آج کا معاشرہ اور 1400 سال پہلے کی گئی تلقین

ذات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی اصل نمونہ اور کامیاب زندگی کا ذریعہ ہے۔

ہمیں سب کو اللہ کا شکر ادا چاہیئے کہ ہم ایک مسلمان ملک اور گھرانے میں پیدا ہوئے دنیا میں آتے ہی ہمیں دنیا کی مقبول اور ہر لمحہ گھوجھنے والی آواز سننا نصیب ہوئی ہم نے ایک مذہب میں جنم لیا جہاں پہلے دن ہی اللہ نے پیدا ہونے والی لڑکی کو رحمت اور لڑکے کو نعمت جیسے مقام سے نوازا ہم ایک ایسی ہوا میں پرورش پانا شروع کیا جس میں ہر وقت درودوسلام کی صدائیں بلند رہتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے معاملات میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہم روح اسلام سے دوری احتیار کرتے جا رہے ہیں ہم اپنے ہی اندازوں اور اناء کی بنیاد پر کفر اور دائرہ اسلام سے اخراج کے فتوے دھرے جا رہے ہیں۔ ہم دین اسلام کے پابند ہونے کی بجائے اپنے اپنے فرقے پر اصرار کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نفرت کی فضاء پھیل رہی ہے۔ ہم جدید دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر انسانیت کی قدر سے لاعلم ہو رہے ہیں ہماری وہ تعلیمات جو دنیا کے لئے امن پیدا کرنے میں کارگر ثابت ہوئیں اور آئندہ بھی ہو رہی ہیں ان کو چھوڑ کر اغیار کی پیروی کرنے میں سرگرم ہیں اور یہی ہماری تباہی اور پسپائی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہم تو وہ خوش نصیب لوگ ہیں کے ہمیں قرآن پاک جیسی عظیم کتاب نصیب ہوئی جس پر عمل ایک با مقصد زندگی کا ذریعہ ہے لیکن ہماری دوری دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اوراغیار فوائد حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ اور ہم ان آغیار کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔ آج ہم اغیار مساوات اور درس انسانیت کے بڑے بڑے لیکچرز سن رہے ہیں ہمیں حدیث نبوی جیسا انمول تحفہ عطا کیا گیا لیکن ہمارے معاملات میں حدیث نبوی کے اسباق ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہم دوسروں کے عیب تلاش کرنا کامیابی سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے بارے غلط زبان کے استعمال پر ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو کہ ہمارے معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک مسئلہ ہے۔ ہر شخص صرف خود کو درست اور جنتی سمجھ رہا ہے ہر مسلک اپنے مسلک کے افراد کے علاوہ باقی سب کو نعوذ بااللہ غیر مسلم اور پتہ نہیں کیسے کیسے القابات سے نواز رہا ہے۔ ہم تو ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں کوڑا پھینکنے والوں کو بھی دعائیں رحمت سے نوازا جاتا ہے پتھر مارنے والوں کو بھی اللہ کی جانب سے دولت ایمان سے نوازنے کے لیئے دعائیں کی جاتی ہیں ہمارا تعلق ایک ایسے نظام سے ہے جہاں انتشار سے بچاؤ کے لئے صلح حدیبیہ کر لی جاتی ہے اور وہ بھی یہودیوں ساتھ۔ لیکن آج ہم اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ صلح کرنے کو توہین سمجھتے ہیں۔ کسی غریب کے لئے پرسان حال بننا ہمیں حقیر اور وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ ہم مانیں یا نہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو تسلیم کر کے درست کرنے میں ہی ہماری کامیابی ہے حیات النبی ہی ہمارے لئے ایک بہتر زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے دنیا کے نت نئے علوم حاصل کرنے کے لئے دنیا کا کونا کونا چھان مارا ہے لیکن کبھی بھی قرآن اور حدیث سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے وقت نہیں نکالا جبکہ قرآن و حدیث ہی کی پیروی کرنے میں ہماری کامیابی اور بقاء ہے۔ ہم اپنے مجبور بھائی کا درد سننے سے تو عاری ہیں لیکن اپنے نام کا ڈھنکا سننے کے لئے لاکھوں خرچ کرتے ہیں لیکن جب اللہ کے نام پر خرچ کرنے کا مقام آتا ہے تو سوچ میں پڑ جاتے ہیں جبکہ قرآن میں آتا ہے ''مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں لیکن دنیا ایک مقام امتحان ہےتو اے انسان سمجھ احتیار کر'' اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن جب انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو وہ مال خرچ کرتا ہے جو اسے خود پسند نہیں ہوتا اس کے بندوں کو وہ کھانا کھلاتا ہے خود نہیں کھاتا وہ لباس پہنواتا ہے جو اپنی ذات کے لئے مناسب نہیں سمجھتا تو کیا یہ سب غلط نہی ؟ لیکن ہم غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کا حوصلہ اور فہم نہیں رکھتے۔ ہمارے تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف ذاتی فوائد حاصل کرنے کی خد تک ہوتی ہے۔ تو سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا ہم وہ معاشرہ جس کو1400 سال پہلے ترتیب دیا گیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں کیا ہم نے ان تمام تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا ہوا ہے لیکن ان سوالات کے جوابات نہ چاہتے ہوئے بھی نہی ہی ہوتے ہیں۔ اور دوسری جانب وہ تمام اقوام جن کو بیٹی کی عزت ، عورت کے مقام اور درد انسانیت کا کوئی علم نہیں تھا آج وہ ہمارے آباؤ اجداد کی فراہم کردہ تعلیمات پر عمل پیرا ہیں اور ہمیں سکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ تو میرے معزز ہم مذہبو دنیا میں بسنے والے تمام قابل عزت مسلمانوں کیا آپ سب کی آنکھوں کا پردہ تب بھی نہ اترا جب فلسطین، کشمیر اور برما میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی تذلیل اور قتل و غارت کی گئی کیا اس وقت بھی آپ میں درد انسانیت پیدا نہیں ہوا اس وقت بھی آپ نے ذاتی اناء کو چھوڑنا مناسب نہیں سمجھا لیکن حقیقت میں آپ سب نے مل کر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے خون میں نہتے مسلمانوں کا کوئی مداوا ہو۔ جس سے ان تمام کے کوئی آسانی پیدا ہو۔ تو اس وقت بھی غیر مسلم قوتیں ہی درس انسانیت دیتی نظر آئیں تو بخدا آج ہی خود کو درست کرنا ہو گا اپنی سمت درست کرنا ہو گی اپنی حقیقی منزل کی طرف مائل ہونا ہو گا اپنے مقام کو سمجھ کر معاملات میں تبدیلی لانا ہو گی۔ اللہ اور نبی کریم کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ نظام اسلامی کو رائج کر کے عین اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ کی 1400 سال پہلے ترتیب کو بحال کرنا ہو گا ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہو گا جہاں حقدار کو حق مل سکے مجبور کی مجبوری حل ہو سکے انسانیت کا مقام اعلی نظر آسکے تو یہ ہم سب کو مل کر کرنا ہو گا اور آغاز اپنی ذات سے کرنا ہو گا کیونکہ ہر کسی کو درست کرنا میری ذمہ داری نہیں ہاں لیکن خود کو۔ تو جب میں اور آپ خود کو درست کر لیں گے تو ہماری ذات سے جڑے کئیں افراد کے لئے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور عملی طور پر 1400 سال پہلے والا ایمان ، سکون اور اطمنان میسر ہو گا۔

اللہ میرے اور آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہم سب کو درست معنوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کرے۔
از قلم:عاشرعلی جنجوعہ
سیالکوٹ

 

Ashir Ali
About the Author: Ashir Ali Read More Articles by Ashir Ali: 9 Articles with 5640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.