائیوں کے حوالے سے انٹرویوز میں ان کے بارے میں بات کی ہے۔

ایک دوست حسنین بھٹی نے گذشتہ ماہ نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’وہ ہماری جدید دور کی شہزادی ڈیانا ہیں۔‘

نیویارک پوسٹ کی خبر کے مطابق کچھ دوستوں نے کہا کہ دواجی پرجوش ہیں لیکن بڑھتی ہوئی توجہ پر جذباتی ہیں۔

Mamdani kisses his wife Rama Duwaji's hand at an election event
Getty Images
دونوں کی ملاقات ایک ڈیٹنگ اپ پر ہوئی تھی

دواجی نے نیو یارک شہر کے سکول آف ویژول آرٹس سے عکاسی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

ان کا زیادہ تر کام سیاہ اور سفید رنگ میں ہے اور عرب دنیا کے مناظر کی عکاسی کرتا ہے۔

انتخابی مہم کے ترجمان نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ رما دواجی خود ٹیکساس میں پیدا ہوئی تھیں اور نسلی طور پر شامی ہیں۔

سنہ 2022 میں ان کا کام بی بی سی ورلڈ سروس کی دستاویزی فلم ’ہو کلِڈ مائی گرینڈ فادر‘ (کس نے میرے دادا کو قتل کیا) میں دکھایا گیا جس میں 1974 میں ایک یمنی سیاستدان کے قتل کی تحقیقات کی گئیں۔

رما دواجی
Reuters

انسٹاگرام پر موجود ان کے کچھ کاموں میں ’امریکی سامراجیت‘ پر تنقید کی گئی ہے۔ انھوں نے ’اسرائیلی جنگی جرائم‘ اور فلسطینیوں کی ’نسل کشی' کی مذمت کی ہے جو ان کے شوہر کی پالیسی موقف کی عکاسی کرتی ہے۔

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔

ان کے کام میں کولمبیا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل محمود خلیل کی حمایت بھی ظاہر ہوتی ہے جنھیں ٹرمپ انتظامیہ ان دعوؤں پر ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ فلسطینیوں کی وکالت کرنے والا ان کا کام یہودیوں کے خلاف ’دشمنی‘ کے مترادف ہے۔

انھوں نے اپریل میں ویب سائٹ ینگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ بروکلین میں مقیم فنکار نے کورونا وائرس کی وبا کا زیادہ تر حصہ دبئی میں گزارا، جہاں ان کا خاندان رہتا ہے۔

اس انٹرویو میں ان سے مشرق وسطیٰ میں حالیہ واقعات ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی اور امیگریشن چھاپوں میں تیزی سے اضافے کے بارے میں پوچھا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں جھوٹ نہیں بولوں گی ، نیویارک شہر میں اس وقت چیزیں تاریک ہیں۔ میں اپنے دوستوں اور کنبے کے لیے پریشان ہوں، اور چیزیں مکمل طور پر میرےاختیار سے باہر محسوس ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بہت سارے لوگوں کو خوف کی وجہ سے باہر دھکیل دیا گیا ہے اور خاموش کیا جا رہا ہے۔ میں صرف اپنی آواز کو استعمال کر سکتی ہوں کہ میں امریکہ، فلسطین اور شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات کروں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US