جشن آزادی 2018

دلی ، ہندوستان میں جنم لینے والے سید سلیم شاہ کا تعلق اس نسل سے ہے جنہوں نے پاکستان کے قیام کی خوشی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند میں انسانی تاریخ کے سفاک اور خون آشام مناظر بچپن میں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ کل انہوں نے 14 اگست 1947 کی اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ آزادی کے وقت ان کی عمر 7 سال کے لگ بھگ تھی۔فسادات کے آغاز کے بعد کسمپرسی اور انتہائی خوف کے عالم میں دلی سے لاہور کا سفر ہجرت ایک خوفناک خواب کی مانند ہے جس کا ایک ہولناک منظر آج بھی ان کی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ دوران سفر ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر انسانی لاشیں لٹکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دلی میں دوران فسادات ان کے ایک قریبی عزیز کے والدین کوان کے گھر میں جلادیا گیا تھا جس کے غم میں وہ صاحب اپنی یادداشت کھو بیٹھے تھے جو ہجرت کے بیس سال بعد بحال ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خاندان کا ایک حصہ جو احمد آباد، ہندوستان میں رہتے تھے کا آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں گئے، ان پر کیا بیتی اور کیاوہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

کراچی کا یہ واقعہ تو زبان زد عام ہے کہ فاطمہ بی بی کے بیٹے کو جب شادی کے موقع پر نکاح خواں نے باپ کا نام پوچھا تو وہ بھاگا، بھاگا اپنی ماں کے پاس زنان خانے میں پہنچا کہ اسے باپ کا نام بتائے تو ماں بیٹے کے سوال پر سکتے میں آگئی۔ ارد گرد بیٹھی خواتین بھی حیران تھیں کہ ماں بیٹے کو اس کے باپ کا نام کیوں نہیں بتلا رہی۔ جب نوجوان بیٹے نے اصرار کیا تو فاطمہ بی بی کی آنکھوں سے آنسوں کا دریا بہنے لگا۔ شادی کا گھر میں ماتم کا سماں بن گیا۔ تب مجبورا فاطمہ بی بی نے بتایا کہ ہجرت کے دوران جب سڑکیں انسانی لاشوں سے اٹی پڑی تھیں تب میں نے تجھے خون سے لت پت لاشوں کے درمیان زندہ پاکر اٹھا لیا تھا۔

پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا ہندو بلوائیوں نے گاجر مولی کی طرح بے دریغ قتل عام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران 27 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ کتنی مسلمان خواتین کو یرغمال بنا لیا گیا اور انہوں نے زندگی کے دن کیسے کاٹے، یہ وہی جانتی ہیں یا ان کا خدا جانتا ہے۔تاریخ کے اس خونی منظر سے گزرنے والی جو چند داستانیں میڈیا میں شائع ہوئی ہیں، ان سے زیادہ تکلیف دہ مثال شاید تاریخ انسانی پیش کر نہ سکے۔

13 جولائی 1948 کو جب اہل کشمیر کو پاکستان کی طرف ہجرت کے لیے پریڈ گراونڈ جموں میں جمع کرکے توپوں سے اڑایا گیا وہ بھی تاریخ انسانی کا المناک واقعہ ہے۔ اس سانحہ سے جب نوجوان خواتین کو الگ کیا گیا تو ان خاندانوں پر کیا بیتی یہ ہماری تاریخ کا وہ باب ہے جسے مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کتنی بچیوں نے دریا میں چھلانگیں لگا کر اپنی عزت کو اپنے رب کے حوالے کیا! کتنی مسلم خواتین سکھوں اور ہندو کے بچوں کو جنم دیتی رہیں؟

یہ لاکھوں لوگ اپنا سب ہی کچھ پاک وطن کے لیے قربان کررہے تھے۔ ان کے گھر، ان کے کاروبار، ان کے کھیت و کھلیان، ننھے منے ، ہنستے کھیلتے بچے اور وہ در ودیوار جن میں انہوں نے جنم لیا تھا۔ سب کچھ تو انہیں پیارا تھا لیکن ان سب سے بڑھ کر انہیں اس پاکستان سے محبت تھی، جس کی خاطر وہ سب کچھ قربان کررہے تھے۔ بلا کسی جبر و اکراہ کے، اپنی مرضی اور منشا کے عین مطابق انہوں نے پاکستان کو اپنی منزل قراردیا تھا اور خون کے دریا میں وہ قدم قدم سفر کررہے تھے۔ کس کو امید تھی کہ منزل پر پہنچ پائے گا۔ جگر گوشے اپنی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل بنتے رہے۔،مائیں اور بہنیں سولی پرچڑہتی رہ،ں۔ جسم چھلنی ہوتے رہے، تب بھی کل متاع حیات تن پر موجود دو کپڑے لیے آزادی کا سفر جاری رہا۔ کچھ اندھیری راہوں میں کام آئے اور کچھ بچے کھچے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

تب پاکستان کا مطلب صرف ایک ہی تھا لا الہ الااﷲ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس کی تعبیر و تشریح یوں کی تھی کہ ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان اپنے عقیدے اور نظرئیے کے مطابق زندگی گزار سکیں گے، جہاں مسلمان ہونا جرم نہیں ہوگا۔ اپنے مذہب ، اپنی روایات اور اپنی مرضی سے زندہ رہنے کے لیے پاکستان بنانا ضروری تھا۔ کیا لوگ تھے؟ جو اپنے نظرئیے سے اتنے سچے، کھرے اور دلیر کہ اپنا سب ہی کچھ پاکستان کے لیے لوٹا دیا۔

پاکستان اﷲ کے فضل و کرم سے وجود میں آیا تو چند ہی سالوں بعد یہ بھلا دیا گیا کہ اس کی بنیادوں میں کتنے بیگناہوں کا خون شامل ہے، کتنی عصمتیں اس کی خاطر قربان ہوئیں ہیں، کتنی املاک اس کے لیے قربان کی گئیں اور کتنے بے گورو کفن لاشے اس سفر میں جنگلی درندوں کی خوراک بنے ہیں۔ اس ملک کے قیام اور آزادی کے لیے قربانیاں دینے والوں کی جگہ انگریز سرکار کے تربیت یافتہ گروہ پاکستان پر قابض ہوگئے۔ فوجی اور سول بیوروکریسی وہی تھی جو انگریزی سرکار کے حضور روزانہ سر بسجود ہوتی تھی۔ عدالتیں بھی وہیں جہاں وکلاء اور سائلین روزانہ جج صاحب کے سامنے سرنگوں ہو کر کورنش بجا لاتے تھے۔وہی طورواطوار، ان ہی کی زبان اور انہی کی تہذیب نے پاکستان پر قبضہ کرلیا، اور ایسا قبضہ کیا کہ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ علیہ جب زندگی کے آخری سانس لے رہے تھے،اورانہیں زیارت بلوچستان سے کراچی لایا گیا تو کوئی اعلی سرکاری عہدیدار استقبال کے لیے موجود نہیں تھا۔ آپ کو ایئر پورٹ سے گھر لے جانے والی پرانی ایمبولینس راستے میں خراب ہوگئی اور قوم کا یہ مسیحا اور ملک کا سربراہ شدید بیماری کے عالم میں اسی گاڑی میں پہلو بدلتے رہے اور بہن فاطمہ جناح مکھیاں اڑاتی رہیں۔انگریز سامراج کے پروردہ نواب، خان، وڈیرے، سول اور فوجی افسران میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے قائد کی خبر گیری کریں۔ انگریز کے پروردہ ایک نواب نے حضرت قائداعظم کو کراچی کے قریب اپنے محل میں صرف اس لیے قیام کی اجازت نہیں دی کہ بابا ٹی بی کا مریض ہے۔ تب ہی تو آپ کو کراچی سے زیارت (بلوچستان) منتقل کیا گیا تھا۔

انگریز خود ہی گئے، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنے فالوورز (اطاعت شعار) یہیں چھوڑ گئے۔ ان کالے انگریزوں میں سول اور ملٹری نوکرشاہی ، گھوڑے پالنے والے نواب، کتے پالنے والے خان بہادر، جاسوسیاں کرنے والے گدی نشین اور مخبریاں کرنے والے ………… سب کے سب پاکستان کو نوچنے اور ہڈیوں اور ہڈیاں تک بھنبوڑتے رہے۔ تحریک پاکستان کا کوئی ایک بھی عام کارکن کسی منصب اور عہدے تک نہ پہنچ سکا۔ پاکستان کے بھاگ دوڑ تحریک پاکستان کے قائدین و کارکنان کے بجائے ان میراثیوں ، بھانڈوں اور حاشیہ برداروں کے قبضے میں آگئی جو صدیوں سے نسل در نسل انگریزسرکار کے دربار میں روزانہ سجدہ ریز ہوتے تھے۔جن کی شرمناک داستانیں پوری تفصیل کے ساتھ تاریخ کے طالب علموں نے مرتب کی ہیں۔

ہماری بدقسمتی دیکھئے! انہی ضمیرفروشوں، کتے اور گھوڑے پالنے والوں کی نسلیں آج تک ہم پر حکومت کررہی ہیں۔ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی حکومت کے مفادات کی حفاظت اور عوام دشمنی پر مبنی وہی کالے قوانین ، گوروں کی پروردہ نوکرشاہی اور انہی کی روایات کی امین سپاہ ہمارے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ ہمارے آباء واجداد نے جس نظام ، تہذیب اور نوکرشاہی سے آزادی کی خاطر آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا، ہم نے انہی کو اپنی کامیابی اور ترقی کے لیے سینے سے لگا رکھا ہے۔

پاکستان اسلام کے لیے بنا، لیکن آج تک حکومت ایک بھی مسجد بنانے کے لیے تیار نہیں، جو مساجد اور مدارس جیسے تیسے بن گئے ان کو ختم کرنے کے لیے منصوبہ سازی ہوتی رہتی ہے۔ وفاقی سول سیکرٹریٹ اسلام آباد، صوبائی سیکرٹریٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں سمیت کسی کے ماسٹر پلان میں مسجد شامل نہیں۔ بھلا ہو جنرل ضیاء الحق مرحوم کا کہ اس کے دور میں جو عمارتیں ڈیزائن ہوئی ہیں ان میں مسجد بھی شامل تھی۔ اس کے بعد پھریہ سلسلہ ختم ہوگیا۔حکومت کلب، سینما، کھیل کے میدان، سڑکیں اور ائیرپورٹ تو تعمیر کرتی ہے لیکن مسجد اور مدرسہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔

ہمارا نظام تعلیم پہلے سے زیادہ انگریزی ہو گیا ہے۔ ذریعہ تعلیم پہلے کسی حد تک اردو میں تھا جسے تبدیل کرکے پہلی جماعت سے انگریزی میں منتقل کردیا گیا ہے۔ نصاب تعلیم بھی فرنگی ہے، جس میں اسلام، مسلمان اور اسلامی تہذیب کے بجائے انگریزی سامراج کے عقائد، سامراجی تہذیب اور سامراجی زبان نے ہمیں ذہنی طور پر مکمل غلام بنا لیا ہے۔ ان اداروں سے پڑھ کر ایسے جاہل تیار کیے جارہے ہیں جو انگریزی زبان اور تہذیب کے بغیر ترقی کو ممکن ہی نہیں سمجھتے۔

2018 کا جشن آزادی تازہ تازہ ہم سب نے منایا، دیکھا ،کچھ لطف اندوز ہوئے اور کچھ کے زخم تازہ ہوئے۔ پی ٹی وی تو اب کوئی دیکھتا نہیں دیگر پرائیوٹ چینلز نے جو منظر نامہ پیش کیا وہ بھارتی اور مغربی کلچر کا ملغوبہ تھا۔ بچوں کے اصرار پر وفاقی دارالحکومت میں وزیراعظم ہاوس، سپریم کورٹ، پارلیمنٹ بلڈنگ، سول سیکرٹریٹ، فیصل مسجد اور کچھ شاہراہ فیصل پر چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ قوم کے مادر پدر آزاد نوجوانوں کا جذبہ تو قابل دید تھا مگر اسلوب، خداکی پناہ۔۔۔۔ یوں لگتا تھا کہ ہم پاکستان کے بجائے کسی مغربی ملک کے کلب میں چلے آئے ہیں۔ سنا ہے ادھر سب آزاد ہوتے ہیں، جو جی میں آئے ،کرتے ہیں۔ قانون، اخلاق ، تہذیب اور روایات کے طوق اتار پھینکتے ہیں اور وحشیوں کی طرح موج میلہ کرتے ہیں۔ مجھے شاہراہ فیصل، شاہراہ دستور اور فیصل مسجد کے دامن میں سب ہی کچھ ویسا ہی لگا۔ بیہودہ لباس میں لڑکے اور لڑکیاں طرح طرح کی آوازیں لگاتے، ناچتے ، آتش بازی کرتے، سلنسر اتار کر گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلاتے، ون ویلنگ کرتے، بہروپیوں کی طرح منہ پر رنگ و روغن کرتے، خواتین اور بچوں کے جھرمٹ میں آتش گیر مادہ پھینکتے نظر آئے۔یہ تو اسلام آباد ہے جہاں قوانین کے رکھوالے کچھ نہ کچھ بھرم رکھتے ہیں اور لوگ اتنے آزاد نہیں۔ کہیں کہیں تہذیب و تمدن کے بندھن بھی ابھی موجود ہیں، کچھ پڑھے لکھے بھی زیادہ ہیں۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، کراچی جیسے شہروں میں جشن آزادی کے مناظر دیکھنے کا مجھے موقع نہیں ملا، میرا گمان ہے کہ وہاں کی آزادی اسلام آباد سے کئی گنا لفنگی ہوگی۔

میں نے کل ہی 14 اگست 1947 کی چند تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں تھیں اور قیام پاکستان کے بارے میں جو کچھ پڑھا تھا ان کا ایک ایک منظر میری ذہن میں گردش کر رہا تھا۔ میرا دماغ دلی سے لاہور جیسے سفر میں پھنسا ہوا تھا۔ میں ہندووں کے ہاتھوں مرجانے والوں کے لواحقین کے لٹے پٹے قافلوں میں الجھا ہوا تھا۔ مجھے ان کے چہروں سے خوف اور وحشت کے ہزاروں منظر آشکار ہورہے تھے۔ میں ان کی آنکھوں میں اٹکے ہوئے آنسوؤں کے پھوٹ جانے کا منتظر تھا، جب وہ ایک ایک منظر کی نقشہ کشی کریں گے اور اس خون ناحق کی داستان عزیمت بیان کریں گے۔ کاش! ان آنسوؤں کی بھی کسی نے سنی ہوتی۔ کاش جشن آزادی کے موقع پر ان شہیدوں کا بھی کوئی تذکرہ کرلیتا۔ کاش! اس راہ میں ہمیشہ کے لیے گم ہوجانے والوں کا بھی کوئی ذکر کرتا۔ کاش! ان بہنوں کا بھی کوئی ذکر کرتا جو دریاوں، کنووں اور ندی نالوں میں چھلانگیں لگا کر اپنا پاکستان پاچکی تھیں۔ ان کا بھی کوئی ذکر کرتا جو ہندووں کے بچوں کو دودھ پلانے پر مجبور کی گئیں اور ہر سانس میں پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ کا ورد کرتے کرتے داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ کاش اس ماں کا بھی ذکر ہوتا کہ جس کی آنکھوں کے سامنے اس کے جگر گوشے تہہ ِ تیغ کیے گئے۔ اس باپ کا بھی ذکر ہوتا جس کی جوان بیٹی جو درندے اس کے سامنے اٹھا کے لے گئے۔ ان دلہنوں کا بھی کوئی ذکر کرتاجن کے سہاگ لٹے اور وہ تا حیات لمحہ لمحہ انہی کی یاد میں کاٹتی رہیں۔ قیام پاکستان کی بنیادوں میں کام آنے والا خون اور اس پر قربان ہوجانے والی عصمتیں ہی ہمارا سرمایہ ہے، یہی ہماری جدوجہد اور یہی ہماری تاریخ ہے۔ ہمارے قائداعظم کی محنت، دلیری اور راست بازی، حق گوئی اور توکل علی اﷲ، تحریک پاکستان کے کارکنان کی لازوال قربانیاں، سب کچھ نظرانداز ہوا، مسلسل اور بے دریغ ہورہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس تاریخ سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ لاشے یونہی کسی پاگل کے تھے، وہ عصمتیں کسی بازار کی تھیں اور وہ ارمان کسی فلم کا ڈائیلاگ تھے۔

مجھے مایوسی تو نہیں، تکلیف ضرور ہے۔ نوجوان نسل کو ان بیہودہ سرگرمیوں سے نکال کر صحت مند سرگرمیوں میں بدلا جاسکتا ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، بس قیادت کی ضرورت ہے، جو ابھی تک میسر نہیں آسکی۔ 2018 میں کرپشن آلودہ پاکستان کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش نوجوان نسل نے کی ہے، وہ پاک صاف اور ترقی کرتا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اﷲ کرے ایسا ہی ہو، تاہم مجھے کوئی امید نہیں کیونکہ عمران خان کے ارد گرد جو لوگ جمع ہیں وہ سابقہ کرپٹ نظام کے کل پرزے رہ چکے ہیں۔ انہیں غسل اور توبہ کے بغیر ہی قبول کرلیا گیا ہے۔ عمران خان کے پاس ان کی صفائی اور طہارت کا کوئی میکنزم بھی موجود نہیں۔ اس تجربے کی ناکامی کے بعد خوفناک رد عمل کے طور پر ایک نئے پاکستان کو جنم دے گی، جو امید ہے ہماری نظریاتی اساس پر قائم ہو گا۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105371 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More