گداگری کی لعنت اور ہمارا اسلامی معاشرہ

اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے اور اسلامی اصولوں کے مطابق زکوتہ, عشر, صدقہ, خیرات کا ادا کرنا ہی معاشرے سے گداگری کی لعنت کو ختم کر سکتا ھے

حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ہم سات آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ” اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ پانچ نمازیں ادا کرو اور اللہ کی فرمانبرداری کرو اور ایک بات چپکے سے کہی کہ ” لوگوں سے کچھ نہ مانگنا۔” پھر میں نے ان میں بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے (کتاب الزکوٰۃ باب النہی عن المسئلہ)حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے جو مجھے یہ ضمانت دے کہ کبھی کسی سے سوال نہ کرے گا تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔” ثوبان کہتے ہیں کہ میں نے کہا : میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں” چنانچہ اس کے بعد انہوں نے کبھی کسی سے سوال نہ کیا۔ (نسائی، کتاب الزکوٰۃ، باب فضل من لا یسئل الناس شیأا)

فی زمانہ ملک میں’’ گداگری‘‘ بہت عروج پر ہے اور’’ گداگروں‘‘ نے ہر جگہ اپنا راج قائم کر رکھا ہے ۔
حدیث نبوی ہے کہ نیچے والے ہاتھ سے اوپر والا ہاتھ بہتر ہے، یعنی مانگنے والے سے دینے والا اچھا ہے۔

عوامی فہم کے مطابق گداگری سے مراد ’’ ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگنا‘‘ ہے ۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پھیلا کر بھیک منانگنا گداگری کی واحد قسم ہے مگر یہ گداگری عام اور بہت معروف مگر نہایت کمزور اور چھوٹی نوعیت کی قسم ہے.حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص سوال سے بچے اللہ بھی اسے بچائے گا اور جو کوئی (دنیا سے) بے پروائی کرے گا۔ اللہ اسے بے پروا کر دے گا اور جو کوئی کوشش سے صبر کرے گا اللہ اسے صبر دے گا اور صبر سے بہتر اور کشادہ تر کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی۔” (بخاری کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ)
٢۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔” (بخاری۔ حوالہ ایضاً)
٣۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سال الناس تکثرا)عرفہ کے دن ایک شخص لوگوں سے مانگ رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنا تو اسے کہنے لگے ” آج کے دن اور اس جگہ تو اللہ کے سوا دوسروں سے مانگتا ہے؟” پھر اسے درے سے پیٹا۔ (احمد بحوالہ مشکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ فصل ثالث)

گداگری ایک لعنت ہمارے ملک میں آجکل گدا گری باقاعدہ ایک پیشہ بن گیا ہے، اور اس پیشہ میں لوگ جو ق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ عام الفاظ میں گداگری تعریف کے مطابق’’ اپنی غربت ، بے بسی وغیرہ ظاہر کرکے اﷲ نبی ﷺ اور انسانیت کے نام پر بھیک مانگنا ہے ‘‘۔ مگر یہ تعریق مکمل اور سائنٹیفک نہیں ہے ۔اس تعریف کو مکمل اور سائنٹیفک بنانے کے لیے ہم پہلے علمِ معاشیات اور پھر علمِ نفسیات سے مدد حاصل کرتے ہیں۔علمِ نفسیات کے مطابق گداگری پست عقلی معیار کا نام ہے ۔ پست عقلی معیار کو زبانِ عام جہالت کہتے ہیں۔ پست عقلی معیار/جہالت ام المصائب اور مسائل ہے ۔ اس میں مبتلا انسان اخلاقی اقدار اور اُن کی افادیت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا، مذہب کے احکام اور ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیتوں سے عاری ہوتا ہے اور قوانینِ ریاست کے ضوابط پر عمل درآمد کرنے کی اہلیت سے معذور ہوتاہے۔ علاوہ ازیں پست عقلی معیار ہڈ حرامی، تن آسانی اور نااہلی کو جنم دیتا ہے۔ جب یہ بُرائیاں انسان میں جمع ہوجاتی ہیں تو وہ ماحول / معاشرے میں موجود قدرتی عناصر ، اُن سے بنی ہوئی اشیا ، ریاستی وسائل اور والدین کی سہولتوں سے مستفید ہو کر اپنی زندگی کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کے قابل نہیں ہو تا ۔ وہ زندگی کی ضروریات فیملی، معاشرے ،قوم اور ملک سے گداگری کے ذریعے پوری کر تا۔

علمِ معاشیات کی ایک مشہور اصطلاح ’’ مجموعی قومی پیداوار یا آمدنی ‘‘ (Gross National Products) ہے ۔اس اصطلاح کا مطلب وہ تمام اشیا ، خدمات اور دیگر آمدن ہے جو ایک ملک کے لوگ ایک سال میں پیدا کرتے ہیں۔مجموعی قومی پیدا وار میں ملک کے لوگوں کی ایک مخصوص تعداد حصہ لیتی ہے اور دوسری مخصوص تعداد حصہ نہیں لیتی۔دوسری مخصوص تعداد میں شامل افراد کو ’’ انحصاری ‘‘ (Depenents) کہتے ہیں۔علمِ معاشیات کے مطابق ایسے انحصاری افراد جو بغیر کسی معقول وجہ اور حقیقی جواز(بچپن ، بڑھاپہ، معزوری وغیرہ ) کے مجموعی قومی پیدا وار میں واجب حصہ نہیں ڈالتے اور اخلاقی اقدار، مذہبی ہدایات اور قانونی ضوابط کیخلاف مختلف طریقوں اور حربوں (بھیک ، چوری ، ڈاکا ْ ، رشوت ، کرپشن،غبن وغیرہ ) کو استعمال کرکے قومی پیداوار سے مستفید ہوتے ہیں ، کو گداگر کہتے ہیں ۔تغیر یا تبدیلی کسی بھی معاشرے کا ایک فطری عمل ھوتا ھے صدیوں پرانی انسانی تاریخ نے اس کرہ ارض پر زندگی گزارنے کے ہر شعبہ میں اپنی ضروت کے مطابق تبدیلیاں دیکھی بھی ہیں اور خود کی بھی ہیں.میرے پاکستان کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہر اور قصبے بھی اس کا شکار ہیں۔مانگ کر کھانا, اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کیلئے دست طلب دراز کرنے کا طریقہ انسانی تہذیب کی تاریخ کے شاید برابر ہی ہوگا ۔ مگر اگلے وقتوں میں لاچار ؤ ضعیف ، بے یار و مددگار ،بیمار ؤ کمزور, لاغر ؤ اپاہج وغیرہ جیسے افراد دوسروں سے مانگ کر اپنی بنیادی ضرورت زندگی پوری کرتے تھے ۔ پھر شاید ان میں سے کچھ کام چور, کاہل اور محنت سے جی چرانے والوں نے مساجد ، خانقاہوں, سکولوں, دوکانداروں ,بازاروں اور مختلف راستوں, رہائشی علاقوں کے پاس بیٹھ کر آواز لگا کر ,اپنا دکھ, درد, تکلیف بیان کر کے روپے اکٹھا کرنے کا دھندا شروع کیا ۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنے کے نت نئے طریقے ایجاد ہونے لگے ,نئی آوازیں لگا کر, جھوٹی کہانیاں سنا کر بھیک مانگنا ، مصنوعی ؤ خود ساختہ معذوری دکھا کر بھیک مانگنا، گا بجا کر ، کوئی فن بتا اور دکھا کر بھیک مانگنا ، کرتب دکھا کر بھیک مانگنا ، جانوروں کے کھیل دکھاکر بھیک مانگنا وغیرہ وغیرہ ۔ گزرے وقتوں میں مانگنے والے مزاجاً مسکین ہوا کرتے تھے ۔ دینے والوں کی منت سماجت کرتے تھے ۔ اس پر بھی کچھ لوگ ان پر غصہ اور ناراضگی دکھاتے تھے تب بھی اور آج بھی حکومتی ادارے اس کے ذمہ دار تصور ھوتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ گداگر اکثر جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق بڑے چھوٹے چوراہے پر باقاعدہ گدا گر مافیا گدا گروں کو ٹھیکے میں دیتی ہے۔ اور ذمہ ادارے بھی اس میں اپنا ایک خاص حصہ وصول کرتے ہیں۔ گداگری نہ صرف ملک کے لیے بدنامی اور رسوائی کا سبب ہے بلکہ یہ بہت سے جرائم کو بھی جنم دیتی ہے۔ اخباروں میں اکثر آتا رہتا ہے کہ گداگر ڈکیتی اور اس کے متعلق معلومات کا سبب بنتے ہیں وہ خاص طور پر بھکاری بن کر گھروں میں مانگنے کے بہانے داخل ہو کر خواتین کو اکیلا دیکھ کر وار داتیں کرتی ہیں۔ اور گھروں کے متعلق ایسی معلومات جرائم پیشہ افراد تک پہنچانے کا سبب بھی ہیں۔ گداگروں کو اگر کوئی شخص راشن لے کر دینے کی آفر کر ے تو وہ انکار کر دیتے ہیں۔ اور کیش مانگتے ہیں۔ موبائیل فون نے ان کے رابطے مزید بڑھا دیے ہیں۔ چوراہوں پر بیٹھے گداگروں کو کون یہاں چھوڑ کر جاتا ہے۔ اور کون ان کو شام کو یا مخصوص وقت پر لے کر جاتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ یہ گدا گر بچوں کے اغوا اور انہیں اس پیشے سے وابستہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ عرب ملکوں میں اغوا شدہ بچوں کو اونٹوں کی دوڑ کے لیے اسمگل کرنے میں بھی گداگروں کا برا ہاتھ ہے۔پاکستان کے دیگر شہروں اور علاقوں کی طرح یہی حالت میرے شہر چیچہ وطنی کی بھی ہے، خاص طور پر جمعہ کے دن اور عام دنوں میں ہر نماز کے بعد مسجد کے دروازے پر عورتیں اور بچے صدائیں لگاتے نظر آتے ہیں، ہر بازار میں مختلف جگہوں پر بظاہر معذور نظر آنے والے حقدار داروں کا حق مارتے نظر آتے ہیں۔ اور شام کے وقت بوائز کالج ر وڈ اور گرلز کالج روڈ پر برقعہ میں ملبوس عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی نظر آتی ہیں، اور رات تقریباً عشاء کے وقت تک ان کی صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ ان پیشہ ور گدا گروں کی وجہ سے ضرورت مندوں کو بھی انکا حق نہیں ملتا کیونکہ یا تو یہ لوگ لیتے ہیں یا پھر ان کی وجہ سے لوگ بدزن ہو گئے ہیں۔ اور وہ ضرورت مند گدا گروں (حقیقی گدا روں)کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ عام حضرات کو چاہنے کہ وہ اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی خیرات وغیرہ دنے کے لینے اپنے عزیز وا قارب اور محلے میں ضرورت مندوں کو ڈھونڈیں۔ کیونکہ ایسا حکم اسلام اور شریعت میں بھی دیا گیا ہے۔ ان میں بڑی تعداد بچوں کی ہے جنہیں دیگر علاقوں سے اغوا کر کے لایا جاتا ہے جبکہ جب کہ ایسے بچوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ان میں بڑی تعداد بچوں کی ہے جنہیں دیگر علاقوں سے اغوا کرے لایا جاتا ہے جبکہ ایسے بچوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جو غربت کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کون لوگ ہیں جو ان معصوں بچوں کو اغوا کرکے بچپن ہی میں اس کا م پر لگا کر انکی معصومیت چھین لیتے ہیں اور انہیں گداگر جیسی لعنت میں مبتلا کر کے ان کا مستقبل تاریک کر دیتے ہیں، ذمہ دار اداروں کو بھی یہ چاہنے کہ وہ اس لعنت سے ملک و قوم کو نجات دلانے کے لینے خصوصی اقدامات کریں۔ اور ایسے گدا گر جو کہ جعلی طور پر معذور بن کر ملک و قوم کو لوٹ رہے ہیں، میری نظرمیں وہ جرائم پیشہ ہیں، اور ایک جرم کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف باقاعدہ اور بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔

اسلام نے سخاوت اور صدقہ و خیرات کو زندگی کے مصائب اور بیماریوں کے لئے ڈھال قرار دیا ہے لیکن اسلامی ممالک اور ان کے معاشروں میں اس کو جواز بنا کر بھکار ی اور گداگر اللّٰہ رب العزت کے نام پرلوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت کی ہے بنی اکرمﷺ نے فرمایا’’ جو شخص لوگوں سے سوال کرے حالانکہ نہ اسے فاقہ پہنچا، نہ اتنے بال بچے ہیں جن کی طاقت نہیں رکھتا تو قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے منہ پر گوشت نہ ہو گا‘‘بنی اکرمﷺ کے پاس ایک سوالی آیا آپﷺ نے فرمایا کہ سوال کرنے سے کہیں بہتر ہے کام۔ محمد عربیﷺ نے اس شخص سے پوچھا کیا تیرے پاس کچھ ہے ۔اس نے کہا ہاں میرے پاس ایک چٹائی اورپیالہ ہے۔ آپﷺنے فرمایا دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔ جب وہ شخص دونوں چیزیں لے آیا حضور اکر م ﷺ نے دونوں اشیاء کونیلام کیاجس کے دْو درہم ملے، آپ ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ ایک درہم سے کھانا خریدو اور ایک درہم کی کلہاڑی خرید لاؤ۔ وہ شخص آپﷺ کی خدمت میں پیش ہوا توحضور اقدسﷺ نے اپنے دست مبارک سے کلہاڑی کا دستہ لگایا اور فرمایا کہ جنگل میں جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بازار میں بیچو۔ یہ سوال کرنے سے بہتر ہے کہ روز قیامت تیرے چہرے پر بھیک کا نشان نہ ہو گا۔لیکن آج امت مسلمہ میں لاکھوں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جو پیشہ ور گداگر بن چکے اور بھیک کی لعنت سے جڑے ہوئے ہیں۔

آئین پاکستان کے آریٹکل 3 اور11 میں بھیک مانگنا ایک جرم قرار دیا گیا ہے لیکن اس شق پر عمل درآمد اسی طرح کا مذاق جیسے آئین کی شق 62 اور 63 کا نافذ عمل ہونا۔ پاکستان میں بھکاریوں کی تعداد لاکھوں میں ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس جرم کو روکنے کے لئے عملی پیش رفت کرے۔ ایسے بے روزگار، معذور، محتاج، غریب اور نادار افراد کیلئے روزگار کے مواقع کا انتظام کرے اور انہیں زبردستی اس قابل سزا جرم سے منع رکھے۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور حکومت میں بھکاری ہومز بنائے جہاں ان کو مفت کھانا اور لباس فراہم کیا جاتا تھا۔یہ سلسلہ آج بھی چل سکتا ہے۔ ملک میں سرکاری طور پر رائج زکوۃ و عشرکے ساتھ ساتھ ضلعی و صوبائی سطح پر بیت المال کے نظام ہونے کے باوجود گداگروں کا پایا جانا حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپکو شائد حیرت ہو کہ ایسے گدا گر نہ صرف گاڑیوں کے مالک ہیں بلکہ اچھے گھروں کے مالک بھی ہیں اور اگر دکھانے کو جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں تو ان کی جھونپڑیوں میں بھی ڈش، کیبل اور دوسری لگزریز موجود ہیں۔سماج کے اندر ایسے افراد بھی موجود ہیں جواللہ کے خوف، انا اور عزت کے ڈر سے نہیں مانگتے اور سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں ، اب ان مستحق افراد اور دھوکہ باز ڈھونگی بھکاری کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ایسے افراد اْن ضرورت مند، سفید پوش افراد کا حق مار رہے ہیں۔ ایسے پیشہ وار گداگروں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ تلقین کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ محنت کرکے اپنی گزر بسر کریں جو معاشرے پر بوجھ ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی و خوشحالی کے لئے کسی طرح بھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتے۔

حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : ”یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے۔ پھر ہم تیرے لیے کچھ کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کر کے فرمایا : قبیصہ! تین شخصوں کے علاوہ کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑ جائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے۔ دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے کہ اس کا سارا مال تباہ کردے وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آ گئی ہو۔ یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین معتبر شخص اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے اسے سوال کرنا جائز ہے تا آنکہ اس کی محتاجی دور ہو جائے۔ پھر فرمایا : اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کر کے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔” (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب من لایحل لہ المسئلہ )

اس موضوع پر بہت کالم, فیچر, اور بہت سی ڈاکو منٹریز بنی ہیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ عوام کو اس جہاد میں خود حصہ لینا ہوگا۔ تب ہی یہ لعنت اپنے معاشرے سے اپنے آخری انجام کو پہنچے گی۔ اللہ کریم سے دُعا ہے کہ سب کو محنت سے رزق کمانے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ (الکاسب حبیب اللہ) محنت سے روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459158 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More