یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ ۔مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں سے

تعلیم اور ٹیچنگ کے پیشہ کو شریفانہ پیشہ Noble Profesion کہا جاتا ہے۔معلم اور ٹیچر وہ شخص ہوتا ہے جس کا دماغ علم وافکار و نظریات کا خزانہ ہوتا ہے جس طرح سے ٹنکی میں پانی ہوتا ہے اور وہ پانی ٹونٹی سے نکلتا ہے اسی طرح سے ایک ٹیچر یا ادیب یا عالم کی زبان اور قلم سے علم وادب کاچشمہ ابلتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بڑے تعلیمی ادارہ، یونیورسٹی میں استاد ہو تو وہ اپنے علم اور افکار و نظریات کی ترسیل و اشاعت کا کام بڑے پیمانہ پر انجام دے سکتا ہے۔ اس کا کلاس روم صرف وہ کمرہ نہیں ہوتا ہے جہاں وہ طلبہ کے سامنے لکچر دیتا ہے بلکہ پورا شہر اور پورا ملک اس کے دائرہ تعلیم و تربیت میں داخل ہوتا ہے بلکہ دنیا کا ہر شخص اس کا حلقہ بگوش ہوتا ہے۔ اگر یہ حقیقت نہیں ہے تو ہر سال ہر استاد کو یونیورسٹی کے فارم پر یہ صراحت کیوں کرنی پڑتی ہے کہ اس نے اس سال یونیورسٹی کے باہر کتنے لکچر دیئے اور کتنے قومی اور کتنے بین الاقوامی سمینار میں شرکت کی، کتنے رسالوں میں اس کے مقالات اور ریسرچ پیپر شائع ہوئے اور اس نے کتنی کتابیں لکھیں اور علم و ادب کی دنیا میں اس نے کیا اضافہ کیا۔ یہ غلط تصور ہے کہ استاد کا دائرہ علم و عمل کلاس روم کی چہار دیواری تک محدود ہے اور اسی غلط تصور کی وجہ سے ان کی صلاحیتوں کا دائرہ محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔کسی بے تصنیف اور بے توفیق اوربے فیض استاذ کو دیکھ کر بے ثمر اور خزاں رسیدہ شجر کا خیال آتا ہے یا اس غنچہ کا جو بن کھلے مرجھا گیا ہو۔یا اس عورت کا جوبانجھہ ہوچکی ہو۔

تصنیف وتحقیق سے قطع نظرعصری جامعات کے جو مسلم اساتذہ ہیں خواہ وہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں ان کے لئے لازم ہے کہ ملک کے اپنے شہر کے غیر مسلم علمی حلقوں میں وہ رول ادا کریں جو ان کےٍ مسلمان ہونے کا اور حالات کاتقاضہ ہے ۔سب سے پہلے بنیادی طور پر یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ اورسیاسی مشکلات اور حق تلفیوں کی اصلی وجہ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ہیں جوسماج میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ خلیج ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حائل ہے ۔غلط فہمیوں کوڈائلاگ اور مذاکرات اور سمپوزیم کے ذریعہ اگر ختم کیا جائے اور ا گر علمی سطح پر تعصبات کے خارزار کو ختم کردیا جائے اورسماج کے غیر مسلم دانشوروں کو اپنا ہم نوا بنالیا جائے تو یہ سب سے بڑا امپاورمنٹ ہوگا جو اس ملک کے مسلمانوں کو حاصل ہوگا۔غیر مسلم دانشورحضرات اپنی محفلوں میں اگر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے خزانہ دماغ میں کانٹے بھرے ہوئے ہیں اس خارزار کوختم کرنا مسلم دانشوروں کا کام ہے۔ اس اہم کام کے لئے با مقصد زندگی گذارنے کا منصوبہ بنا نا ہوگا ایسا منصوبہ جس میں غیر مسلم اساتذہ اور دانشوروں سے زیادہ سے زیادہ علمی سطح پر اختلاط اور رابطہ ہو اوران کے ساتھ مسلمانون کے ایشوز زیر بحث آئیں اور ان ایشوز پر انگریزی زبان میں گفتگو Discourseپوری تیاری کے ساتھ ہو ۔مسلم ایشوز پراور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافیوں کے موضوع پر دلوں کو چھو نے والی اور ذہن کو متاثر کرنیوالی انگریزی زبان میں مدلل لٹریچر تیار کیا جائے ۔یونیورسیٹی میں پڑھانے والے مسلم اساتذہ کی اولین ذمہ داری علمی سطح پرہر ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنی ہے ۔ علمی سطح پر کام کا مطلب یہ ہے کہ سمیناروں کے ذریعہ یا انگریزی میں آرٹیکل اور لٹریچر کے ذریعہ ۔یہ اہم کام ہے جو عصری جامعات کے مسلم اساتذہ کو کرنا چاہئے یہ و ہ کام ہے جو یونیورسیٹی کے اساتذہ علماء کرام سے زیادہ بہتر انجام دے سکتے ہیں۔ البتہ مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی اور مولانا سلمان حسینی اور مولانا سجاد نعانی جیسے جید علماء اور ڈاکٹر منظور عالم جیسے دانشور رہبری کا کام انجام دے سکتے ہیں ۔یہ وہ کام ہے جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ عصری جامعات کے مسلم اساتذہ میں شاید ہی کوئی ہوگا جسے مذکورہ تجویز سے اختلاف ہوگا۔لیکن تجویز سے اتفا ق کرنا اور عملی طورسے کام کا آغاز کرنا الگ چیزیں ہیں ۔ عملی کام کا آغاز اس طرح ہونا چاہئے کہ ہم خیال اساتذہ ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور کام کا عملی منصوبہ بنائیں ۱۔ مشاورتی گفتگو میں پہلے ایک موضوع طے کریں مثال کے طور پر بابری مسجد یا مسلم حکمرانوں کے غیر مسلموں پر ظلم کا افسانہ ۲۔ موضوع سے متعلق انگریزی اور اردو میں لٹریچرکی فراہمی کا انتظام کریں اور ان کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں بالکل اس طرح جس طرح ایک وکیل عدالت میں بحث کی تیاری کرتا ہے ۳۔اس کے بعد اصل ڈائلاگ سے پہلے موضوع پر انگریزی میں گفتگو کی رہرسل کرلیں ۴ ۔ اس کے بعد چند غیر مسلم اساتذہ اور شہر کے چندغیر مسلم دانشوروں کو دوستانہ ماحول میں موضوع پر گفتگوکی دعوت دیں ۔اس پلیٹ فارم کا کوئی بھی نام رکھاجاسکتا ہے اور یہ کام ہر شہر میں ہو اور ہر بار مناقشہ کے لئے کوئی نیا موضوع اختیار کرلیا جائے اور اظہار خیال کے لئے غیر مسلم دانشوروں کو دعوت دی جائے۔

ہندوستان میں مسلمان مختلف نشیب وفراز سے گذرے ہیں انہیں بار بار مختلف نوعیت کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اب اس زمانہ کایہ نیا چیلنج ہے کہ ان کو غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہے جس کی تہہ برادران وطن کے دما غوں میں بیٹھ چکی ہے اور جن کا وائرس افکار کو زہر آلود کر چکا ہے ۔برادران وطن کی غلط فہمیوں کے خارزار کو وور کرنے کے بعد بڑی حد تک مشکلات کا خاتمہ ہوسکتاہے اس کام کے لئے تمام عصری جامعات کے مسلم اساتذہ کو اور دانشور حضرات کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا جو حضرا ت با مقصد زندگی گذارتے ہیں وہ اپنے اس مشن کی تکمیل کو اپنے مقصد میں شامل کرلیں اور اس کی منصوبہ بندی کریں۔

ہندو مسلم خلیج کودورکرنے کے اس درجہ اول کی اہمیت کے کام کے بعدد وسرا کام مسلمانوں کی نئی نسل میں جدیدتعلیم کے فروغ کے لئے رہنمائی کرنا ہے دنیا کی تمام قوموں میں مسلمان عصر ی تعلیم کے میدان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں جامعات کے مسلم اساتذہ کو اس تعلیمی زبوں حالی کا مداوا کرنا ہے اور زبان وقلم کواور اپنی قوت عمل کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا ہے ۔یونیورسیٹی کے اساتذہ کوایک تنظیمی طاقت بنا کر یہ سب کام انجام دینا چاہئے اگر یہ دونوں مذکورہ بالا کام یونیورسیٹی کے اساتذہ نہیں کرتے ہیں اور صرف معیار زندگی کی بلندی کی ریس میں شامل رہتے ہیں اور صرف عیش وآرام کی زندگی گذارناپسند کرتے ہیں تو ان کی زندگی اس حدیث نبوی کے مصداق ہے جس میں کہا گیا ہے جس نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی فکر نہیں کی وہ مسلمان ہی نہیں ہے من لم یہتم بامر المسلمین فلیس منہم ۔غیر مسلموں کے درمیان مذاکرات کے کاموں کے لئے یونیورسیٹی کے اساتذہ کو انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز سے بھی رہنمائی مل سکتی ہے اس ادارہ کو پورے ملک میں عصری جامعات کے مسلم اساتذہ کے ذریعہ اس کام کا آغاز کرنا چاہئے۔

اب حرفے چند عربی زبان اور ورنکلر لینگوجز کے اساتذہ کے بارے میں، یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کے جو اساتذہ ہوتے ہیں ان کی غالب اکثریت کسی دینی مدرسہ کا پس منظر رکھتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے سامنے مسائل اور مشکلات کا جو چیلنج ہے اسے دینی جماعتوں نے اور علماء دین نے قبول کیا ہے۔ علماء دین کی قیادت نے آزادی کے بعد سے ان مشکلات کے سامنے سپر انداز ہونے کی نہیں بلکہ سینہ سپر ہونے کی کوشش کی ہے۔ یونیورسٹی کے مدرسہ بیک گراؤنڈ کے اساتذہ نے نہ صرف یہ کہ مسلم قیادت کی کوئی دستگیری، رہبری یا ہمسفری نہیں کی بلکہ ان سے ایک فاصلہ قائم رکھا اور یہ مفروضہ قائم کرلیا کہ مسلمانوں کے مسائل جو لاینحل ہیں ان کو حل کرنے کی ان پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے،یہ کام دینی جماعتیں کریں تو کریں۔ یہی سوچ اور یہی کج کلاہی اور یہی ادائے بے نیازی اور بے فکری اور اجتماعی کاموں سے طرز تغافل در اصل یونیورسٹی کا وائرس ہے۔ اور یہ وائرس جب کسی مسلم استاذ کو لگ جاتا ہے تو وہ بے باکی اور بے خوفی کو ختم کردیتا ہے اوراس کے اندر ’’ وہن‘‘ بزدلی پیدا کرتا ہے اسے قوم و ملت اور دین و مذہب کی متنوع ذمہ داریوں سے کاٹ دیتا ہے۔ اور انہیں خود غرض بنادیتا ہے ۔پھر انہیں نہ تومسلمانوں کے آشیانوں کے لٹنے کا کرب رہتا ہے اور نہ نشیمن بنانے کی خواہش اور نہ اجتماعی زندگی میں لگنے والے زخموں کا کوئی افسوس اور غم ۔خود غرضانہ اور بے نیازانہ زندگی گزارنے والے ایسے اساتذہ کے نزدیک تنخواہ قاضی الحاجات اور کاشف البلیات ہوتی ہے اور اسی موٹی تنخواہ کے پرت میں وہ خطرناک وائرس ہوتا ہے جو ان اساتذہ کو لگ جاتا ہے۔ اور ان کو ہر دینی، مذہبی، قومی اور ملی سرگرمی سے کنارہ کشی پر مجبور کردیتا ہے اور وہ قوم و ملت کی رہبری سے علمی، تحریری اور تقریری سطح پر بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اگر امت و ملت اسلامیہ، اسلام اور عالم اسلام اور مسلمانوں کے روح فرسا حالات کے لئے ان کے یہاں کوئی آتشِ غم اور سوز دروں نہیں ہے کہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس کا اظہار ہوسکے تو جانے دیجئے کہ یہ رتبہ بلند ہر شخص کو نہیں ملتا ہے، نہ یہ گرد ملال ہر شخص کو نصیب ہوتی ہے۔

ملت اسلامیہ کے مسائل سے عملی وابستگی نہ سہی افسوس اس بات کا ہے کہ خالص علمی اور ادبی سطح پر بھی انہیں جوکام کرنا چاہئے وہ بھی وہ انجام نہیں دیتے، مثال کے طور پر اگر اردو کے مشاہیر شعر و ادب سے عرب د نیا ناواقف ہے تو یہ قصور کس کا ہے؟ کیا عربی زبان وادب کے اساتذہ اس کے ذمہ دار نہیں ؟ ہندوستان کے دانشورمسلم یا غیر مسلم حضرات ابو العلاء معری، حافظ اور شوقی اور نجیب محفوظ، طہ حسین اور جبران خلیل جبران سے کم یا زیادہ، انگریزی یا اردو ترجمہ کے ذریعہ واقف ہیں لیکن عرب دنیا کے دانشور میر تقی میر، غالب، ذوق، پریم چند اور قرۃ العین حیدر وغیرہ سے بالکل واقف نہیں ہیں، عرب دنیا صرف اقبال کے نام سے آشنا ہے لیکن اس تعارف میں جامعات کے عربی اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں۔ ٹیگور سے بھی عرب دنیا واقف ہے اس میں بھی ہندوستانی جامعات کے شعبۂ عربی کے اساتذہ کا کوئی حصہ نہیں۔ نجیب محفوظ کو نوبل انعام مل گیا کیونکہ اس کے ناول کے ترجمے دوسری زبانوں میں موجود تھے۔ قرۃ العین حیدر کو نہیں مل سکا کیونکہ اس کے ناولوں اور افسانوں کا کسی نے ترجمہ نہیں کیا تھا۔ راقم سطور نے قرۃ العین حیدر کے ناول بھی پڑھے ہیں اور نجیب محفوظ کے عربی ناول بھی، اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کا فنی مقام نجیب محفوظ کے مقابلہ میں بہتر، برتر اور بلند تر ہے اور قرۃ العین حیدر کی تحریروں میں، افسانوں اور ناولوں میں دانشوری اور علم و ادب سے آگہی کا جو تابناک عنصر ملتا ہے وہ نجیب محفوظ کی تحریروں میں مفقود ہے۔ حال میں معروف ادیب شمس الرحمن فارقی نے اپنے شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کا بقلم خود انگریزی میں ترجمہ کردیا ہے۔ جناب رضوان اﷲ نے اسی طرح اپنے اردو دیوان ’’عکس خیال‘‘ کا بقلم خود انگریزی ترجمہ My Reflections کے نام سے شائع کیا ہے۔مشہور انگریزی نظموں کا اردومنظوم ترجمہ ’’نسیم مغرب‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ خلاصہ تحریر یہ ہے کہ اگر عربی زبان کے اساتذہ نے علمی اور قلمی سطح پر علمی اور ادبی ترجمہ کا کام کیا ہوتا تو اردو زبان و ادب کا تعارف عرب دنیا میں بھی ہوجاتا۔ اسی طرح سے جس طرح سے رباعیات عمر خیام کے انگریزی اور عربی ترجمہ سے علم و ادب کی پوری دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اردو میں عربی سے مذہبی کتابوں کے ترجمے بہت ہوئے ہیں۔ قرآن و حدیث، تصوف، فقہ، سیر و تاریخ مختلف علوم و فنون کے موضوعات پر سیکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں اورکتابوں کے ترجمے کئے گئے ہیں لیکن اس میدان میں بھی عصری جامعات کے عربی اساتذہ کا حصہ تقریباً صفر کے برابر ہے۔

علم و ادب کی دنیا میں ترجمہ کا کام کلیدی اہمیت کا حامل ہے، یہ وہ روزن ہے جس سے دوسری زبانوں کی علمی اور تخلیقی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور افکار نو بہ نو کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اور تہذیبی لین دین کا عمل جاری ہوتا ہے۔ تخلیق کی گاڑی ایک پٹری پر چلتی ہے اور ترجمہ کی گاڑی دو پٹریوں پر چلتی ہے۔ تخلیقی کام یا علمی کام کے لئے ایک زبان کا جاننا کافی ہوتا ہے لیکن ترجمہ کے لئے دو زبانوں کا جاننا لازمی ہے۔ ترجمہ کے ذریعہ ہم دوسری زبانوں کے افکار اور اقدار سے آشنا ہوتے ہیں۔ اب جبکہ دنیا کی طنابیں کھینچ گئی ہیں کوئی زبان ترجمہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ ترجمہ کی اہمیت کسی طرح تخلیق و تصنیف سے کم نہیں۔ ترجمہ کے ذریعہ نئی آگہی کانور پھیلایا جاتا ہے، نئے چراغ فکر و نظر جلائے جاتے ہیں۔ تخلیق کار تاج محل تخلیق کرتا ہے مترجم اس تخلیق کے جلوے ساری دنیا میں پھیلاتا ہے، ترجمہ اگر کامیاب ہو تو وہ تخلیقی ادب کا حصہ بن جاتا ہے۔ ترجمہ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے زبان شگفتہ ہو اور الفاظ کی نشست جملوں کی ساخت اجنبی نہ معلوم ہو۔ ترجمہ ہی کے ذیعہ کسی قوم و زبان کی تحقیقات اور ادبی شاہکار پوری انسانیت کی ملکیت بنتے ہیں۔ سونا جب تک کان کے اندر دفن ہوتا ہے اسے قوم کی ملکیت نہیں قرار دیاجاسکتا۔ عربی زبان کے اساتذہ کو اور دیگر اہل علم کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بو علی سینا، ابن رشد، ابو نصر فارابی وغیرہ کی عربی کتابوں کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا تو سونا علم کی کان سے نکل کر عالم انسانیت کی دولت بن گیا اور اسی سے یورپ میں نشات ثانیہ کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں دار الترجمہ حیدرآباد کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے مختلف علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور اردو زبان کی دولت میں اضافہ کیا۔ زبان و ادب کے اساتذہ کو ترجمہ کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے اور انہیں ان موضوعات کو اختیار کرنا چاہئے جس سے ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کے وقار میں اضافہ ہو ورنہ محض کیریئر کے لئے یا زرکشی، زرگری کے لئے یا انٹرویو میں اپنا پبلیشڈ ورک دکھانے کے لئے کچھ الٹے سیدھے کام کرلینا اور انہیں چھپاکر رکھنا صلاحتیوں کا زیاں ہے اور تعلیم کے مقدس پیشہ کے ساتھ بے وفائی ہے۔ یونیورسیٹی کے مسلم استاد کے شایان شان کام کوئی دینی مدرسہ قائم کرنابھی نہیں ہے اور نہ مسجد میں یا جماعت میں چلہ کشی کرنا ہے بلکہ اس ملک میں دانشورانہ سطح پر مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی گرہیں کھولنا ہے یا ٹھوس دانشورانہ علمی کام انجام دینا ہے یا مسلمانوں کی ذہن سازی کرنا ہے۔قرطاس وقلم سے وابستگی عصری جامعات کے استاذ کی اولین ذمہ داری ہے ۔لکھنا ہمیشہ بہت زیادہ پڑھنے سے آتا ہے یونیورسیٹی کے مسلم اساتذہ ۔الا ماشاء اﷲ۔ پڑھتے ہی نہیں ہیں، انہیں پڑھنے کی ’’ بھوک‘‘ ہی نہیں لگتی ہے علم وادب کی غذا کی طلب ہی ان کے اندر نہیں پائی جاتی ہے مستثنی اشخاص کو چھوڑ کر کے یہ ایک بیمار لوگوں کی جماعت ہے ،جس شخص کی بھوک ختم ہوجائے اسے بیمار ہی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر کو معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ دنیا میں پرنٹ ورلڈ میں مختلف موضوعات پرکیسی انقلاب خیز اور زلزلہ انگیزاور معلومات افزا کتابیں سامنے آرہی ہیں کتابوں کی دکانوں پر جانے کا انہیں کوئی شوق نہیں ہوتا ہے، ان کی تنخواہ کا ایک فی صد حصہ بھی کتابوں کی خریداری پر خرچ نہیں ہوتا ہے ۔ان میں بہت سے لوگ اردو اخبار تک خرید کر نہیں پڑھتے اور پوچھنے پر کہتے ہیں کہ وہ آن لائین پڑھ لیا کرتے ہیں ۔ انہیں یہ بہی احساس نہیں ہوتا ہے کہ سب لوگ اگر آن لائین اخبارات پڑھ لیا کریں گے تو اخبارت کا چھپنا تو بند ہوجائے گا۔علاوہ ازیں یہ تجربہ ہے کہ آن لائین اخبارپڑھنے میں وقت کی پابندی نہیں ہوتی ہے اورباربار ناغہ بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے حالات حاضرہ کے بارے میں مطالعہ کا تسلسل ٹوٹتا ہے ۔یہ سب باتیں اردو زبان اور ملت کے بارے میں بے حسی کی آئینہ دار ہیں۔پروفیسر حضرات کے یہاں بک کے بجائے چک بک کا اہتمام پایاجاتاہے بنگلہ اور گملہ موٹر اور نوکر یا شوفر کسی چیز کی ان کے پاس کمی نہیں ہوتی ہے ۔معیار بندگی ان کا بلند ہویانہ ہو معیار زندگی ان کا ہمیشہ بلند ہوتا رہتا ہے ۔ان کی مالی سطح اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ ستارے گرد راہ ہوتے ہیں اور علمی سطح اتنی پست ہوتی ہے کہ غبار راہ بھی بلند ترہوتا ہے ۔کئی سال گذرجاتے ہیں ان کی کوئی علمی کتاب سامنے نہیں آتی ہے قرآن کریم نے قحط سالی کے سات سال کو’’ سبع عجاف ‘‘ کہا ہے کم ازکم سات سال کے طویل وقفہ کے بعد تو ذہن کی زرخیزی اور شادابی کا کوئی ثبوت سامنے آنا چاہئے ۔ورنہ یہ فیصلہ صادر کرنا ہوگا کہ ا ن کے فکر کی سطح بالکل بنجر اور روئیدگی کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہے لیکن اساتذہ اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے ۔ ان کے طلسم خیال میں ایوان علم وادب میں ان کے نا م کو پھر بھی باقی رہنا چاہئے اور سمیناروں میں ان کے نام دعوت نامہ آنا چاہئے ۔ہر استادپہلے لکچرر سے ریڈر اور ریڈر سے پروفیسر بننے کے لئے بیتاب اور کیریر کی ترقی کیلئے ماہی بے آب ہوتا ہے ۔ جب تک وہ لکچرر رہتا ہے صرف اس غرض سے کچھ لکھتاپڑھتا ہے کہ ریڈر کے انٹر ویو میں اسے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ’’ ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں ‘‘اور پھر اسی نیت سے وہ کچھ لکھ پڑھ لیتا ہے کہ اپھی پروفیسر بننے کا آخری مرحلہ باقی ہے ۔ پروفیسر بننے کے بعد لکھنے پڑھنے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے ۔علم وفکر و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنا دور دور ان اساتذہ کے حاشیہ خیال میں نہیں ہوتا ہے نہ عام طور ان کو علمی کاموں کا شوق ہوتا ہے نہ مزاج۔بعض تو ایسے اساتذہ بھی ہوتے ہیں جواپنا پبلیشڈ ورک بڑھانے کے لئے دوسروں سے کتابیں لکھواکر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں اور پس پردہ لکھنے والوں کو معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ قرآن کی آیت ’’ یریدون أن یحمدوا بما لم یفعلوا ‘‘ کی مجسم تصویر ۔اگر مسلم اساتذہ کی یہ ساری تصویر درست ہے تو بہت شر مناک ہے عربی کے اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی علمی ذمہ داریوں کو ادا کریں اوران کی تصویر پر لگے ہوئے سیاہ دھبوں کو مٹائیں۔عام طور پر یونیورسیٹی کے اساتذہ سمینار یا اور کسی موقع پر آپس ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع کوئی کتاب نہیں ہوتی ہے وہ کئی علمی مسئلہ پر یاکسی تحریریا نظریہ کے بارے میں تبادلہ خیال نہیں کرتے ہیں وہ نئے آنے والے اسکیل پر یا نئے انکریمنٹ کے بارے میں باتیں کریں گے یا کسی بدعنوانی کی افواہ کوموضوع گفتگو بنائیں گے اس سے ان اساتذہ کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔کیا فرق ہے ان اساتذہ میں اور اس موچی میں جو شام کو پائی پائی کا حساب کرتا ہے پھر مسرور ہوتا ہے یا مغموم ہوجاتا ہے ۔ دونوں کا ذہن مالیات اور اقتصادیات میں الجھا رہتا ہے ۔تنخواہ یا اسکیل کے بارے میں کبھی کبھار گفتگو میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ہمیشہ یہی باتیں ہوں علمی مسائل افکار و نظریات موضوع گفتگو کبھی نہ بنیں یہ قابل اعتراض بات ہے۔ ایک اچھا دانشوریا پروفیسر تنخواہ اور اسکیل یااپنے شعبہ کی سیاست وغیرہ کے بارے میں زیادہ بات چیت کرتے ہوئے ویسے ہی شرماتا ہے جیسے دیندار ، پرہیزگار،عبادت گذار مسلمان عشق مجازی یا جنس کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے شرماتا ہے اور پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے ۔انسان کی گفتگو اس بات کی آئینہ دار ہوتی ہے کہ اس کے دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے اور اس کی ذہنی سطح کیا ہے ۔

عصری جامعات کے اساتذہ میں شوق علم کیوں ختم ہوگیا ہے اور ان کا نشتر تحقیق اب کیوں کند ہوگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اب زندہ آئیڈیل باقی نہیں رہ گئے ہیں اور اہل علم اور اہل ادب کی صحبت میسر نہیں ۔ اچھا اسکالر اور اچھادانشور بننے کے لئے اجھے اسکالر اور اچھے دانشور کی صحبت ضروری ہے ۔ علم کی دنیا میں ہمیشہ چراغ سے چراغ جلتاہے ،علم کے ذوق کے لئے زندگی کے ساز کو ایک اچھے اسکالر کے مضراب حیات کی ضرورت ہوتی ہے،ایک باکمال شخص کی حیات بخش شبنم سے بہت سے اساتذہ اور طلبہ کا غنچہ حیات شگفتہ ہوتا ہے ۔ اگر یونیورسیٹی کے اساتذہ ہر وقت اسمارٹ فون پر سوشل میڈیا کے سمندر میں شناوری کرتے رہیں گے تو نہ وہ خود صاحب کمال بن سکتے ہیں نہ اپنے طلبہ کو باکمال بنا سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے مفاسد بھی بہت ہیں اور ان کی اہمیت بھی اپنی جگہ پر ہے ،علم کا کوئی شعبہ ہو اس کے بارے میں ’’گوگل ‘‘فوراعلاء الدین کے چراغ کی طرح معلومات لے کر حاضر ہوجاتا ہے لیکن اس چراغ سے استفادہ کتابوں اور کتاب خانوں سے استفادہ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے اچھے اور مثالی استاد سے رابطہ ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے مثالی استاد کے فقدان کی تلاقی ایک حد تک صرف کتابوں کے ذریعہ ممکن ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے قریب کے زمانہ کے محققین اور مفکرین کی کتابیں مسلسل پڑھتے رہیں ۔ مثال کے طور پرعربی اور اردو اور اسلامک اسٹڈیز کے اساتذہ اگر ڈاکٹرمحمد حمید اﷲ کی کتابیں پڑھیں جن کا انتقال چند سال پہلے ۹۴ سال کی عمر میں امریکا میں ہوا تو ان کے سامنے ایک آئیڈیل رہے گا ایک مثالی صورت سامنے رہے گی ڈاکٹر حمید اﷲ نے قرآن وحدیث فقہ وقانون اسلام وبین الاقوامی قانون سیرت اور تاریخ کو موضوع بحث بنایا تھا ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ پر پروفیسر عبد الرحمن مؤمن کی کتاب منظر عام پر آچکی ہے اوران پرراقم الحروف کا مرتب کرہ ہ مجموعہ مضامین انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز کی طرف سے زیر اشاعت ہے ۔ڈاکٹر حمید اﷲ ہی کی طرح ایک بلند معیار کے محقق فؤاد سیزگین کا بھی چتد روز پہلے اگست۲۰۱۸ میں ۹۴ سال کی عمر میں استنبول ترکی میں انتقال ہوا وہ بھی بہت بڑے ممتاز مؤرخ اور دانشور تھے وہ بھی ڈاکٹر حمید اﷲ کی طرح کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور مسلسل ۱۷ گھنٹے مطالعہ اور تحقیق میں مصروف رہا کرتے تھے جس طرح ڈاکٹر حمید اﷲ حیدراباد چھوڑ کر فرانس چلے گئے تھے اسی طرح ڈاکٹر فؤاد سیزگین کوفوجی انقلاب کی وجہ سے استنبول چھوڑ کر جرمنی میں قبام کرنا پڑا تھا ۔اور وہان انہوں نے مصادر امام بخاری پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھ کر پی اچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی جو بعد میں دراسات حول مصادر البخاری کے نام سے شائع ہوئی دوبارہ انہوں نے جابر بن حیان پر مقابلہ لکھ کر نئے سرے سے پی آچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ڈاکٹر حمید اﷲ نے بھی جرمنی اور فرانس دونوں جگہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ڈاکٹر فواد سیزگین کی مشہور کتاب تایخ التراث العربی ۱۲ جلدوں میں ہے اور وہ کتاب خانہ ناقص اور نا مکمل سمجھا جاتا ہے جہان یہ اہم کتاب موجود نہ ہو۔ یہ کتاب اسلامی مصادر ومراجع کا سب سے بڑا ماخذ ہے انہوں نے علوم اسلامیہ پر رسرچ اور تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ استنبول میں قائم کیا تھا ۔اور بھی مصنفین ہیں جن کی کتابیں علم کا ذوق پیدا کرتی ہیں ۔ اگر اہل علم کی صحبت میسر نہیں تووقیع اور فکر انگیز کتابیں ان کا بدل بن سکتی ہیں۔

تحریر کا اصل موضوع تھا ہندوستان کے موجودہ حالات اور یونیورسیٹی کے مسلم اساتذہ کی ذمہ دریاں اور یہ کہ کشتی جو بھنور میں پھنس گئ ہے اسے کیسے ڈوبنے سے بچایا جائے ۔اسی ذیل میں اساتذہ کا ذکر آگیا جن پڑ الطاف حسن حالی کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے ُ ’’ پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی ‘‘ ۔یونیورسیٹی کے مسلم اساتذہ کا یہ منظر نامہ جو اس مضمون میں پیش کیا گیا ہے اگر چہ مایوس کن ہے لیکن شاید یہ تحریر کچھ اساتذہ کے لئے ہمت افزا اور شوق انگیز بن جائے اور ان کے دل میں اپنے مقام ومرتبہ کا احساس پیدا ہوجائے اوران کے اندر اپنے پیشہ کے ساتھ وفاداری اور پاس داری اور ذمہ داری کا جذبہ ابھر آئے کہ یہی مقصود و مطلوب ہے ۔ مضمون میں جس اہم ترین کام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ نہ سہی زیادہ تر اساتذہ اپنے عہدہ کا حق بھی ادا نہیں کرتے ہیں لکھنے پڑھنے سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں وہ اس گائے کے مانند ہیں جو نہ دودھ دیتی ہے نہ بچہ دیتی ہے ۔ شعبہ عربی کے بھی دو تین ہی ایسے مسلم اساتذہ ہیں جومستثنی ہیں ۔دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے پروفیسر محمد نعمان خان نے قدیم ہندوستانی تاریخ پر ایک کتاب کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ جے این یو کے پروفیسر احسان الرحمن نے بعض ہندوستانی کہانیوں کے عربی ترجمے کئے،پروفیسر ثناء اﷲ ندوی نے بلند معیار کے علمی کام کئے ہیں،ڈاکٹر مظفر عالم نے ہندوستان میں غیر مسلموں کی عربی خدمات پر انگریزی میں اچھی کتاب لکھی ۔ ایک دونام مشکل سے اور لئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ کام اتنے کم ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔عام طور پرمسلم اساتذہ پر علمی مردنی چھائی رہتی ہے ۔شعبہ عربی کودیکھئے وہاں زندگی سے اور حالات حاضرہ سے کوئی تعلق نظر نہیں آئے گا نہ ان کواس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا کوئی احساس ہوگا ایسا لگتا ہے کہ بستی میں آگ لگ چکی ہے اور یہ حضرات کسی درخت یا دیوار کے سایہ میں آرام کرہے ہیں۔ پی اچ ڈی کے لئے بھی جو موضوعات اختیارکئے جاتے ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں ،ایسا لگتا ہے کہ فکر کے سوتے خشک ہوچکے ہیں مثلاکوئی ہندوستان میں بیٹھ کر طہ حسین پر یا نجیب محفوظ پر عربی میں مقالہ لکھے تواسے حماقت کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ اب کسی یونیورسیٹی سے جوئے حیات ابلتی نہیں ہے ۔نہ کہیں دردوسوز ہے نہ بحر کی موجوں میں اضطراب ہے ،کہیں علم کا ساز نہ ادب کی آواز ،نہ کوئی خیال نو، نہ جرآت اندیشہ نہ ترقی وتعمیر کا منصوبہ، نہ عزم وارادہ نہ کوئی منزل نہ کوئی جادہ بعض اساتذہ کی شخصیت حیوان ناطق کے بجائے حیوان کاسب ( کمانے والا جانور)کی مصداق بن گئی ہے ۔بعض اساتذہ تو معمولی درجہ کے غیر علمی کاروباری نوعیت کے ترجمہ کے کاموں کے لئے زندگی وقف کردیتے ہیں اور ’’کون بنتا ہے کروڑ پتی‘‘ کی ریس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ انہیں اقبال کے الفاظ میں یہ کہنے کا جی چاہتا ہے:
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی

٭٭٭
 

Mohsin Usmani
About the Author: Mohsin Usmani Read More Articles by Mohsin Usmani: 6 Articles with 10594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.