100 قومی نظریہ

بہت سارے لوگوں کو میرے اس لکھے اور میری سوچ سے اختلاف ہو سکتا ہے کیونکہ میں نے آج کے کالم میں اپنے معاشرے کی کچھ تلخ حقیقت بیان کی ہے دراصل انسان جس معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے وہی اسکا اصل ہوتا ہے اور وہ اسی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ اسی طرح انسان اپنے گھر ، محلہ اور اسکول وغیرہ سے بہت کچھ سیکھتا بھی ہے ۔ اسکول کے زمانہ میں ہم نے اپنی کتابوں میں دو قومی نظریہ پڑھا تھا جس میں دو مذاہب یعنی ہندو اور مسلم کی علیحدگی کے علاوہ اور کچھ نہی تھامگر جب ہم اپنی باقی زندگی کی طرف نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ ہندو اور مسلم ہی پاکستان میں علیحدگی کی سوچ نہیں رکھتے بلکہ ہمارا معاشرہ تو ایک گلی میں بھی ایک نہیں ہے کوئی چوہدری ہے تو کوئی کمی، کوئی باجوہ ہے تو کوئی ملک، کوئی چٹھہ ہے تو کوئی گجراور پھر اسی طرح فرقہ واریت کا بھوت بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ سنی شیعہ کو کافر اور سنی شیعہ کو کافر کہ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی تعداد کو کم کرنے میں لگے ہیں ۔ کیا کلمہ پڑھ کر کسی کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے ؟یا پھر کوئی کلمہ پڑھ کر اتنا بڑا شیخ السلام بن جاتا ہے کہ کسی کو بھی جنت اور جہنم واصل کرنے کا اختیار اسکو مل جاتا ہے ؟؟ یہ وہ معاشرہ بن کر سامنے آرہا ہے جس میں دو نہیں بلکہ سو قومی نظریہ پروان چڑھ رہا ہے ۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو دو قومی نظریہ میں بھی ہندو اور مسلم کی نسلوں کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک آزادانہ سوچ کی لڑائی تھی ۔جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلم اپنی عبادت آزادانہ طور پر کر سکیں پھر اسی سوچ کے تحت ہم نے ایک آزاد مسلم ریاست کے طور پر یہ ملک حاصل کر لیا جس سے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک پاکستان پر کچھ خاندان ہی حکمرانی کر رہے ہیں باپ کے بعد بیٹے کی سیاست ابھی تک چل رہی ہے اور موجودہ حالات دیکھ کریوں لگتا ہے کہ کچھ ہزار سال تک ایسے ہی چلتا رہے گا جس طرح ہماری یہ قوم باپ کے بعد بیٹے کے نعرے بڑے دھوم دھام سے لگاتی ہے ۔ لیکن کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو کر آج تک سامنے نہیں آئی۔۔۔!

حتیٰ کہ رمضان المبارک کے دنوں پر بھی متفق نہیں ہیں یہاں تک کہ عید کے چاند پر بھی ہمارا اتفاق نہیں رہا جسکو جب عید کا چاند نظر آتا ہے تب اسکی عید وجود میں آجاتی ہے ایک دوسرے کے درمیان جھوٹ کی تجارت ، ملاوٹ کا روزگار ہمارا کاروبار بن گیا ہے ۔ چھوٹی سی بات پر آپس میں لڑ کر قتل وغارت پر پہنچ جانا کیا اس لیے آزاد ریاست حاصل کی تھی۔۔؟؟ آقاؐ کے فرامین کو پروان چڑھانا ہے تو انکی زندگی کو اٹھا کر دیکھیں کہ وہ ذات کس قدر صبرو تحمل کی علیٰ مثال تھی ۔جس طرح ایک بڑھیا جو کہ اس وقت غیر مسلم تھی اور آپؐ پر راہ گزرتے کوڑا پھینکتی تھی اور صرف ایک دن کوڑا نہیں پھینکا تو محمدؐ اسکے گھر اسکی تیمارداری کے لیے تشریف کے گئے تھے ۔۔اس طرف آؤ ۔۔ لیکن نہیں ہم تو راجپوت ہیں ہم تو جٹ ہیں ہم تو گجر ہیں ہم تو بدلہ لیں گے۔۔ خدا کے واسطے آقاؐ کی زندگی کو پڑھو جنہوں نے زندگی جینے کا اصل مطلب اور طریقہ بتایا ۔۔مگر ہمارے ملا حضرات مساجد میں بیٹھ کر صرف ثواب فروخت کرنے میں لگے ہیں جو جتنے پیسے مسجد کے غلے یا ملا صاحب کے سامنے رکھے گا اسی حساب سے اسے دعائیں دی جائیں گی اور نیکیاں تھما دی جائیں گی ۔ لیکن یہ ہر گز ہرگز آقاؐ کی تعلیمات نہیں تھیں ۔۔!آقاؐ نے تو فرمایا تھا جو جھوٹ بولے گا وہ ہم میں سے نہیں ، کم تولے گا ہم میں سے نہیں ، جو ملاوٹ کرے گا ہم میں سے نہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پھر پورا ملک ایک دفعہ ذبح کرنا پڑے گا لیکن ہمارے کچھ لوگ سمجھتے ہی نہیں بلکہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے ۔ اگر عدالتی نظام کو دیکھا جائے تو عدالتوں میں آپکے کیس کے مطاق مختلف رینج کے کرایہ پر گواہ مل جاتے ہیں المختصر یہ کہ اس ملک کو جب تک کوئی نظام ٹھیک سے چلانے والا نہیں ملے گا تب تک یونہی چلتا رہے گااور جیسے میں نے پہلے لکھا کہ کچھ ہزار سال تک یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے مگر جہاں تک ہمارے بس میں ہے ہمیں کرنا چاہیے کم ازکم اس سو قومی نظریہ کو روکنے کی کوشش کریں جو کہ بہت ہی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور ہم مختلف سے مختلف قومیں بن کر سامنے آرہے ہیں اس قسم کے غلط مائینڈسیٹ کو ختم کرنا ہوگا۔۔!
فقط سچ کو ہی سچ کہنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں۔
 

Osama Siddiq
About the Author: Osama Siddiq Read More Articles by Osama Siddiq: 35 Articles with 25216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.