بیروزگار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ

کل مجھے ڈگری تصدیق کروانے کے لیے فارن آفس جانے کا اتفاق ہوا۔میں صبح سویرے تقریباً8:15 بجے وہاں پہنچا۔جب میری نظر وہاں پر موجود لوگوں کے بہت بڑے ہجوم پر پڑی تو میں سمجھا کہ یا تو یہاں پر نوکریوں کے لیے ٹیسٹْ/ انٹرویوز ہو رہے ہیں یا پھر یہاں کوئی میلا لگا ہوا ہے ۔لیکن جب میں وہاں پر پہنچا تو یہ جان کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہاں پر مو جود نوے فیصد وہ لوگ ہیں جو ہمارے مزدور بھائی روزگار کی تلاش میں سعودی عرب یا دوبئی جانا چاہتے ہیں۔ میں نے وہاں پر موجود لوگوں سے معلوم کیا کہ آپ کے یہاں آنے کا کیا مقصد ہے ؟معلوم کرنے پر مجھے علم ہوا کہ سعودی عرب اور دوبئی کی حکومتوں نے ایک قانون پاس کیا ہے جس کے مطابق سعودی عرب اور دوبئی میں ملازمت کی تلاش میں جانے والے ہر فرد کے لیے پولیس کریکٹر سرٹیفیکیٹ درکار ہوگا جو کہ فارن آفس کے ساتھ ساتھ متعلقہ ایمبیسی سے بھی تصدیق ہونا چاہیے،اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر میں تو گھبرا گیالیکن پھر بھی میں ایک قطار میں لگ گیا جو کہ ڈاکخانے کی طرف جا رہی تھی جہاں سے کاغذات پر لگنے کے لیے پانچ روپے والا ایک عدد ٹکٹ درکار تھا اور مجھ سے آگے کم از کم دو سو آدمی قطار میں کھڑے تھے اور ڈاکخانے میں ٹکٹ دینے کے لیے ایک پرانی سی کھڑکی پر ایک آدمی موجود تھاخدا خدا کر کے تقریباً 10:15پر میری باری آئی اور ٹکٹ ملنے کے بعد مجھے ایسی خوشی محسوس ہوئی جیسے کہ میں نے کوئی بہت بڑا میدان مار لیا ہو۔ تصدیق ہونے والے کاغذات پر لگنے والا ٹکٹ ایک مخصوص ٹکٹ ہوتا ہے جو کہ صرف فارن آفس والے ڈاکخانے پر ہی دستیاب ہوتا ہے۔ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد میں تھوڑا سا آگے بڑھا تو مجھے ایک اور قطار میں لگا دیا گیا جس میں کم از کم تین سو سے ساڑھے تین سو افراد موجود تھے جو کہ آفس کے اندر جا رہی تھی تقریباً 11:55پر میں آفس کے اندر پہنچ گیا ہال افراد سے کچھا کھچ بھراہوا تھا۔آفس کے اندر مجھے ایک اور قطار میں لگنا پڑا اس قطار میں لگنے کا مقصد ٹوکن حاصل کرنا تھا اس قطار میں کم ازکم چالیس سے پچاس افراد موجود تھے تقریباً 12:25پرکے بعد میری باری آئی اور ٹوکن حاصل کرنے کے بعد تصدیق ہونے والے کاغذات کی ایک عدد فوٹو کاپی درکار تھی جو کہ ٹکٹ لگنے کے بعد ہوتی ہے ۔فوٹوکاپی کروانے کے لیے مزید ایک اور قطار میرا انتظار کر رہی تھی جس میں کم از کم ایک سو سے اوپر افراد موجود تھے اور یہ قطار ہال کے اندر بل کھا رہی تھی۔تقریبا پینتیس منٹ بعد ایک بجے میری باری آئی۔ فوٹو کاپی کروانے کے بعد مجھے اپنی باری کے انتظار کے لیے بیٹھنے کو کہا گیا لیکن ہال میں موجود افراد کی تعداد وہاں پر موجود کرسیوں کی تعدادسے کہیں زیادہ تھی میں بھی ایک کونے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور اپنی نظریں کاؤنٹر ز پر جمالی جن پر ٹوکن کے نمبر چل رہے تھے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد دو بجے میرا ٹوکن نمبر پکارا گیا تو میں بھاگتا ہوا کاؤ نٹر کی جانب بڑھا اور اپنے کاغذات جمع کروا دیے ۔اس کے بعد مجھے مزید انتظار کا کہا گیا اس ساری صورت حال کو دیکھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ ہمارے ملک میں یہ کیسا قانون ہے جس میں ہمارامزدور طبقہ عوام زلیل و خوار ہو رہی ہے میں اپنی بات نہیں کر رہا مجھے فکر ہے اُن لوگوں کی جو بیرونِ ممالک جانے کے لیے اِن مشکل منازل سے گزر رہے ہیں اس عوام کے لیے نا تو یہاں پر کوئی مخصوص کاؤنٹرتھا اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرنے کے لیے کوئی نمائندہ موجود تھاجیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مزدوری کے لیے سعودی عرب اور دوبئی جانے والے افراد کی اکثریت تعدادپڑھی لکھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کو رہنمائی کی اشدضرورت ہوتی ہے۔ وقت گزارنے کے لیے میں ایک شخص کے پاس بیٹھ گیا جو کہ دوبئی جانے کی خواہش رکھتا تھاسلام کرنے کے بعد میں نے اُس کے ساتھ گُفتگو کا آغاز کیا معلوم کرنے کے بعد علم ہواکہ کامران نامی یہ آدمی آزاد کشمیر سے صبح پانچ بجے آفس کے باہر پہنچااُس نے اپنے بارے میں مزید بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اُس نے اپنے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے بارہا چکر لگانے کے بعد سرٹیفکیٹ حاصل کیا جس کی میعاد صرف چھ ماہ ہوتی ہے اور ہماری پولیس کے رویے کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ایک سرٹیفکیٹ حا صل کرنے کے لیے اُس کو کون کون سے پاپڑ بیلنے پڑے ہوں گے۔اُس کا مزید کہنا تھا کہ یہ سرٹیفیکیٹ فارن آفس سے تصدیق کروانے کے بعد دوبئی ایمبیسی سے تصدیق ہو گاجس کے بعد میرے کاغذات ویزا حاصل کرنے کے لیے مکمل ہوں گے اور اگر چھ ماہ کے اندر ویزا جاری نہیں ہوتا تو یہ سرٹیفیکیٹ دوبارہ حاصل کرکے انہی منازل سے گزرنا پڑے گا ۔اتنے میں جونہی اُس کا ٹوکن نمبر پکارا گیا تو اُس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دکھائی دی اور وہ اُٹھ کر کاؤنٹر کی جانب چلا گیاکاغذات وصول کرنے کے بعد جاتے ہوئے وہ مجھ سے ملنے آیا تو میں نے اُسے گلے لگا کر مبارک باد دی وہ مسکرایا اور خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔کچھ ہی دیر کے بعد میرا ٹوکن نمبر بھی پکارا گیا اور میں نے اپنے کاغذات وصول کیے۔اس وقت تقریباً 3:15کا ٹائم تھااس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کاغذات تصدیق کرنے کے لیے 7 سے8گھنٹے کا وقت درکار ہوگااوراس کے ساتھ ان ساری منازل سے گزرنا پڑے گاجن کا ذکر میں اوپرکر چکا ہوں۔وہاں پر ایسے لوگ بھی تھے جو بہت دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تھے اور دو دو دنوں سے یہاں پر موجود تھے کیونکہ جمع کروانے کاوقت دن 2:00بجے تک ہوتا ہے اور اگر کو ئی دیرسے آتا ہے تو اس کو اگلے دن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ آفس اسلام آباد میں ایک ایسی جگہ پر موجود ہے جہاں جانے کے لیے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں آفس تک پہنچنے کے لیے یا تو اپنی گاڑی ہونی چاہیے یا پھر پرائیویٹ ٹیکسی کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔سعودی عرب اور دوبئی نے تو اپنے اپنے ممالک کے لیے یہ قانون بنا لیالیکن ہماری گورنمنٹ نے اپنی عوام کے لیے اس قانون کے مقابلے میں کوئی اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے عوام کو یہاں پر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔میری اعلی احکام سے گزارش ہے کہ کاغذات کی تصدیق کرنے کے لیے ضلعی سطح پر ایک ایک سینٹر قائم کیا جائے تاکہ لوگ اس پریشانی سے چھٹکارا حاصل کر سکیں اگر گورنمنٹ ایسا نہیں کر سکتی توپھر کم از کم ان فارن دفاتر میں مخصوص کاؤنٹر قائم کرنے کے ساتھ عملے میں بھی مزید اضافہ کیا جائے اویہاں پر آنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا اہتمام کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ کاغذات پر لگنے والی مخصوص ٹکٹ بھی ملک بھر کے تمام ڈاکخانوں پر دستیاب ہونی چاہیے۔
 

Azhar Hussain
About the Author: Azhar Hussain Read More Articles by Azhar Hussain: 5 Articles with 8099 views i am a writer and student.. View More