انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا

کچھ دن قبل میں اپنے دوست کے پاس اُس کے نجی دفتر میں بیٹھا تھا۔ یہاں میں اُس کی معاونت کے لئے کبھی کبھار فارغ اوقات میں آتا رہتا ہوں۔ دوست حسب معمول اپنے کام میں مصروف تھا اور میری آمد کے بعد ذرا جلدی جلدی کام نبٹا رہا تھا اور ساتھ ساتھ کمپیوٹر کی سکرین پر موجود گرافوں سے متعلق مجھ سے رہنمائی لے رہا تھا۔ آج مجھے یہ دفتر کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دے رہا تھا لیکن حیرانگی کی بات یہ تھی کہ وہاں ہر شے اپنی جگہ پر موجود تھی۔ بہر کیف وہاں کچھ ایسا ضرور واقع ہوا تھا کہ میرا دھیان اس تبدیلی کو محسوس کرنے لگتا۔ لیکن تبدیلی سمجھ سے بالاتر اور آنکھوں سے اوجھل تھی۔ دیوار پر وال کلاک اپنی جگہ نصب تھا اور ٹک ٹک کرکے وقت گزرنے کا بتا رہا تھا۔ کلینڈر اور پلانر اپنی جگہوں پر موجود تھے۔ ہدایات کے چارٹس اپنی جگہوں پر آویزاں تھے۔ سائیڈ میز پر کمپیوٹر سیٹ موجود تھا جس پر دوست اپنا کام کررہا تھا۔ غرض ہر چیز اپنی ہی جگہ پر موجود تھی لیکن ذہن میں تبدیلی کا احساس بار بار کھٹک رہا تھا۔ میں نے ایک مرتبہ پھر آفس میں نظر دوڑائی اور تبدیلی کو ڈھونڈنا شروع کیا ۔ شاید تبدیلی اندر سے آتی ہے اس لئے باہر محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ جب دوسری بار بھی ناکامی ہوئی تو دوست سے پوچھ لیا۔ ’’ آج مجھے اس آفس کے کمرے میں تبدیلی محسوس ہورہی ہے لیکن دکھائی نہیں دے رہی ہے ‘‘۔ میں نے مزید پوچھتے ہوئے کہا۔ ’’ کیا یہ میرا وہم ہے یا آپ کے دفتر میں واقعی تبدیلی آئی ہے ‘‘۔ وہ میری بات کو سمجھتے اور تجسس کو بھا نپتے ہوئے بولا کہ دراصل آج میری میز فائلوں کے بوجھ سے آزاد ہے۔ اس لئے آپ کو تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔ ’’ اس کا مطلب ہے کہ آپ آج کل فارغ ہیں ‘‘۔ میں نے وضاحت طلب کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’ کیوں کہ فائلیں جو نہیں ہیں ‘‘۔ ’’ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور کام ختم ہونے کا نام کہاں لیتے ہیں ‘‘۔ دوست نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ ’’جب میز پر فائلیں پڑی ہوتی تھیں تو مینجر کہا کرتے تھے کہ آپ کوئی کام ہی نہیں کرتے۔ فائلوں کا انبار لگایا ہوا ہے اس لئے میں نے میز خالی کردی اور ایک ایک فائل الماری سے نکال کر اس پر کام کرتا ہوں‘‘۔ میں نے اُس کی تائید میں کہا۔ ’’ یعنی آپ نے صرف طریقہ کار تبدیل کردیا ہے‘‘۔ دوست نے افسردہ لہجے میں کہا ۔ ’’ اس حال میں بھی مینجر خوش نہیں ہے۔ آج صبح میز کو خالی دیکھ کر کہنے لگا کہ لگتا ہے آپ کا کوئی کام نہیں ہے ‘‘۔میں نے مسکرا کر کہا ۔ ’’ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ‘‘۔ دوست نے کہا کہ اس کو تو اَب یوں کہنا چاہیے کہ انسان کو کسی حال میں کام کے لئے نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر محمد حسین آزاد زندہ ہوتے تو شاید اس پر بھی ایک مضمون لکھ لیتے۔ ’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ‘‘ کی طرح یہ بھی سدا بہار سبق اور قول زرین بن جاتا۔

جہاں میز اور فائلیں لازم و ملزوم ہیں تو وہاں میز اور اُس کی صفائی کا بھی آپس میں گہرا سمبندھ پایا جاتا ہے۔ اگر کسی آفس یا ہوٹل کی صفائی چیک کرنا مقصود ہو تو وہاں کے واش روموں کے علاوہ میزوں کی صفائی سے پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ صفائی کا کیا معیار ہے۔ البتہ میز کی صفائی اوپری سطح کی صرف نہ چیک کی جائے بلکہ میز کے نیچے ہاتھ پھیر کر معلوم کیا جائے کہ گرد تو نہیں ہے۔ احتیاط رہے کہ میز کے نیچے مکڑی وغیرہ نے جال نہ بُنے ہوں کیوں کہ یہ ان محفوظ مقامات میں سے ہیں جہاں مکڑیاں اکثر و بیشتر جال بُنتی ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے میز اور اس کی صفائی سے متعلق اپنے آفس بوائے کا واقعہ سنایا۔ وہ تو کافی محظوظ ہوئے ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ہم جب بھی صبح آفس آتے تو آفس بوائے کی ایک ہی بات ہوتی تھی کہ آفس کے سنٹرل ٹیبل کے لئے شیشہ خریدا جائے تاکہ آفس کی شان میں اضافہ ہو اور اُس کے لئے صفائی میں آسانی پیدا ہو۔ یہ بات وہ ہر دوسرے تیسرے دن ہمارے گوش گزار کرتا۔بالآخر ایک دن اُس کی اس فرمائش پر عمل درآمد ہو گیا ، یعنی اُس کی مراد بر آئی۔ میز کے لئے اس کے رقبے (لمبائی اور چوڑائی) کے مطابق شیشہ مارکیٹ سے خرید کر لایا گیا۔ اَب وہ میز کی صفائی سے اتنا عاجز آچکا ہے کہ بس ایک ہی دُعا کرتا ہے کہ شیشہ جلد ٹوٹ جائے کیوں کہ صبح صفائی کرنے کے بعد تقریباً گھنٹہ بعد شیشے پر گرد پڑجاتی ہے اور اُس کو صفائی کے لئے کہا جاتا ہے۔ یوں وہ میز اور شیشہ سے بہت تنگ آچکا ہے۔ بے شک انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔
 

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 266006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.