مسلمان مردچوڑیاں پہن لیں

محمد بن قاسم نے کہا تھا’’جب غیرت زنگ آلودہ ہو جائے تو تلواریں پھر رقص میں استعمال ہوتی ہیں ۔‘‘نبی رحمت ؐ کا فرمان مقدس ہے کہ’’نیک لوگ یکے بعد دیگرے(دنیاسے )گزر جائیں گے اور انکے بعد بھوسے یا کجھور کے کچرے کی طرح لوگ دنیا میں رہ جائیں گے جن کی اﷲ پاک کو ذرہ بھی پرواہ نہ ہوگی‘‘(صحیح بخاری6434)ایک وقت تھا جب مسلمان تعداد میں تین سو تیرہ تھے اور قوت میں سب سے زیادہ تھے آج مسلمان تعداد میں سب سے زیادہ ہیں مگر بھوسے یا کجھور کے کچرے کی مانند ہیں الیکشن سر پر ہیں ہر بندہ اپنے طاغوت کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے پھر رہا ہے کوئی رب کو بھگوان کہہ رہا ہے توکوئی غیر اﷲ کے آگے ماتھا ٹیک رہا ہے ،اس پر بھی بڑی بحث جاری ہے درباری ،اشتہاری ملاں متحرک ہوچکے ہیں کہ یہ سجدہ نہیں تھا بلکہ تعظیم تھی افسوس دنیائے کائنات میں رب تعالیٰ کی ذات کے بعد سب سے زیادہ تعظیم کے قابل جناب محمد ﷺ کی ذات مبارکہ ہے اگر ایسی تعظیم جائز ہوتی تو صحابہ اکرام ؓ اﷲ کے برحق رسول مقبولؐ کے آگے جھکتے ۔

سارے اولیا اﷲ قابل عزت وتکریم ہیں کیونکہ یہ اﷲ کے دوست ہیں مگر کسی بھی اولیا اﷲ کی تعلیم ایسی تو نہ تھی اور اگر خدانخواستہ ایسی تعلیم تھی توپھر وہ ولی نہیں ہوسکتا ۔ایک سوچنے والی بات ہے کہ پورے یورپ یا وہ ممالک جہاں دربار یا درگاہیں نہیں وہاں کے لوگوں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کون کرتا ہے ؟صحافت کی طالبہ ہوں اور اسلامی ہسٹری کو پڑھا ہے مجھے آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا ۔اﷲ کی قسم ملک پاکستان کے اندر ان جاہل علماء نے دین کا خانہ خراب کرکے رکھ دیا ہے ۔دین کو مذاق بنا دیا ہوا ہے ہر بندہ اپنی دوکان سجا کر بیٹھا ہے اور جنت کے ٹکٹ جاری کر رہا ہے ۔ان علماء نے اپنی ذاتی مفادات،ترجیحات کی خاطر مذہب اسلام کا اصل چہرہ ہی مسخ کر رکھ دیا ہوا ہے ۔ہر فرقہ دوسرے فرقے کو کھلے عام کافر کہتا ہے ۔ہرگروہ ،جماعت نبی رحمتؐاور صحابہ اکرام ؓ سے محبت کرنے دم تو بھرتی ہے مگر احکامات مصطفیؐ اور صحابہ اکرامؓ کے نقش قدم پر چلنا کسی کو گوارہ نہیں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا !میری رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقوں میں مت بٹو اور ان علماء نے ہمیں فرقوں کے اندر رتقسیم کرکے رکھ دیا ہوا ہے ۔اورایسا ہونا بھی تھا، اس مالک غیب اﷲ رب العزت کی ذات برحق کو علم تھا کہ اُس کے آخری نبیؐ کی امت فرقوں میں بٹے گی ۔آج نبی رحمتﷺ اور صحابہ اکرام ؓ سے محبت کرنے والوں کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے جنت میں ہر بندہ جانا چاہتا ہے مگر مرنا کوئی نہیں چاہتا ۔یہ ملک پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا تھا اس لیے اس ملک پر اقتدار کا حق بھی علماء حق کو ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ان علماء نے اپنے مرتبہ اور مقام کو پہچانا ہی نہیں اور وڈیروں ،جاگیرداروں کی غلامی کو قبول کر لیا ۔یہ علماء انبیااکرام کے وارث ہیں ،اگریہ اپنے مقام کو جان لیتے تو آج مسلمان محکوم نہیں بلکہ حاکم ہوتا ہے ۔آج کے علماء کا کردار بھی علمائے یہود کے کردار سے مختلف نہ ہے جن کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کیا ہے۔’’اے ایمان والو!بہت سے عالم اور درویش لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں ،اور جولوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیے ‘‘(سورۃ التوبہ 34)اسلام مسیحیت کے بعد دنیا کا دوسراسب سے بڑا مذہب ہے 2010کے جائزہ کے مطابق دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.92بلین افراد پر مشتمل ہے ،اس لحاظ سے دنیا کی 29فیصد آبادی صرف مسلمانوں پر مشتمل ہے۔مسلمانوں کے 57آزاد ممالک ہیں ۔مگر افسوس کہ اس کے باوجود مسلمان پھر بھی ذلت ورسوائی کا شکار ہیں ۔آج مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے انکو چوڑیاں پہن لینی چاہیے کہاں ہیں وہ عاشق رسولﷺ؟ جو عشق رسول ؐ میں موت بھی قبول ہے کا نعرہ لگاتے ہیں ۔کہاں ہیں وہ خود ساختہ اسلامی سکالر ،دانشور،محقق ،تجزیہ نگارروشن خیال جویہود ونصاریٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسلام کو جبر کا دین کہتے ہیں،شعائر اسلامی کا مذاق اڑاتے ہیں انکو کون سا سانپ سونگھ گیا ہے،انکی قلمیں اورزبانیں چپ کیوں ہو گئیں ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس الیکٹراونک و پرنٹ میڈیا کو کون سی چپ لگ گئی ہے، جو ایک ہندؤ ادکار کے مرنے پر ،ایک غدار ڈرامہ باز ملالہ یوسف زئی کے پاکستان آنے پر، ایک یہودی ،عیسائی شہزادے کی شادی کی تقریب پر لمحہ بہ لمحہ بریکنگ نیوز دیتا ہے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔حنوط کیوں ہوگیا ہے؟اس خبر کو بریکنگ نیوز کیوں نہیں بنایا جارہا کہ مسلمان عنقریب نیست ونابود ہونے والا ہے اگر اس نے نہ سمجھا اپنا مسلمان ہونا۔ہالینڈ کی اسلام دشمن سیاسی جماعت ’’فریڈم پارٹی ‘‘کے سربراہ ملعون گیرٹ ولڈرزنے ایک بار پھر دنیا کا امن داؤ پر لگاتے ہوئے نبیؐ کے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کر دیا ہے۔یہ مقابلہ بھی ہالینڈ حکومت کے تعاون سے ہالینڈ کی ڈچ پارلیمنٹ کی عمارت میں منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے شہریوں سے آن لائن گستاخانہ خاکے جمع کروانے کی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ یہ مقابلہ برائے راست سوشل میڈیا پر بھی دیکھایا جائے ۔کہاں ہے وہ مسلمان جو آدھی دنیا کا فاتح تھا جسکی دہشت وہیبت سے شاہ اندلس خود کشی کرنے پر مجبور ہوگیا تھا ؟کہاں ہے وہ مسلمان جس نے خشکی پر بحری بیڑہ چلادیا تھااور آیا صوفیا پر اسلام کا پر چم لہرایا ؟کہاں ہے وہ مسلمان جس نے راجہ داہر کی سلطنت کو اپنے گھوڑوں کے پاؤں کے نیچے روند ڈالا ؟کہاں ہے بیت المقدس کا فاتح جس نے اسلام کا پرچم لہرایا ؟کیااب یہ کردار صرف کہانیوں کی حد تک رہ چکے ہیں ۔اب کوئی نہیں آئے گا 42ملکوں کا عسکری اتحاد صرف زبانی کلامی تھا یا اس کا کوئی مقصد بھی ہے ۔نبی رحمتﷺکی شان میں گستاخی کا مسئلہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے افسوس صد افسوس کہ مسلمان غلامی کا لباس پہنے غفلت کی نیند سویا ہواہے۔ اور اگر اب بھی نہ جاگا تو وقت قریب ہے کہ اس دھرتی پر ایک چیخ سنائی دے گی اور پھر اس کے بعد سب کچھ مٹ جائے گاکچھ باقی نہیں بچے گا ،سوائے اﷲ تعالیٰ کی ذات برحق کے ،میرا سب کچھ قربان ہو نبی رحمتؐ کی شان اقدس پر مسلمانوں جاگوں اور متحد ہو جاؤں اور دنیائے کفر کو بتلادو کہ اگر تم نے نبی رحمتﷺکی شان میں گستاخی کا سوچا بھی تو پھر تمہارا نام ونشاں تک مٹا دیں گے ۔رسول مقبول سرورکائنات ،خاتم الانبیا،احمد مجتبیٰ، امام الانبیا،جناب محمدﷺ کی حدیث مبارکہ ہے ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسکے نزدیک اس کے باپ،اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز نہ ہو جاؤں (صحیح بخاری)گیرٹ ولڈرز ملعون کا کہنا ہے کہ وہ یہ نمائش ملک میں آنے والے شامی پناہ گزین مسلمانوں کو روکنے کے لیے کر رہا ہے تاکہ ہالینڈ کے شہری مسلمانوں سے نفرت کریں ۔اسلام امن کا درس دیتا ہے اور یہ یہودی اسلام کے خلاف اپنا بغض نکال کرہر بار اپنی اصلیت ظاہر کرتا ہے مگر غلام ابن غلام مسلمان پتہ نہیں کب سمجھے گا ۔اس شعر کے ساتھ اجازت
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں شوخیاں : نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

 

Bushra Naseem
About the Author: Bushra Naseem Read More Articles by Bushra Naseem: 28 Articles with 19623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.