آج کی عورت

شرف میں بڑھ کے سرَیّا سے مشتِ خاک اسکی
کہ ہر شرَف ہے اسی درج کا درِمکنوں

یوں تو عورت شرافت ہے عصمت ہے باوفا شرم و حیا کا پیکر ہے مگر وہی عورت مکمل شر بھی ہے ۔ سلجھی ہوئی نرم دل گھر بنانے والی محنت کش تو ہے مگر یہی عورت معاشرے میں فتنہ پرور بھی ہے۔یوں تو ہر جگہ مرد کی حکمرانی ہے ظلم ہے دہشت ہے پر کیا آج کی عورت مکمل مظلوم سادہ و بے ضرر بھی ہے ؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے بنا ایک گھر ایک معاشرہ ایک نسل کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے، یہ عورت ہی ہے جو معاشرے کی بنیاد ہے۔ جنم دینے والی ماں ہے تربیت کرنے والی استاد ہے۔ ایک بہن ہے عزت ہے بیٹی ہے رحمت ہے۔ دینِ اسلام اور اس دنیا میں عزت کے تمام تر رتبے عورت کو عطا کئے گئے ،

زمانہ قدیم میں جہاں عورت کو کمزور اور کمتر ہی سمجھا جاتا تھا عورت کا مرد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونےکا کوئی تصوّر نہ تھا ، عورت کے پاس کوئی اختیارات تھے ہی نہیں ، عورت گھر میں پیدا ہو کر گھر میں ہی مر جانے کی حقدار سمجھی جاتی تھی ، بس یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی عظیم ہستیوں میں عورت خال خال ہی نظر آتی ہے ، آج سے چودہ سو سال پہلے عورت ظلم و تشدّد کا شکار تھی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ مگر جب رسولِ خدا ﷺ دنیا میں تشریف لاۓ تو عورت کو عزت ملی مرتبہ ملا برابر کے حقوق ملے حتٰی کہ وراثت کی حقدار ٹھرائی گئی ۔ اور آج دنیا کے کئی حصّوں میں عورت کا مقام رتبہ نمایا نظر آتا ہے ، میڈیا ہو یا ہماری سوسائٹی کا کوئی بھی حصّہ عورت اپنے حقوق کیلیئے کہیں پیچھے نہیں ، لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اختیا رات کا غلط استعمال کیا جاۓ ؟ مرد کے شانہ بشانہ چلنے کیلئے یہ ضروری تو نہیں کہ کوئی بھی روش اختیار کرلی جاۓ ، اایسا ضروری تو نہیں کہ عورت ہی مظلوم ہو ، اپنی طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال کرنے والی خواتین یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ بہت سی معصوم مظلوم بے آسرا عورتیں جو اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی زیادتی اور ایسی تمام غیر اخلاقی رویّوں کے جواب اور انصاف کیلئے نہ جانے کتنی مشکلات کا سامنا کر تی ہیں ،مگر پھر بھی مایّوسی انکا مقدّر بنتی ہے ۔ بات یہ نہیں کہ تمام مرد ظالم اور عورتیں ہی مظلوم ہیں دراصل اختیارات جسکو بھی ملے چاہے مرد ہو یا عورت اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے میں ہرگز پیچھے نہیں ہٹتے ، اختیارات صحیح جگہ صحیح طرح سے استعمال ہوں تو کوئی اپنے حقوق سے محروم نہ رہے نہ مرد نہ عورت ۔ عورت اور مرد دونوں برابر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ تو پھر ایک دوسرے سے برتری حاصل کرنے کی جنگ آخر کب تک جاری رہیگی !

Ramsha Anjum
About the Author: Ramsha Anjum Read More Articles by Ramsha Anjum: 4 Articles with 5625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.