تزکیہ نفس.......روزے کی حقیقی روح

 (روزہ صبر وضبط،ایثاروہمدردی اورایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلوک کی دعوت دیتا ہے۔اسے تزکیہ نفس اور قربِ الٰہی کا مثالی ذریعہ قراردیا گیا ہے)
اسلام دین فطرت ہے،اس نے ایسی جامع عبادات پیش کیں کہ انسان ہر جذبے میں خدا کی پرستش کر سکے اور اپنے مقصدِحیات کے حصول کی خاطر حیاتِ مستعارکاہرلمحہ اپنے خالق ومالک کی رضاجوئی میں صرف کرسکے۔ نماز،زکوٰة،جہاد،حج اورماہِ رمضان کے روزے ان ہی کیفیات کے مظہر ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے''اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے پچھلی امتوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔'' (البقرہ)
رمضان کے روزوں کامقصد جیسا کہ مذکورہ آیات میں بیان کیاگیا ہے،پرہیز گاری کا حصول ہے۔ماہِ رمضان کے ایّام ایک مومن کی تربیت اور ریاضت کے ایّام ہیں۔وہ رمضان کے روزوں اور عبادات سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے ۔مسلمان حضورِ اکرم ۖسے محبت کا اظہار آپ کی پیروی اوراتباع سے کرتا ہے اور اپنی روح و نفس کا تزکیہ کرتا ہے ، تاکہ زندگی کے باقی ایام میں وہ تقویٰ اختیار کر سکے اور اپنے مقصدِ حیات یعنی اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں اپنی بقیہ زندگی کے دن بسر کر سکے۔دیکھا جائے تو تمام عبادات انسان کے کسی نہ کسی جذبے کو ظاہر کرتی ہیں۔نماز خوف کو،زکوٰة رحم کو،جہاد غصہ و برہمی اور غضب کوحج تسلیم و رضا کو اور روزہ اللہ تعالی سے محبت کو باقی عبادات کچھ اعمال کو بجا لانے کا نام ہیں،جنہیں دوسرے بھی دیکھ لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں۔ مثلاً نمازرکوع و سجود کا نام ہے اور اسے باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے،جہاد کفار سے جنگ کا نام ہے،زکوٰة کسی کوکچھ رقم یا مال دینے سے ادا ہوتی ہے لیکن روزہ کچھ دکھا کر کام کرنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو کچھ نہ کرنے کانام ہے۔وہ کسی کے بتلائے بھی معلوم نہیں ہوتابلکہ اس کوتووہی جانتاہے،جورکھتاہے اورجس کیلئے رکھاگیا ہے۔لہندا روزہ بندے اورخدا کے درمیان ایک رازہے،محب صادق کااپنے محبوب کے حضورایک نذرانہ ہے جوبالکل خاموش اورپوشیدہ طورپرپیش کیاگیاہے۔اسی لئے تونبی اکرمۖ نے فرمایاکہ اللہ کریم نے اپنے روزے داربندوں کیلئے ایک بے بہا انعام کا اعلان فرمایا ہے،وہ یہ کہ''روزے دار"روزہ میرے لئے رکھتاہے،اور میں خوداس کی جزاہوں۔ اللہ رب العزت خودکوجس عمل کی جزافرمارہا ہوتواس کی عطااورانعام و اکرام کاکیااندازہ ہو سکتا ہے۔۔روزہ دراصل بندے کی طرف سے اپنے کریم مولا کے حضورایک بے ریا ہدیہ ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اتنے عظیم انعام واکرام کااعلان فرمایاہے۔

رمضان المبارک کے بہت سے فضائل وخصائص ہیں،ان میں سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں قرآنِ مجید نازل ہوا،اور قرآن پاک میں سال کے تمام مہینوں میں صرف ماہِ رمضان کا نام صراحتاً آیا ہے۔اس سے رمضان المبارک اور قرآن پاک میں گہری مناسبت اور زیادہ تعلق ثابت ہوتا ہے،قرآن اور رمضان المبارک میں ایک گہری نسبت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں بالخصوص شب و روز قرآنِ کریم کی زیادہ تلاوت ہوتی ہے۔

ماہِ رمضان المبارک وہ ہے جس کی شان میں قرآن کریم نازل ہوا،دوسرے یہ کہ قرآنِ کریم کے نزول کی ابتداء ماہِ رمضان میں ہوئی۔تیسرے یہ کہ قرآنِ کریم رمضان المبارک کی شبِّ قدر میں لوحِ محفوط سے آسمان سے دنیا میں اتارا گیااور بیت العزت میں رہا۔یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے،

یہاں سے وقتاً فوقتاً حسبِ اقتضائے حکمت جتنا منظورِ الٰہی ہوا،حضرت جبریل امین علیہ السلام لاتے رہے اور یہ نزول تقریباً تئیس(۲۳) سال کےعرصے میں پورا ہوا۔

بہر حال قرآنِ مجید اور ماہِ رمضان المبارک کا گہرا تعلق و نسبت ہر طرح سے ثابت ہے اور یہ بلاشبہ اس ماہِ مبارک کی فضیلت کوظاہرکرتاہے۔روزہ اورقرآن مجید دونوں شفیع ہیں اورقیامت کے دن دونوں مل کی شفاعت کریں گے۔حضرت عبداللہ بن عمرراوی ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ روزہ اورقرآن مجیدبندے کیلئے شفاعت کریں گے۔روزہ کہے گاکہ اے میرے رب!میں نے کھانے اورخواہشوں سے دن میں اسے روکے رکھا،تومیری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما، قرآن کہے گا کہ اے میرے رب!میں نے اسے رات میں سونے سے بازرکھاتو میری شفاعت اس کے حق میں قبول فرما۔دونوں کی شفاعتیں قبول ہوں گی۔

حضورِ اقدس ۖ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان آیا،یہ برکت کا مہینہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے تم پرفرض کئے ہیں،اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیںاور سرکش شیطانوں کے طوق ڈال دیئے جاتے ہیں اور اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو اس کی بھلائی سے محروم رہا،وہ کل بھلائی سے محروم رہا۔

صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا کہ''آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس سے سات سو گناتک دیا جاتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے فرمایامگر روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا کیونکہ بندہ اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میری وجہ سے ترک کرتا ہے۔

روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں'ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزے دار کے منہ کی بواللہ عزو جل کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ(خوشبودار) ہے اور روزہ ڈھال ہے اور جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ کوئی بے ہودہ گفتگو کرے اور نہ چیخے'،پھر اگر اس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔

اس ماہِ مبارک کی خصوصی عبادت روزہ ہے، جس کامقصد تزکیہ نفس یعنی اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرنااورتقویٰ حاصل کرناہے۔دوسرے لفظوں میں گناہوں سے بچنااورنیکیوں کی طرف رغبت کرناہے۔رسول اللہ ۖ کافرمان ہے کہ جس نے ماہِ رمضان المبارک کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے اورجس نے رمضان میں نمازِ تراویح اورایمان واحتساب کے ساتھ شب بیداری کی،اللہ تعالیٰ اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

اس ماہِ رمضان المبارک کاتقدس اوراحترام کرنا سب مسلمانوں کا انفرادی اوراجتماعی فریضہ ہے۔ یادرکھئے جس طرح قرآنِ کریم رمضان المبارک کی شبِّ قدرمیں لوحِ محفوط سے آسمان سے دنیا میں اتاراگیا،اسی رات کواس دنیا کے نقشے پرپاکستان کامعرضِ وجودمیں آناایک معجزے سے کم نہیں۔اس لئے ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ رمضان المبارک کے شب و روز کی عبادات میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا بھی شکر ادا کریں لیکن کیا کریں یہ بات کہے کالم بھی مکمل نہیں ہوتا کہ رمضان المبارک کی آمد پر جہاں کچھ بد بختوں نے ذخیرہ اندوزی کرکے بیچاری عوام کو مہنگائی کا جو تحفہ دیا ہے اور حکومت نے جس طرح ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے وہاں ان ظالم ذخیرہ اندوزوں کوکڑے ہاتھوں لیکران کی بیخ کنی کرکے غریب اور بیکس عوام کومہنگائی کی لعنت سے بچاتی لیکن وہ تو ملک کے نااہل وزیراعظم کی بے وقت راگنی جس نے اہل وطن کو سخت صدمے سے دوچارکردیاہے،اس کے دفاع میں زمین وآسمان کے قلابے ملارہی ہے جبکہ برطانیہ میں ہر بڑے سٹورمیں رمضان المبارک کی آمدپرروزمرہ کی خوردہ نوش کی قیمتوں کونصف قیمت تک سستاکردیاگیاہے۔ پاکستانی عوام آسمان کی طرف دیکھ کر بڑی بے بسی کے ساتھ کسی ایسے مسیحا کی طرف دیکھ رہی ہے جوان ظالموں اوربدعنوانوں سے ان کونجات دلوائے۔میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان کریم کی برکتوں اوررحمتوں سے مستفیض ہونے کاسلیقہ اورتوفیق عنائت فرمائے۔ثم آمین

میری طرف سے تمام قارئین کوماہِ رمضان مبارک ہو!میری اللہ سے دعا ہے کہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے اوراس ماہِ رمضان کااحترام نصیب فرمائے۔ثم آمین!

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 350239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.