عبادتِ الہی اور ہماری غفلت

تحریر: عظمیٰ ظفر ،کراچی
دوپہر کے سارے کاموں سے فارغ ہو کر جب نماز کا خیال آیا تو دیکھا وقت کافی ہوچکا تھا اول وقت تو کب کا گزر چکا۔ کام والی کو ڈانٹنے سبزی والے سے بحث کرنے، پڑوسن سے محلے والوں کی بریکنگ نیوز لینے کے بعداب میں فارغ تھی نماز کے لیے مگر بھوک بھی لگ رہی تھی۔ دماغ نے کہا اب جب دیر ہوگئی ہے تو پہلے تھوڑا سا ہی صحیح، کھانا کھا لو پھر سکون سے نماز پڑھنا، ابھی قضا تو نہیں ہورہی۔دل نے کہا نہیں نہیں! پہلے نماز پڑھ لو بہت دیر ہو گئی ہے، تھوڑی برداشت کی عادت ہونی چاہیئے۔ یوں میں نے دل کو شاباشی دی کہ اس نے صحیح مشورہ دیا(جو کہ بالکل غلط ثابت ہوا)۔ نماز شروع کی ہی تھی کہ بھوک سے پیٹ میں بل پڑنا شروع ہو گئے ادھر جلدی کی ٹرین نے رفتار پکڑی، دوسری طرف بچوں نے آپس میں لڑنا شروع کردیا اب بس نماز تھی،نہ دل تھا، نہ دماغ۔ ان دونوں کو ابھی ٹھیک کروں گی نماز پڑھ لوں فوراً سلاؤں گی خود بھی کھانا کھا کر آرام کروں گی پھر رات کا کھانا بھی بنانا ہے۔ نہیں ابھی ہی بنا لوں گی بعد میں لیٹوں گی،پلان بنایا۔

کام تھے کہ نماز کے دوران ایک کے بعد ایک یاد آتے جارہے تھے نہیں یاد تھا تو نماز پڑھنے کا مقصد یاد نہیں تھا۔ اِدھر نماز ختم ہوئی اْدھر بچوں کی لڑائی بھی ختم۔ بھوک بھی لگ کر ختم ہوگئی تھی بے دلی سے کھانا کھایا سستی، آلکسی نے مجھے کسی کام کا یاد نہیں دلایا مگر بستر میں لیٹنے کے باوجود پھر مجھے نیند نہیں آئی۔ اتنی دیر میں بڑی بہن کا فون آگیا،’’السلام علیکم! باجی کیسی ہیں‘‘؟(مجھے یاد آیا کہ ان کی طبعیت خراب تھی، بلڈ پریشر بہت بڑھا ہوا تھا مستقل چکر آرہے تھے مگر مجھے فون کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی، عیادت کرنے جانا تو دور کی بات۔ شرمندہ شرمندہ میں نے ان سے خیریت پوچھی) ’’وعلیکم السلام ! ہاں اب ٹھیک ہے طبعیت الحمدﷲ‘‘۔ آج کتنے دنوں بعد کھڑے ہوکر نماز پڑھی ہے ورنہ تو بیٹھ کر ہی پڑھ رہی تھی، سر جھکاتے ہی ایسے چکر آنے لگتے کہ کیا بتاؤں آج تو رو رو کر اﷲ کا شکر ادا کیا کہ سر سجدے کی حالت میں چلا گیا شکر ہے اﷲ کا صحت بہت بڑی نعمت ہے۔

’’اور تم سناؤ بچے کیسے ہیں‘‘؟وہ سب کا حال احوال پوچھنے لگیں’’جی باجی! میں بالکل ٹھیک ہوں الحمدﷲ‘‘ مختصر باتوں کے بعد انھوں نے فون بند کردیا۔ مگر میرا کہا ہوا’’الحمدﷲ‘‘کانٹے کی طرح میرے حلق میں چبھ گیا تھا۔ ایک باجی تھیں جو بیماری کی حالت میں بھی اپنی نمازوں کی حفاظت خشوع و خضوع کے ساتھ کر رہی تھیں اور پھر بھی انھیں افسوس تھا کہ سرجھکایا نہیں جا رہا تھااور ایک میں تھی۔ صحت مند اور چاق چوبند ہونے کے باوجود میری نماز انتہائی سستی اور جلدبازی کی ہوتی معمولی تکلیف میں ساری پریشانی نماز ادا کرنے میں ہوتی سارے کام یاد آنے لگتے تھے اور رکوع و سجود کی ادائیگی ٹھیک طرح سے نہیں ہو پاتی تھی۔ ’’الحمدْﷲ‘‘کہہ کر میں اسی سوچ میں تھی کہ صحت کی نعمت کو دن رات استعمال کرتی ہوں ہزاروں کام لیتی ہوں اور تو اور اسے اپنی قابلیت و صلاحیت سمجھتی ہوں مگر میں نے ان تمام نعمتوں کا شکر ادا کب کیا؟ گھنٹوں کھڑے ہوکر دنیا داری کے کام سمیٹنا آسان لگتا ہے ہر کام دلجمعی سے ہوتا ہے خراب نہ ہو۔ دوسروں کی مرضی کو، ان کی پسند کو مدنظر رکھ کر درست وقت پر کرتی ہوں مگر نماز، نماز کے لیے کے لیے تھکن عود آتی ہے، گندے حلیے میں پسینے سے بھرے لباس میں اجڑی صورت میں بوجھل قدموں سے اپنے رب کے سامنے کھڑی ہونے جاتی ہوں وہ بھی ایک کام سمجھ کر جب کہ گھر سے باہر جانا ہو تو میری تیاری ہی الگ ہوتی ہے۔
میں جو سر بسجود ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

ضمیر کے کٹہرے میں کھڑی اپنا تزکیہ نفس کرنے لگی تو مجھے سورۃ القلم کی آیت یاد آگئی، ’’اور جب وہ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت چھارہی ہوگی حالانکہ پہلے (اس وقت) جب وہ سجدے کے لیے بلائے جاتے تھے جبک وہ صحیح سالم تھے۔‘‘ سورۃ القلم آیت.(42 43)آج اس آیت کا مطلب واضح طور پر میری کوتاہی کی نشاندہی کر رہا تھا کہ جب آج اﷲ کے آگے کمر نہیں جھکتی، سر سجدے کی معراج کو نہیں پاتے، آج صحت کی بہترین حالت میں شکر ادا نہں کرتی، کتنے لوگ تو میرے ارد گرد ہیں جو کمر کے درد، پیروں، گٹھنوں کے درد، مہروں کے مسئلے اور نجانے کیسی کیسی تکلیفوں کے ساتھ جی رہے ہیں مگر وہ اﷲ کی عبادت سے تھکتے نہیں۔ ایک میں ہوں آج میرا یہ حال ہے تو کل میرا کیا حشر ہوگا؟ اگر کل میں بھی نہ جھک سکی میری کمر بھی تختہ ہوگئی میری نمازیں خالص نہ نکلیں تو مجھے اپنے رب کے غیظ و غضب سے کون بچائے گا؟

یہ اولاد جن کے لیے راتیں جاگ کر گزاریں مگر فجر چھوٹ گئی، دنیا کے کام جن کی فکر میں عبادت میں دل نہ لگا سکی یا سیر سپاٹے، بازاروں کے چکر جن کی وجہ سے نماز قضا کرتی رہی، یہ سب تو دنیا میں ہی رہ جائیں گے۔ قبر کی ہولناکیوں، اندھیروں، وحشتوں کا ساتھی تو نماز ہی ہوگی وہ بھی جو دل سے پڑھی گئی ہو۔ وقت تیزی سے گزرا اور مسجد سے عصر کی اذانیں بلند ہوئیں۔ لبیک! کہہ کر میں نئے عزم سے اٹھ کھڑی ہوئی کہ اپنی صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت جانوں اور شکر ربی بجا لاؤں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1030547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.