شیر نیپال پاسبان مسلک اعلیٰ حضرت:

شیرنیپال مفتی جیش محمد صدیقی دامت برکاتہم القدسیہ ایک عظیم اسلامی اسکالر ہیں اور دین و سنیت کا درد رکھنے والے عالم ربانی ہیں آپ نے نیپال اور ہندوستان میں اسلام کی خاطر اور مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

شیر نیپال پاسبان مسلک اعلیٰ حضرت:
ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی(تاراپٹی، نیپال)
پیر طریقت ،رہبر شریعت ،داعی کتاب و سنت شیر نیپال مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی دامت برکاتہم القدسیہ جس وقت جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے میکدئہ علم و حکمت سے علم و فن کے جام و مینا سے سیرابی حاصل کرکے اپنے وطن مالوف لوٹے تو اس وقت آپ کو سب سے زیادہ مسلمانان وطن کے ایمان و عقیدے کو مضبوط کرنے کی فکر لاحق ہوئی اور جو مراسم غیر شرعی مروج تھے انہیں دور کرنے کا تہیہ کرلیا کیونکہ اس وقت مسلمان نادانی کے سبب کچھ ایسے اعمال کے مرتکب تھے جن کی اجازت شریعت قطعی نہیں دیتی۔مسلک اعلیٰ جو مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کی مشن کا ترجمان ہے اس سے بھی لوگ غافل تھے بلکہ اکثر سنی اور دیگر دوسر ے مذاہب میں کوئی فرق ہی نہیں سمجھتے تھے۔آپ کی کد و کاوش اور رات و دن کی تبلیغی محافل و مجالس کے انعقاد کرنے کی برکت سے پورے ملک میں مسلک اعلیٰ حضرت سے لوگ متعارف ہوئے اور اس سچے مسلک کے دامن سے وابستہ ہوکر مسلمانوں نے اپنے ایمان کی دولت کو لوٹنے اور ضائع ہونے سے بچالیا۔مسلک اعلیٰ حضرت کی پاسبانی اور باطل جماعتوں کی سرکوبی کے لئے جو خدمات آپ نے انجام دی ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہیں اور رہتی دنیا تک یہ خدمات فراموش نہیں کی جائیںگی۔

غالبا 1408؁ یا 1409؁ ھ کی بات ہے کہ میرے گاؤں تاراپٹی میں میرے چچا مولانا محمد ذاکر حسین اور میرے والد محترم حضرت مولانا محمد ضمیر الدین قادری(جو حضور شیرنیپال ہی کے پروردہ اور فیض یافتہ ہیں) نے آپ کی سرپرستی میں ایک جلسہ کی تاریخ رکھ دی۔جس میں بہت سارے علمامدعوتھے ۔اس جلسہ کو مغربی ٹولہ کے ایک بد عقیدہ اور اس کے حواریوں نے روکنے کی ایڑی چوٹی کی زور لگادی مگر حضور شیرنیپال کی دعا کی برکت کہیے کہ بدعقیدوں کی ساری سازش ناکام ہوگئی اور جلسہ پورے آن بان اور شان و شوکت سے منعقد ہوا جس میںکثیر تعداد میں مسلمانوں نے شرکت کی۔اس جلسہ کے موقع پر وہابیت و دیوبندیت کو حضور شیرنیپال نے بے نقاب کردیا اور جو لوگ اس کے بطلان سے ناواقف تھے وہ اس کی مکاری سے باخبر ہوگئے۔یہ آپ کی ہی دعا اور تبلیغ کی برکت ہے کہ آج تک اس محلہ میں سنیت برقرار ہے اور سینکڑوں آپ کے فیض یافتہ تلامذہ اس گاؤں میں پیدا ہوئے ۔

اسی طرح سنسری ضلع میں ایک گاؤں کھڑہی ٹولہ ہے جہاں کچھ ہی گھر سنی تھے جبکہ اس ہر چہار جانب سے بدعقیدگی کا حصار تھااور بدعقیدہ درندوں کی دنیا آبادتھی۔لوگ وہابیوں کے یہاں شادی بیاہ کرتے تھے ،ان کے یہاں آمد و رفت رکھتے تھے۔مگر اس سنگلاخ وادی میں بھی آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت کا پرچم لہرایا اور ایسامجاہدانہ تبلیغ فرمائی کہ وہابیت کا جنازہ نکل گیا ،بدعقیدگی کراہنے لگی اور حق کی شمع فروزاں ہوئی جس کی روشنی سے مسلمانوں کا سینہ نور ایمان سے منور ہوگیا۔لوگ وہابیوں سے الگ ہوگئے، وہابی رشتہ داروں سے دوری اختیار کرلی اور اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے آپ کے ادارہ جامعہ حنفیہ غوثیہ میں داخل کروایا ۔جہاں حضور شیرنیپال ان بچوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتے اور ان کا خاص خیال بھی رکھتے۔آج ہونہار اور باشعور علما ، حفاظ کی ایک ٹیم تیار ہے جو ہر وقت مسلک اعلیٰ حضرت کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں۔

اس گاؤں میں یہ عظیم انقلاب کیسے اور کن حالات میں آیا اس کی پوری تفصیل جاننے کے لئے وہیں کے ایک نوخیز اور خوش فکر عالم دین تلمیذ شیرنیپال مولانامحمد بلال برکاتی کی تحریرملاحظہ کریں:مولانالکھتے ہیں:
آج سے تقریبا ٢٥-٣٠ سال پہلے کی بات ہےکہ حضور شیر نیپال دامت برکاتہم القدسیہ صاحب سجادہ خانقاہ برکات لہنہ شریف سنسری ضلع نیپال کےمشہور شہر دھران تشریف لے گئے تھے، پروگرام میں اس وقت ہمارے عم محترم(چچا) جناب ڈاکٹر پیر سلیمان صاحب قبلہ دھران کے مشہور ہوسپیٹل گھوپہ کمپ میںنوکری کررہے تھے ۔جب ہمارے چچا کو معلوم ہوا کہ دھران کی سرزمین پر حضور شیرنیپال تشریف لائے ہیں تو بغرض زیارت و ملاقات ہمارے چچا بھی پہونچے ،اس وقت میرےوالد محترم جناب عبدالرحمن صاحب فریدی بھی دھران میں ہی کام کررہے تھے۔ بہر حال حضرت کی بارگاہ میں پہونچے سلام و کلام کے بعد جان پہچان ہوئی۔ پھر چچا جان نےاپنے گائوں گھڑہی ٹولہ کے بارےمیں بتایا اور وہاں کے حالات سے آگاہ کیا کیونکہ اس وقت پورا سنسری ضلع وہابی بدعقیدہ ہوچکا تھا صرف گنے چنے لوگ ہی اسی کھڑہی ٹولہ گائوں میں بچے تھے۔ چچا نے حضرت کی بارگاہ میں دعوت پیش کی کہ حضور ہمارےیہاں تشریف لے چلیں اور اسلام و سنیت کو زندہ فرمائیں۔حضور شیر نیپال نےخوشی خوشی دعوت قبول فرمالیا اور فرماتے بھی کیوں نہیں کیونکہ اللہ نے انہیں دین کی خدمت کے لئے چن جو لیا تھا ۔خیر جس دن کی دعوت تھی وہ دن بھی آیا ،گائوں میں پہلے سے خبر پہونچا دی گئی تھی کہ شیر نیپال تشریف لا رہے ہیں۔ جب حضرت کی آمد ہوئی تو پورے گائوں والوں نے پرجوش استقبال کیا ،پھر شام ہوئی بعد مغرب میلادالنبی کا پروگرام شروع ہوا۔

جب گھر سے میرے والد میلاد میں جانے لگے تو میں بھی ساتھ پکڑ لیا چونکہ میں يعنى (بلال بركاتى) اس وقت بچہ ہی تھا میرے والد بتاتے ہیں کہ تم اس وقت تین چار . 3-4 سال کے تھے۔ خیر کسی طرح میرا پیچھا چھڑاکر ابو چلے گئے مجھےنہ لےجانے کا مطلب تھا کہ وہاں جب شیرنیپال کا نام لوگوں نے سنا تو تقریبا 25 ہزار سے زیادہ وہابی دیوبندی لوگ بھی جمع ہوگئے چ۔ھگڑا فساد کا اندیشہ تھا اور وہی ہوا۔والد صاحب بتاتے ہیں کہ جب پروگرام شروع ہوا حضرت کے ساتھ جو مولانا آئے ہوئےتھے ان میں سے ایک(مولانا الحاج غلام یاسین برکاتی لہان) کھڑے ہوئے اور اعلی حضرت کا لکھی ہوا نعتیہ کلامــ’’ سب سےاعلی وہ اولی ہمارا نبی‘‘ پڑھنا شروع کئے، تو آگے سے لوگوں کا ہجوم آگے کی طرف بڑھنے لگا۔ لگتا تھا کہ حضرت کے اوپر چڑھ جائےگا ،پھر صورت حال سے نپٹنے کے لئےکچھ حساس لوگوں نے حضرت کو مسجد کے دوسرے دروازے سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کردیا ۔ہجوم کی وجہ سے لوگوں کو پتہ نہیں چلا لوگ آگے کی طرف بڑھتے ہی جارہے تھے۔ جب دیکھا کہ معاملہ ختم ہونے والا نہیں تو ہمارے گائوں کے صدر جناب ابراہیم مرحوم صاحب اللہ ان کی قبر پہ رحمت برسائے، انہوں نے حکم دیا کہ آپ لوگ دیکھتے کیا ہیں جیسے ہی اجازت ملی پھر کیا تھا نئی نئی بانس کی بتی جس سے مسجد کے آنگن کی بانڈری کی گئی تھی دیکھتے دیکھتے سب غائب اور جو جنگ بدر کا نقشہ پیش ہوا اللہ اکبر 50 سنی 25 ہزار وہابی پر بھاری پڑ گئے ،پتہ نہیں چلا کہ کون کہاں گیا ۔اور کچھ نوجوان لوگ ایک اینٹ کی ڈھیری پر چڑھ گئے جوکہ قریب میں ہی مدرسہ کی بنڈری وال کے لئے لایا گیا تھا اور اینٹ اٹھاتے پھر اس ہجوم میں پھینک دیتے جس کے سرپر گرتاپھر اس کا پتہ نہیں چلتا۔

اور کچھ عجیب واقعہ پیش آیا اس دن وہ یہ کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی ہمارےگائوں میں رشتہ داری بھی تھی جب وہ لوگ وقت سے پہلے ہی پہونچنے لگے اور اپنےاپنے رشتہ دار کے یہاں گئے تو کوئی کسی کا پھوفا ہے ،کوئی خالو ہے، کوئی مامو ہے،وغیرہ وغیرہ۔ کئی لوگوں نےتو یہ بھی کہا کہ آپ اگر مہمانی آئے ہیں تو کھانا کھائے اورسو جائے، نہیں اگر پروگرام میں آئے ہیں تو نکلئے یہاں سے پروگرام میں جائے۔ بہر حال جب مار پیٹ شروع ہوگئی تو کچھ لوگ اپنے اپنے رشتہ دار کے یہاں چھپنے کے لئےبھاگ نکلے۔ لیکن ایمانی جذبہ اللہ اکبر! ایک آدمی اپنے کسی رشتہ دار کے یہاں چھپنے گئےتو دیکھ کر پہچان لیا گیا، پھر کیا تھا اس کو پکڑکر بیل گاڑی میں باندھ دیا گیا اور پھر وہ دھلائی ہوئی کہ میدان بدر کا نقشہ یاد آگیا۔ اس نے چلایا اور کہنے لگا آپ مجھے نہیںپہچانتے میں آپ کا خالو ہوں تو سنی نے کہا آج کوئی خالووالو نہیں۔اور ایسا کئ لوگوں کے ساتھ ہوا۔

ایک دل چسپ بات بتاتا چلوں کہ جلپاپور سنسری میں ایک مدرسہ ہے ابھی دیوبندیوں کا نورالاسلام جوکہ دیوبندیوں کا مرکز ہے ،نیپال میں اس کا پرنسپل جو ابھی بھی ہے مولوی حیدر دیوبندی وہ بھی تھا اس میں، جب مار چلنے لگی تو وہ بھی بھاگاہماری مسجد کے بغل میں ایک ندی ہے جو کہ نئی نئی کھدائی ہوئی تھی اسی ہوکر شیخ الحدث صاحب بھاگ رہے تھے کہ میرے ایک جو رشتہ میں میرے پھوفا لگیں گے ان کا نام عظیم انصاری ہے اتفاق سے اسےمل گیا پھر وہ اس کو پکڑے اور دھلائی شروع اور خوب دھلائی ہوئی ۔ ایک اور دلچسپ بات کہ جب حضرت کو مسجد سے نکال کر دوسری جگہ لے جایا جارہا تھا تو راستے میںایک عورت ایک بوجھا لاٹھی لیکر مسجدکی طرف آرہی تھی حضرت نےپوچھا تو معلوم ہوا کہ لوگوں کو دینےجارہی ہے تاکہ وہابیوں کی درگت بنائے۔

بالآخر جب جھگڑاختم ہوگیا سب لوگ بھا گ گئےاور جب صبح ہوئی لوگ آپس میں ملے اور بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ اتنی زبردست مارپیٹ ہوئی اور ایک بھی سنی کو اس میں خراچ تک نہیں آیا۔ اللہ اکبر جب تحقیق کی گئی تومعلوم ہوا کہ حضرت نے فرمادیا تھا کہ تم لوگوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ میرے حضور شیر نیپال کی کرامت تھی ۔

پھر حضرت کو براٹ نگر کے راستے جنکپور پہونچا دیا گیا حضرت جنکپور پہونچنے کےدو تین دن بعد مولانا عیسی کپٹول والے جوکہ اس وقت حنفیہ غوثیہ میں پڑھا رہے تھے ان کو کھڑہی ٹول بھیجا کہ جاکر ان لوگوں سے کہئے کہ فلاں تاریخ کو پروگرام کا انتظام کریں ہم لوگ آئیں گے پھر ایک مہینہ بعد حضرت نے کاٹھمنڈو راج دربار میں ڈاکٹر محسن جوکہ راج دربار میں رہتے تھے ان کو فون کیا اور بتایا کہ ہمارا پروگرام سنسری میں فلاں گائوں میں ہے آپ راجہ سے کہکر وہاں فلاں تاریخ کو فورس کا انتظام کروادیں۔ پھر ڈاکٹرمحسن نے کاٹھمانڈو سے سارا انتظام کیا پھر وقت مقررہ پر براٹ نگر ،انروا، دھران ،لہان ہرجگہ سے پولیس فورس آگئ اور حضرت اپنے ساتھ میں ابوالحقانی ،صابرالقادری، مولاناعبدالجبار منظری وغیرہم علما کو لیکر تشریف لائے اور پھر ہزار و ہزار کی تعداد میں وہابی دیوبندی بھی آئے، لیکن پولیس فورس کا کافی مضبوط انتظام تھا کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ تین دن تک پروگرام چلا بتایا جاتا ہے کہ وہابی حضرات بیل گاڑی پر کتب احادیث لوڈ کرکے لائے ہوئےتھے،جب حضرت ابوالحقانی صاحب کی تقریر شروع ہوئی تو اس وقت جوانی کا عالم تھا تین سو ساٹھ (۳۶۰)احادیث انہوں نے بیان کیا چونکہ وہ حوالہ کے ساتھ حدیث پیش کرتے ہیں ادھر حقانی صاحب حدیث بیان فرماتے ادھر وہابی کتاب کھول کر دیکھتا جب تک وہ ایک حدیث دیکھتاتب تک حقانی صاحب کئی حدیث پڑھ دیتے۔ پھر کیا تھا علم چنداں کہ بیشتر خوانی چوں عمل در تو نیست نادانی، پھر ساری کتاب سر پر اٹھائے اور بھاگ کھے ہوئےـــــ۔

اس طرح سے سنسری میں سنیت بچی۔ یہ سب میرے پیر و مرشد مفتی اعظم نیپال الشاہ جیش محمد صدیقی برکاتی کا فیضان ہے اہل کھڑہی ٹولہ پر جو آج 30 سال تقریباگزر جانے کے بعد بھی وہابیت کے ایوان باطل میں زلزلہ برپا ہےاور آج بحمدہ تعالی سرزمین کھڑہی ٹولہ پر ایک عظیم درسگاہ قائم ہےمدرسہ رضویہ جیشیہ مسعودالعلوم کھڑہی ٹولہ ہرینگرا 1 سنسری نیپال جس کو پروا انچل کا مرکز کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا ،کیونکہ اس علاقے میں اس سے بہترادارہ ابھی تک نہیں ہے اور سرزمین کھڑہی ٹولہ اور متصل بھوٹہا سے تقریبا 40 علماء حفاظ تیار ہو چکے ہیں جوکہ نجدیت کے لئے وبال جان بنے ہوئے ہیں،یہ سب حضور شیر نیپال مفتئی اعظم نیپال کا فیضان ہے۔(انتہیٰ)

اس واقعہ سے معلوم یہ ہو کہ دین و سنیت کی ترویج و اشاعت کے لئے جو کارنامہ اور خدمات انجام دی ہیں وہ آب زر سے لکھ جانے کے قابل ہیں اور ان کی مساعئی جمیلہ کے سبب اللہ عزوجل نے اسلام و سنیت کو سرزمین نیپال پر تقویت و سربلندی عطا فرمائی۔اور ان کے انتھک کوششوں کی برکت ہزاروں مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت ہوگئی ۔وہابیت کی سرکوبی کے لئے آپ ہمیشہ مستعد رہتے بلکہ علما و مناظرین کا قافلہ بھی تیار کر رکھا تھا جو ہر وقت الرحیل کی صدا پر لبیک و سعدیک کا نعرہ لگانے اور اسلام و سنیت کی حفاظت کے لئے جان نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتے۔اسلام کی حفاظت اور مسلک اعلی حضرت کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوشش فرماتے اور ایک ذرہ کوتاہی نہیں فرماتے ورنہ اس مشکل اور نا مساعد حالات میں وہابیوں کی سرتابی اور مسلک اعلیٰ حضرت کی حقانیت کے پرچم کو بلند کرنے کے لئے جد وجہد اور وقت کی پکار کا خیال نہ ہوتا تو شاہی دربار تک اپنے نمائندے نہیں بھیجتے۔آپ کے اس مجاہدانہ کردار سے اہل ہنود اور ارکان سلطنت پر بھی واضح ہوگیا کہ وہابیت باطل پر مبنی مذہب کا نام ہے اور وہی مسلک حق ہے جس کا نمائندہ اور ناشر و محافظ شیر نیپال مفتی جیش محمد صدیق برکاتی ہیں۔

اس کے باوجود آج کچھ تعصف زدہ یہ کہتے ہیں کہ شیرنیپال نے کیا کیا،کس وہابی سےمناظرہ کیا،مسلک اعلیٰ حضرت کے لئے کیا کیا؟مسلک اعلیٰ حضرت کے لئے آپ نے جوخدمات انجام دی ہیں پورے ملک میں دور دور تک ان کی مثال نہیں ملتی۔آج ان کے سبب سنیوں کا ایمان و عقیدہ محفوظ ہے۔پہاڑی علاقوں میں جاکر دیکھیں وہاں کے مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کس نے کی؟پہاڑ والے مسلمان کس کا گن گارہے ہیں ،؟کس کی خدمات کا اقرار کررہے ہیں؟کس نے وہاں جاکر ان کے درمیان مسلک اعلیٰ کی شمع جلائی؟کس کی خدمات کی برکت سے ان علاقوں میں مساجد و مدارس قائم ہیں؟کس نے اپنے شاگردوں کے قافلہ جیش محمدی کے طور پر تیار کرکے بھیجا؟کس نے سلسئہ عالیہ قادریہ میں داخل کرکے انہیں بزرگوں سے محبت و عقیدت رکھنے والا بنایا؟کس ان علاقوں میں مفتی ،عالم،حافظ،قاری بناکر اسلامی لشکر انہیں ان کے عقائد کی حفاظت اور اسلام کی توسیع کے لئے عطا فرمایا؟کس کی کوشش سے جنکپور میں ریلوے اسٹیشن کے قریب وہابی کے ادارہ کو بند کروایا؟کس نے باسوپٹی مناظرہ کا چیلنج کرکے شارح بخاری اور بحرالعلوم کو دعوت دے کر وہابیوں شکست دی اور مسلک اعلیٰ حضرت سے اس علاقے کے مسلمانوں کو متعارف کروایا جو یہ سمجھتے تھے کہ سنی وہابی سب ایک ہیں؟کس نے استھانوں پر ٹیکی جانے والے ماتھوں کو خداکے سامنے جھکایا؟کس نے مراسم کفریہ سے مسلمانوں دور کرکے اسلامی شعائر کا پابند کیا؟کس نے کثیر تعداد میں نیپال کو علما،حفاظ، مفتیان کرام عطاکئے؟ان خدمات کو فراموش کرکے فراموشوں نے یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ شیر نیپال ذات پرستی ہے،ذات برادری کا خیال کرتے ہیں۔استغفر اللہ !میں ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہوں گاکیا کہ جس طر ح دوسری برادری کے علمانے برادری کے نام پر کمیٹی بنائی، جلسے کئے کیا شیرنیپال نے بھی کبھی کوئی تنظیم بنائی یا کوئی جلسہ برادری کے نام پر کیا؟ارے ان کے مداح تو ان کی برادری سے زیادہ تو دوسری برادری والوںمیں ہیں۔

بات آگئی ہے برادری کی تو صرف چند واقعہ بیان کردیناچاہتا ہوں۔

(۱)شوبھا پور کے ایک معمر شخص ہے جس کا نام بچکون ہے انہوں نے ایک بار کسی کے سامنے کہاکہ شیرنیپال میں ذات برادری زیادہ ہے۔جس کے سامنے بیان کیا جارہا تھا اس نے پوچھا کیا آپ ان سے ملے ہیں ؟بولے ہاں!کہا کیا آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا؟بولے نہیں۔پوچھا گیا جب آپ ان کے پاس گئے تو کیا سلوک کیا آپ کے ساتھ؟بولے بڑی عزت سے پیش آئے اور بہت خاطر تواضع کی ۔پوچھے پھر یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں؟بولے ایک مولانا صاحب نے بتایا جومنصوری برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

(۲)مولانا پھول محمد پریاگپور والےایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضور شیرنیپال کے پاس گیا اس دن اندروا سے دو آدمی بھی آئے ہوئے تھے ایک منصوری برادری سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرا شیخ برادری سے۔شیخ برادری والے صاحب سمجھ رہے تھے ہم شیخ تو حضرت ہمیں ترجیح دیں گے۔حضرت نے دونوں کے ساتھ برابر کا سلوک روارکھا۔منصوری برادری والے نے حضرت سے عرض کی حضرت یہ صاحب شیخ ہیں اور میں منصوری اور مجھ کو اس وجہ سے بہت چڑھاتے رہتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں ۔دھنیا دھنیا کہہ کر مسخرہ کرتے رہتے ہیں۔یہ سنتے ہیں حضرت جلال میں آگئے اور اس صاحب کو جو شیخ تھے خوب زجرو توبیخ کی اور فرمایا کہ کبھی برادری کا دھونس کسی پر نہیں دیکھائے۔سارےمسلمان آپس میں بھائی ہیں کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے مسلمان کامذاق اڑائے اور کسی برادری کی بنا پر چڑھائے۔

(۳)یک دن عصر کے بعد ایک شخص حضرت کی خدمت میں آیا وہ شخص شیخ برادری سے تعلق رکھتا تھا،حضرت کو سلام کیا حضرت نے جواب دیا۔آپ دوسرے لوگوں سے بات کرنے میں مصروف تھے اس لئے اس وقت ان کی طرف توجہ نہیں دی۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ شخص بولا حضور میں شیخ ہوں۔یہ سنتے ہی حضرت کو جلال آیا اور فرمایا تم شیخ ہو تو کیا کروں ، تمہیں ترجیح دوں اور یہ جو پہلے سے آئے ہوئے ان کی بات نہ سنوں۔وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور معذرت طلب کی۔آپ نے فرمایایہاں آنے والا سب اپنے ہی ہیں سب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

(۴)شوبھا پور جہاں تقریبا سات سو گھر سنی مسلمانوں کی آبادی ہے اورکثرت سے منصوری برادری کے لوگ ہیںوہاں کے ایک ضعیف شخص آج سے دو سال پہلے میرے پاس دارالعلوم برکاتیہ مدینۃ العلوم میں دوپہر کے وقت آیادوران گفتگو میں نے ان سے شیر نیپال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایک بار میرا نواسہ بیمار ہوگیا اور بہت سخت بیمار ہوا علاج کے لئے جنکپور لے گیا مگر مرض سے شفا نہیں مل رہی تھی۔ڈاکٹر بھی بہت پریشان تھا اسے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا،کلنک جنکپور مدرسہ کے قریب ہی تھا۔ڈاکٹرنے ہی مجھ سے بتایا کہ بغل میں ایک مدرسہ ہے وہاں تمہارے دھرم کا ایک بہت بڑا مولانا رہتے ہیں جاؤ ان سے ملو اور دعا کراؤ ہوسکتا ہے ان کی دعا کی برکت سے تمہارا بچہ صحیح ہوجائے۔میں جانا نہیں چاہ رہا تھا کیونکہ میں سمجھتا کہ شیر نیپال میری بات نہیں سنیں گے اس لئے کہ میں منصوری ہوں اور وہ شیخ ۔لیکن جب میں گیا ان کی خدمت میں تو میری بڑی عزت کی اور بڑی خاطر تواضع کی ،دعابھی کردیا اور فرمایا کہ جاؤ تمہار ا بچہ ٹھیک ہوجائے گا۔جب میں آیا تو اب جو ڈاکٹر علاج کر رہا ہے، جو دوائیں دے رہا ہے تو بچہ کی صحت بہتر ہونے لگی ہے ڈاکٹر بھی حیران کہ یہ کیسے ہوا۔یہ شیرنیپال کی کرامت اور ان کی دعا کی برکت تھی کہ میرا بچہ شفا یاب ہوگیا۔اور اس دن سے مجھے یقین ہوگیا کہ شیرنیپال ذات برادری اور بھید بھاؤ نہیں رکھتے ہیں۔ (محررہ13/7/2018 (

Abdussalam Amjadi Barkati
About the Author: Abdussalam Amjadi Barkati Read More Articles by Abdussalam Amjadi Barkati: 9 Articles with 9656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.