پشاور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی جانب سے الیکشن کمیشن کی طلبی نوٹس کے خلاف دائر رٹ پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
رٹ کی سماعت کے دوران جسٹس سید ارشد علی نے وزیراعلیٰ کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے لیے مسائل خود پیدا کرتے ہیں جب آپ نے الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ جوائن کرلی تو پھر انتظار کریں، الیکشن کمیشن کوئی تادیبی کارروائی کرے تب ہمارے پاس آئیں، جبکہ جسٹس وقار احمد نے کہا کہ آپ کے خلاف الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی تو نہیں کی۔
رٹ کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس سید ارشد علی اور جسٹس وقار احمد نےکی۔ دو رکنی بینچ نے رٹ پر سماعت شروع کی، اس دوران عدالت میں وزیراعلیٰ کے وکیل بشیر وزیر ایڈووکیٹ اور الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء خرم شہزاد پیش ہوئے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ہری پور میں جلسہ کے دوران وزیراعلیٰ نے خطاب کیا تھا مگر یہ جلسہ الیکشن والے حلقے سے باہر تھا۔ انہوں نے بعدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے جب سے حلف اٹھایا ہے مختلف علاقوں میں جا کر عوامی جلسے کررہے ہیں، جلسہ میں خطاب کے بعد الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو نوٹس جاری کرکے انہیں طلب کیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ نے دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال کیا جبکہ جلسہ حویلیاں میں تھا جو این اے 18 کی حدود سے باہر ہے۔ نوٹس کے مطابق الیکشن ایکٹ کے سیکشن 234 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر وزیراعلیٰ کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایا۔ وزیراعلیٰ نے تقریر کے دوران کہا تھا کہ اگر کوئی دھاندلی کرے گا تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
جس پر جسٹس وقار احمد نے کہا کہ آپ کے خلاف الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی تو نہیں کی، جبکہ جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ جب آپ نے الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ جوائن کرلی تو پھر انتظار کریں، جب الیکشن کمیشن کوئی تادیبی کارروائی کرے تب ہمارے پاس آئے، آپ اپنے لیے مسائل خود پیدا کرتے ہیں۔
وزیراعلیٰ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف دو کارروائیاں چل رہی ہے، ایک ڈسٹرکٹ مانٹیرنگ آفس اور دوسری الیکشن کمیشن کی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار ہے، انتخابات کے کوڈ آف کنڈٹ پر عمل درآمد کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، الیکشن کمیشن کے اسٹاف کو دھمکانا بھی ضابط اخلاق کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن ہمارے خلاف کوئی بھی آرڈر پاس کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن کارروائی کرے مگر فائنل آڑدر پاس نہ کرے۔
اسی طرح فاضل بینچ نے عمر ایوب کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت کی تو وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ شہرناز عمر ایوب این اے 18 کے ضمنی انتخابات میں امیدوار تھی، الیکشن کمیشن نے شہر ناز عمر ایوب کو 20 نومبر کو غیر قانونی نوٹس جاری کیا ہے کیونکہ اس نے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس کے ساتھ شہر ناز عمر ایوب نے نہ جلسے میں شرکت کی نہ ہی ان کو وزیراعلیٰ کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔
جس پر جسٹس سید ارشد علی نے کہا کہ شہر ناز عمر ایوب نے تو کچھ نہیں کیا پھر کیوں ان کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار پیش ہو کر اپنی پوزیشن واضح کرلے، الیکشن کمیشن نے ابھی درخواست گزار کے خلاف کوئی واضح کارروائی نہیں کی، عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر دونوں رٹ پٹیشنز پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔