آج کا نوجوان اور منشیات کا بے جا استعمال

نشے کی لعنت کسی بھی معاشرے کے لیے حقیقت میں ایک بہت ہی سنگین خطرہ ہے۔پاکستان میں منشیات کے استعمال میں دن بہ دن تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے زیا دہ تر نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ منشیات کی بنیادی وجہ دین سے دوری اور نشہ آور اشیاء کے استعمال سے ہونے والے نقصانات سے بے خبری ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ منشیات کی لپیٹ میں سب سے ذیادہ تعداد آج کے نوجوان کی ہے ۔ آج کل کے دور میں نوجوان یہاں تک کہ لڑکیوں میں بھی منشیات کا استعمال ایک فیشن بن چکا ہے۔ ان منشیات کی آسان دستیابی کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن نہیں لیا جاتا اور نہ ہی سنجیدگی کے ساتھ قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ جب تک اس مسئلے کی روک تھام کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جایں گے۔تب تک ان پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ حکام آپس میں مل جل کر اس بڑھتی ہوئی وبا کے خلاف کارروائی کرکے اس پر کنٹرول کریں۔ اور اس کی روک تھام کے لئے سنجیدگی کے ساتھ کام کریں۔ منشیات ایک لعنت ہے جو معاشرے کو بری طرح سے متاثر کر رہی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی منشیات سے پرہیز لازم ہے۔ منشیات کے عادی لوگوں میں 60فیصد لوگوں کی عمر 15 سے 30 سال کے درمیان ہے۔ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال کس طرح ہمارے نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہے ۔ پاکستان میں استعمال ہونے والے نشے میں مختلف اشیاء سگریٹ، افیون اور ہیروئن وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نشے کے عادی لوگوں کی کثیر تعداد انجکشن کی مدد سے بھی نشہ آور ادویات جسم میں انجیکٹ کرتے ہیں۔ انجکشن کا استعمال جسم کے اہم اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے۔ انجکشن کے ذریعے نشہ آور ادویات کا استعمال کرنے والے تھوڑے ہی عرصے میں معمول کے مطابق زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔

نشہ آور ادویات کا استعمال خواتین میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حالیہ سٹیڈی کے مطابق نشے کی عادی خواتین میں 61 فیصد پڑھی لکھی ہیں۔ جن میں 38فیصد یونیورسٹی اور کالج گریجویٹ ہیں۔ ان میں سیبہت سی خواتین شوقیہ یا دوستوں کی وجہ سے نشہ کرنے لگتی ہیں۔ نشے کی ایک اور شکل شیشہ ہے ۔شیشہ کا استعمال نوجوان نسل کے لئے ایک نئے خطرے کے طور پر سامنے آ رہا ہے ۔ گروپ کی صورت میں 40 منٹ کا شیشہ 200 سگریٹ پینے کے برابر ہے ۔جو کہ نہایت ہی خطرناک ہے۔ منشیات کا استعمال کرنے والے لوگوں کے چہرے کی رنگت بدل جاتی ہے۔ ان میں سننے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ آنکھیں ہر وقت سرخ رہتی ہیں۔ بھوک کم لگتی ہے اور وزن گھٹنے لگتا ہے۔ خون میں نشے کے باعث خرابی پیدا ہو جاتی ہے ۔جس کے نتیجے میں میں تمام اعضائے جسمانی متاثر ہو جاتے ہیں۔ جو انسان کے لئے موت کا باعث بن جاتے ہیں ۔ پاکستان کا روشن مستقبل تیزی سے منشیات کی لپیٹ میں آ رہا ہے ۔

حال ہی میں ایک اور نشے کا نام سننے میں آرہا ہے ۔ جسے آئس ڈرگ یا پارٹی نشہ کہتے ہیں ۔جس کا زیادہ شکار طلباوطالبات ہیں۔ آئس ڈرگ 500 سے 1000 روپے میں آسانی سے دستیاب ہے۔ حال ہی میں آئس کرسٹل ڈرگ کے متعلق حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔ آئس بہت تیزی سے ہمارے معاشرے کا حصہ بن رہی ہے۔ نوجوان نسل جس تیزی سے اس کا شکار ہو رہی وہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے ۔ نوجوان اس قسم کے نشے کو تفریح کا حصہ سمجھتے ہیں۔ آئس ڈرگ جسے پارٹی نشہ کہتے ہیں۔ پارٹی سے نکل کر تعلیمی اداروں کا رخ کر چکی ہے۔ ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں آئس ڈرگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔آئس ڈرگ کا نام حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل ہیروئن افیون اور سگریٹ وغیرہ ہی منشیات میں شمار ہوتی تھی۔ آئس ڈرگ کی فروخت کی سب سے بڑی وجہ اس کا بغیر بدبو کے ہونا ہے ۔ اسے سگریٹ کی مدد س کہیں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

اس نشے کی کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ یہ مسلسل جاگتے رہنے کے عمل میں مدد دیتا ہے ۔ اسی باعث نوجوانوں میں اس کی مقبولیت زیادہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق کے آئس ڈرگ کی بڑی مقدار افغانستان سے پاکستان سمگل کی جا رہی ہے ۔ جب کہ اس کے علاوہ چین اور ایران سے بھی مختلف طریقوں سے پاکستان پہنچ رہی ہے ۔ملک کے مختلف حصوں میں موجود خفیہ لیبارٹریز بھی اس آئس ڈرگ کی تیاری کرکے مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں ۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس ڈرگ کا استعمال کرنے والے افراد پہلے ہیروئن یا کسی دوسری قسم کی منشیات کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔

منشیات کی روک تھام کسی ایک فرد یا ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اسے ملکی وقومی یکجہتی سے حل کرنا چاہیے۔ وہ کمپنیاں اور افراد جو منشیات کو فروغ دے رہے ہیں ہیں ان کے خلاف نوٹس لیا جائے اور بروقت کارروائی کرکیاس کے مزید فروغ کو روکا جائے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ بروقت اقدامات کرکے منشیات کی روک تھام کو یقینی بنائے ۔تاکہ نوجوان جو کہ قوم کا مستقبل ہیں انہیں وقت رہتے سنبھالا جا سکے۔ والدین کو بھی بچوں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔ ان کی سرگرمیوں کو زیرغور رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی چاہیے کہ اس سنگین مسئلے کی روک تھام میں اپنا اہم کردار ادا کرے ۔ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کو چاہیے کہ قوم کے مستقبل نوجوان کو اس سے دور رہنے کی تلقین کریں ۔اور اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ رکھیں ۔ اس کے علاوہ انسداد منشیات کی روک تھام اور علاج کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ نشے کے عادی افراد سے ہمدردی ،رحمدلی اور محبت کا سلوک کریں۔ انہیں یقین دلایا کہ وہ اپنی قوت ارادی سے اور اس علاج سے مکمل ٹھیک ہو جائیں گے ۔ اور پہلے کی طرح نارمل زندگی گزار سکیں گے۔

Sobia Shaukat
About the Author: Sobia Shaukat Read More Articles by Sobia Shaukat: 5 Articles with 5124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.