دو عالمی ریکارڈ توڑنے کی ’کامیاب کوشش‘ کرنے والے سلطان گولڈن جنھیں والد یہ کام کرنے سے منع کرتے تھے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سلطان محمد گولڈن نے ریورس ڈرائیو اور ریورس جمپ میں عالمی ریکارڈ قائم کر کے اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کروا لیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سلطان محمد گولڈن نے ریورس ڈرائیو (یعنی پیچھے کی جانب گاڑی چلانا) اور ریورس جمپ کے دو عالمی ریکارڈز توڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

سلطان گولڈن نے 121 فٹ کی ریورس جمپ کی ہے جبکہ انھوں نے 57 سیکنڈز میں ایک میل کا فاصلہ ریورس گاڑی چلاتے ہوئے طے کیا۔

عالمی ریکارڈز توڑنے کی اس تقریب میں پاک ویلز سے منسلک سنیل منج بھی بطور گواہ (وٹنس) موجود تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’89 فٹ کی ریورس جمپ کا گنیز ورلڈ ریکارڈ 2014 میں امریکی شخص راب ریرڈک نے قائم کیا تھا، جبکہ سلطان گولڈن نے 121 فٹ کی ریورس جمپ کی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ گنیز ورلڈ ریکارڈ کی انتظامیہ کے ضوابط اور شرائط -- جیسا کہ زمین پر لینڈ ہونے کے بعد کار درست حالت میں تھی یا نہیں، گاڑی کون سی تھی اور اس میں کس نوعیت کی موڈیفیکیشنز (تبدیلیاں) کی گئی تھیں وغیرہ -- ہوتی ہیں، جن کے اوپر نئے ریکارڈز کو پرکھا جاتا ہے اور کامیابی کا اعلان کیا جاتا ہے۔

دوسرے ریکارڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنیل منج نے کہا کہ دوسرا ریکارڈ ریورس گاڑی چلاتے ہوئے ایک میل کا فاصلہ طے کرنے سے متعلق تھا، جس میں سلطان گولڈن نے 57 سیکنڈز میں یہ فاصلہ طے کیا ہے۔

یاد رہے ریورس ڈرائیو کا موجودہ ریکارڈ ایک منٹ 15 سیکنڈز کا ہے۔

سنیل منج کے مطابق ’فی الحال ہم کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے کامیابی کے ساتھ دونوں ریکارڈز توڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے، گنیز ورلڈ ریکارڈز میں نام کے اندارج کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار ہے جس کی بنیاد پر نئے ریکارڈز کو پرکھا جائے گا اور پھر کامیابی یا ناکامی کا اعلان کیا جائے گا۔‘

تاہم سلطان گولڈن کی جانب سے ان کامیاب کوششوں پر صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان سمیت متعدد اعلیٰ شخصیات نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت نے اُن کے لیے کیش انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔

65 برس کے سلطان گولڈن ضلع پشین کے رہائشی ہیں مگر وہ گذشتہ 40 برس سے لاہور میں مقیم ہیں۔ انھوں نے سنیچر کے روز کوئٹہ میں ڈی ایچ اے کی مرکزی شاہراہ پر نئے ریکارڈز بنانے کی کوشش ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سلطان گولڈن کا کہنا تھا کہ ’بچپن میں ہم کوئٹہ جا کر فلمیں دیکھتے تھے۔ انگلشںفلموں میں سٹنٹ وغیرہ ہوتے تھے، جن کو دیکھ کر مجھے اُن کا شوق ہوا۔ میں نے ابتدا موٹر سائیکل سے کی اور جب اس پر پریکٹس ہو گئی تو گاڑی سے ریورس جمپ اور ریورس سپیڈ میں مہارت حاصل کی اور آخِر کار دو ریکارڈز بنا کر اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کروانے کا خواب پورا کیا۔‘

وہ اپنی ان کامیابیوں کو پاکستان کی جیت اور اعزاز سمجھتے ہیں۔

سلطان گولڈن اتنا عرصہ کہاں غائب رہے؟

اس مہارت میں آپ کا استاد کون ہے؟ اس سوال کے جواب میں سلطان گولڈن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا کوئی استاد نہیں ہے بلکہ اپنے بچپن کے شوق کی وجہ سے میں نے خود اس میں مہارت حاصل کی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے سنہ 1994 سب سے پہلے ریورس کار جمپ میں فیصل آباد میں ریکارڈ بنایا مگر اس وقت حکومت نے اُن کے ریکارڈ کو گنیز بک ورلڈ ریکارڈ کی انتظامیہ کو نہیں بھیجا۔

سلطان گولڈن نے بتایا کہ وہ گذشتہ کئی برسوں سے تبلیغ کے کام میں شمولیت اختیار کر رہے تھے اور اس حوالے سے اُن کے خدشات تھے کہ آیا ان کا شوق جائز ہے یا نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے فتویٰ لیا کہ یہ کام جائز ہے اور دوبارہ اپنے شوق کی تکمیل کی ٹھانی۔

سلطان گولڈن کا کہنا ہے کہ امریکی شہری کی جانب 89 فٹ کا لانگ جمپ کے ریکارڈ کو کافی لوگ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ سلطان گولڈن نے ریکارڈ توڑنے کی یہ کوشش کسی باقاعدہ ٹریک کے بجائے ڈی ایچ اے کوئٹہ کی مین روڈ پر کی ہے۔

’گنیز بک کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں‘

ان ریکارڈز کو بنانے کے لیے انھوں نے جو پریکٹس کی اس پر بات کرتے ہوئے سلطان گولڈن نے کہا کہ اُن کی پریکٹس تو کافی عرصے سے جاری تھی مگر آخری دو دن میں اُن کی جانب سے کی گئی مشق میں اُن کی ریورس سپیڈ ایک منٹ پانچ سیکنڈ تھی تاہم جس روز انھیں اس کا عملی مظاہرہ کرنا تھا اس روز وہ اس دوانیے کو کم کر کے 57 سیکنڈ کرنے میں کامیاب رہے۔

انھوں نے کہا کہ گنیز ورلڈ ریکارڈ والے ہر چیز کا ثبوت مانگتے ہیں اور ان کی جانب سے ریورس سپیڈ کا مظاہرہ بغیر ’سیفٹی کٹ‘ اور بغیر موڈیفیکیشن کے کیا گیا کیونکہ یہی گنیز کی شرائط میں سے ایک ہے جبکہ ریورس جمپ میں موڈیفیکیشن کی جا سکتی ہے۔

’والد یہ کام کرنے سے منع کرتے تھے‘

ایک سوال کے جواب میں سلطان گولڈن نے بتایا کہ ’بچپن میں والد صاحب نے کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ وہ منع کرتے تھے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ رہتا ہے اور چوٹ لگ سکتی ہے۔ اس وقت جب پریکٹس کر کے آتا تو زخمی ہوتا تھا مگر پھر میں والد کے سامنے بہانہ بنا دیتا تھا۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’پھر آہستہ آہستہ ہاتھ صاف ہوتا گیا۔ اور پھر پشین میں پہلی کار جمپ کی، جو غالباً 1982 یا 1983 کی بات ہے۔ اس کے بعد میں نے کافی جگہ فیسٹیول میں اس فن کا مظاہرہ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جن گاڑیوں کو ہم جمپ کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہ عام گاڑیاں ہیں جن کو ہم موڈیفائی کرتے ہیں ورنہ دنیا میں جو گاڑیاں اس کام کے لیے استعمال ہوتی ہیں اُن کی قیمت ہی 20 سے 25 کروڑ ہے۔‘

ان کے مطابق جو مہارت وہ دکھا رہے ہیں وہ سٹنٹ نہیں، بلکہموٹر سپورٹس ہے۔ ’سٹنٹ فلموں میں ہوتا ہے جبکہیہ حقیقی سپورٹس ہے۔ اگر گنیز بک میں آپ دیکھیں تو یہ آٹو سپورٹس کے کیٹگری میں آتا ہے۔‘

اپنے آئندہ کے ارادوں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں کار کو آگ لگا کر جمپ کروں گا، جو دنیا میں آج تک کسی نے نہیں کیا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US