حج کا سفر ‘ کتنی تھیں صعوبتیں ---- اب کتنی ہیں سہولتیں

لیجئے صاحب -حج بھی تقریباً اختتام کو پہنچ رہا ہے - اللہ حج کر نے والوں کا حج قبول کرے --آمین --اللھم آمین - ورنہ حضرت عمر نے تو اپنے زمانے میں ہی کہہ دیا تھا کہ لوگ بہت ہیں اور حج کم -
اب حاجی واپس آئیں گے اور سفر کی داستانیں سنائیں گے - کیا صعوبتیں پیش آئین -کتنی نئی نئی سہولتیں ملیں جن کا ماضی میں تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا -

یہ سفر کی مشکلات ہی تھیں کہ جن کا اللہ تعالیٰ نے قران مجید کی سورہ القریش میں تذکرہ کیا ہے کہ اے قریش کے لوگو اب تم سخت سردی اور سخت گرمی کے سفر سے مانوس ہوگئے ہو - اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں کچھ ہدایات جاری کیں -
بادی النظر میں یہ ایک چھوٹا سا فقرہ لگتا ہے کہ عرب میں سفر کی تکالیف لیکن اگر اسے وسیع کر کے
تصور کرنے کی کوشش کی جائے تو آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کیا کیا تکالیف نہ تھیں --پانی کی عدم دستیابی - اگرمل بھی جائے تو گدلا میلا کڑوا ' پینے کے قابل نہیں - اوپر تپتا سورج جو حلق کو خشک کئے دیتا ہو - ہونٹوں پر پپڑی جمی ہوئی - نیچے پیروں میں چھالے ڈال دینے والی ریت - بڑے بڑے بگولے جو گرم ریت آنکھوں میں زبردستی گھسیڑ رہے ہوں - سر کے بال - انکھوں کی بھنوؤیں - آنکھوں کی پتلیاں ریت سے اٹی ہوئیں - مختلف امراض جو نا مانوس حالات کے سبب حملہ آور ہوتے ہوں ' الگ ہلکان کئے جارہے ہوں - زمین پر پھرتے ہوئے زہریلے حشرات الارض -
ان حالات میں اس زمانے میں لوگوں کا حج کو جانا واقعی ایمان کی آزمائش تھا اور آفریں ہے ان لوگوں پر
جو یہ سب کچھ جان کر بھی حج کے لئے نکلتے تھے - کچھ لوگوں نے آکر حج کے سفر نامے بھی لکھے -

ریاست بھوپال کی شہزادی 1863 میں حج کرنے گئیں تو واپس آکر انہوں نے بھی اپنے سفر کی داستان قلم بند کی تھی - وہ لکھتی ہیں کہ مکہ میں پانی نایاب تھا - بدو آب زم زم چھین کر چھین کر فرار ہو جاتے تھے - بدوؤں کا بخشش مانگنا عام بات تھی - نہ دینے کی صورت میں بے عزتی بھی کر دیتے تھے -کبھی کبھار تو ہاتھا پائی کی حد تک بھی پہنچ جاتے تھے - - ذریعہ نقل و حمل صرف اونٹ ہی تھے - سفر کی دشواریوں ' سڑک کی نا گفتہ حالت اور دیگر مسائل کا اندازہ کر کے ریاست بھوپال کی شہزادی نے مدینہ جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور واپس ہندوستان آگئیں -
ایک حج کا سفر نامہ جنگ اخبار کے ' ناقابل فراموش ' میں چھپا تھا - لکھنے والی تھیں بلقیس محمودہ خاتون -
یہ حج انہوں نے تیرہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ سن 1949 میں کیا تھا - لکھتی ہیں تین بجے سہ پہر کو بذریعہ ہوائی جہاز قاہرہ سے جدہ پہنچے - جدہ کا ہوائی اڈہ ٹین کی چھت کے سائبان پر مشتمل تھا جیسا کہ دیہات کے ریلوے اسٹیشنوں کا ہوتا ہے - ویسی ہی کچھ بینچیں رکھی ہوئی تھیں‌- بہت سے لوگ زمین پر ہی بیٹھے ہوئے تھے - سائبان سے کچھ دور ایک عمارت تھی جس پر ہوائی اڈے کے دفاتر واقع تھے- اس عمارت سے ملحق بیرک نما کمرے تھے ہم سب جہاز سے اتر کر سب سے پہلے اسی سائبان میں بیٹھے --- تیز گرم جھلسا دینے والی لو چل رہی تھی - تا حد نگاہ ریت کا میدان نظر آرہا تھا - ریت کے ذرّات اڑ اڑ کر چہرے اور جسم پر پڑ رہے تھے اور سوئیوں کی طرح چبھ رہے تھے - اس کے بعد ہمیں بیرک نما کمروں میں پہنچایا گیا -ہوائی جہاز کے دفتر سے ہمیں کھانا مہیا کیا گیا - یہ زیتون میں پکا ہوا تھا - اس لئے اس کا ذائقہ مختلف تھا - یہ عجیب سی جگہ تھی - چیچی اور سیلن زدہ - وہاں بچھوؤں کی بہتات تھی - چچا نے دوتین بچھو مارے - بچھؤں کو دیکھ کر میری تو جان ہی نکلی ہوئی تھی - ایسے میں مارے خوف کے نیند کیسے آتی ؟ حالانکہ تھکن سے برا حال تھا - جیسے تیسے کر کے رات کٹی اور سورج طلوع ہوا - لیکن اب ایک اور آفت کا سامنا کرنا پڑا - اب سورج نے ہمارا امتحان لینا شروع کیا - اس کی حدت اور تمازت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جارہی تھی - لیکن کیا کرتے اسی آگ برساتی گرمی میں رہنا تھا سو برداشت کرتے رہے - مغرب کی نماز کے بعد ہم لوگوں کا مکہ کے لئے سفر شروع ہوا - - بس حاجیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی - -راستہ اس قدر نا ہموار تھا کہ ہر لمحہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ اب الٹی - اب الٹی - پوری بس حاجیوں کی تلبیہ سے گونج رہی تھی - میرا تو حال ہی برا ہوگیا تھا - - جدہ میں ریت کے بگولوں کی یلغار ' رات بھر کی بے خوابی ' اور پھر اس پر متزائد بس کے دھچکے --- یہ سب مل کر میرے لئے بخار کا تحفہ لائے - میرا جسم بخار سے تپ رہا تھا - بس میں لیٹنے کی جگہ نہیں تھی - میری آنکھیں نیم کھلی اور نیم بند تھیں - اسی حالت میں اپنی نشست پر بیٹھی رہی - بس میں آب زم زم موجود تھا بس مجھے وہی پلاتے رہے - جب مکہ پہنچے تو فجر کی اذان ہو رہی تھی - نہ جانے یہ کس کی دعاؤں کا اثر تھا کہ مکہ میں ہمارے ہی شہر کی ایک جماعت ہم سے پہلے پہنچی ہیوئی تھی - اور اس میں یہ بھی ایک اچھا اتفاق ہوا کہ ایک ڈاکٹر صاحب بھی موجود تھے - انہوں نے مجھے دوا دی - 1949 میں سعودی عرب کی گھڑیوں کے اوقات بھی عجیب سے تھے - فجر کی اذان کے وقت 12 بجتے تھے - ظہر کے وقت چھ بجتے تھے - عصر نو بجے اور مغرب بارہ بجے اور عشا کے وقت چھ بجتے تھے - اس سال 25 ہزار افراد نے حج کیا تھا -

یہ تو تھےاس زمانے کے سفر کے حالات - اب کچھ تذکرہ اس زمانے کے عمومی حالات کا بھی ہو جائے جو سفرناموں میں ملتے ہیں -
ایک کتاب چھپی ہے "سنہری جالیوں کے روبرو " مصنف ہیں اعجاز اشرف انجم - اس میں خواجہ حسن نظامی ( 1875 سے 1955 ) کے تاثرات اور مشاہدات چھپے ہیں‌- کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں روضہ پاک کے قریب چبوترے پر خواجہ سرا بیٹھے ہیں ----سفید براق لباس ' سفید عمامہ - شالی رومالوں سے کمر باندھے چوب ہاتھ میں لئے انتظام کرتے پھرتے ہیں - روضہ منورہ کے اندر ان کے سوا کوئی نہیں جا سکتا - ان کے زمانے میں بجلی نئی نئی پہنچی تھی - مغرب سے پہلے زیتون کے تیل کی ہانڈیان روشن ہونی شروع ہوتی ہیں - اور جہاں اذان اور مومنین نماز کے لئے صفیں باندھ کر کھڑے ہوئے -موذن نے تکبیر شروع کی کہ ایکا ایکی بجلی کی زور سے چمک ہوئی اور سارے حرم میں برقی ہنڈی جگمگانے لگے - منبر رسول پر نیلگوں برقی قمقمے عجب بہار دیتے ھیں - حرم کے اندر ہزار جھاڑ ہانڈیاں پرانی روشنی کی بھی ہیں جن میں مومی شمعیں اور زیتوں کا تیل جلتا ھے لیکں خاص روضہ پاک کے اندر صرف مومی اور کافوری شمعیں روشن ہوتی ہیں -

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 330154 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More