بندہ کیا کرے

کالج کا سالانہ میگزین چھپ کر منظرِ عام پر کیا آیا کہاعتراضات کا پینڈورا باکس کھل گیا۔کسی اور کا تو ذکر ہی کیا ، خود ایڈیٹرز ہی آپس میں گھتم گھتا ہوتے ہوتے بچے۔ بس انہیں ہاتھا پائی کی عادت کئی سال پہلے ہی ختم نہ چکی ہوتی تو کچھ نہ کچھ ہو جاتا۔ لیکن زبان دانی کی مہارت آنے کے بعد بھی اگر پروفیسر ہاتھا پائی کریں تو ان کے پروفیسر ہونے پر شک ہی نہیں بلکہ یقین کر لینا چاہیئے کہ وہ نہیں ہیں ۔ویسے بھی پروفیسر زبان سے حظ اٹھانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔زبان سے حظ اٹھانے کے کئی ایک فائدے ہیں، جن میں سب سے بڑا یہ ہے کہ بات کبھی بھولتی نہیں، دوسرا یہ کہ خرچ بالکل نہیں آتا، تیسرا یہ کہ زبان کا وار تلوار سے بھی زیادہ کارگر ہوتا ہے۔

ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ’ رسالے میں دوسرے ایڈیٹرز نے مقررہ حد سے زیادہ آرٹیکل چھپوا لئے ہیں، جب کہ خود اس نے ایک نظم خود چیف ایڈیٹر کے حوالے کی تھی وہ نہیں چھپی۔ اور اصل رولا تو ہے ہی اسی نظم کا‘۔ دوسرے نے کہا کہ ’اردو والے سیکشن میں پنجابی کا حصہ لگا ہوا ہے اور پنجابی کے حصے میں اردو کے مضامین چھپے ہوئے ہیں۔بھلا یہ کیا بات ہوئی؟‘تیسرے نے فرمایا کہ ’رسالے میں پروف کی اتنی غلطیاں ہیں کہ کسی کو رسالہ دکھایا نہیں جا سکتا۔ ہم نے یونیورسٹی کے اساتذہ کو پیش کرنا تھا لیکن اب اسے کسی کو بھی دکھانا اپنی ہی عزت خراب کرنے والی بات ہے۔‘چوتھے نے نکتہ اعتراض پر کھڑے ہو کر کہا کہ ’ رسالے کی بائینڈنگ کسی کام کی نہیں۔‘

ایک گروہ دوسرے پر ایسے اعتراضات کی بوچھاڑ کر رہا تھا جیسے سب کچھ کیا ہی انہوں نے ہو ۔ایک اہم شخصیت نے تو تقریبِ رونمائی میں ہی دھماکہ کر دیا تھا کہ اس کے مضامین کالج میگ میں لینے سے ہی انکار کر دیا گیا تھا۔

اس سارے خلفشار میں ایڈیٹروں کے دونوں گروہوں میں سے کسی کا بھی قصور نہ تھا۔ یہ سارا کام تو کسی اور اہم عہدے دار کی رسالے کے کام میں بہت ہی گہری دلچسپی لینے کے باعث ہوا تھا۔پچھلے ایک ماہ سے وہ اپنے کسی ذاتی کام میں مصروف تھا اور پھر اس کی بنیادی توجہ اپنی ریٹائرمنٹ کے کاغذات کی تکمیل پر تھی۔

چیف ایڈیٹر کے مطابق اس کام میں خرابی لوگوں کی طرف سے مواد جمع کروانے میں تاخیرکی وجہ سے ہے، اور اس گروہ کے اس پر اعتراضات کے نشتر چلانے کی وجہ ان کے ایک ساتھی کو رسالے کی تقریبِ رونمائی میں اسٹیج سیکرٹری بننے کا موقع نہ ملنا تھا۔ اگر یہ پروگرام اس کے حوالے کر دیا جاتا تو پھر سب ٹھیک تھا۔

اندر کی خبر رکھنے والے ایک صاحب نے خبر دی کہ موجودہ پرنسپل کے اسی سال ریٹائر ہوجانے کے بعد ایڈیٹروں کی شارٹ لسٹنگ خود بخود ہو جائے گی۔آئندہ کا متوقع پرنسپل ایڈیٹروں کی فوج رکھنے کے حق میں نہیں۔

کچھ ایڈیٹر اپنی مرضی سے میگزین کی ادارت سے دستبردار ہونے کا سوچ رہے تھے اور بار بار اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ دوسرے گروپ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ ایک ساتھی بات کرتا کہ’ جناب ہمارے اور ان کے مزاج کا فرق ہے۔ ہم مزاج کے لحاظ سے ان کے ساتھ چل ہی نہیں سکتے۔‘ دوسرا کہتا کہ’ دوستی مزاج کی ہوتی ہے کسی اور چیز کی نہیں۔ ذات، مذہب اور تعلیم اس پر اثر انداز نہیں ہوتی۔‘

ایک ساتھی کہتا کہ’ ہم کوئی کالج کے رسالے پر ہی تھوڑا انحصار کرتے ہیں۔ میں نیٹ پے چھپتا ہوں، آپ ہر معیاری پرچے میں چھپے ہیں۔اس میگزین میں نہ بھی چھپیں گے تو کیا ہے۔ ہمارا مسئلہ نہیں۔ مسئلہ ان کا ہے۔‘
ایک ساتھی کہتا کہ ’میں ان کی کم ظرفی سے واقف تو پہلے بھی تھا ،لیکن جانتا نہیں تھا کہ وہ اتنے نیچ ثابت ہوں گے۔انہوں نے تو کم ظرفی کی انتہا ہی کر دی ہے۔مجھے تو ان کے پاس کھڑے ہونے سے نفرت ہو گئی ہے۔

پروفیسروں کے حساس ذہن اسی طرح کی باتیں سوچتے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات عام فہم نہیں لیکن’ پروفیسر‘ علمی طور پر سب سے اونچا خطاب ہے۔ لوگ پی۔ ایچ ڈی کی اہمیت سے واقف ہیں۔اور سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر سب سے اونچا عہدہ ہے لیکن ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ہی شخص پروفیسر بننے کے لئے اپلائی کرتا ہے ۔ اس لحاظ سے پروفیسر، ڈاکٹر سے ایک درجہ بلند عہدہ ہے۔اس لئے پروفیسر اگر بھلکڑ ہو جائیں تو کوئی اچنبے کی بات نہیں ۔بھاری خطابات سے ’سر‘ بھاری ہو ہی جاتے ہیں۔ اور سر بھاری ہونے سے ہوش وحواس پر اثر پڑ ہی جاتا ہے۔ مستند سچائی ہے کہ تاج پہننے والے سر آرام نہیں کرتے۔

پروفیسر علی انہی باتوں کی گرد میں کھویا، سخت گرم جلتی سڑک پر پاؤں ٹکاتا چلا جارہا تھا۔ اس کا جسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔اس کے سر پر رکھی ٹوپی اس کے ماتھے کے ماس میں چبھنے لگی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ جلدی کہیں ٹھہر جائے ، لیکن اسے سخت دھوپ میں پیدل چلنے کی پرانی عادت تھی۔ اس نے اس چیز میں کبھی عار محسوس نہیں کی تھی کہ وہ ایک پروفیسر ہو کر عام بلکہ عام سے بھی زیادہ خام آدمی کی طرح پیدل چلا کرتا ہے۔ کیوں کہ آجکل تو مزدور بھی موٹر سائیکلیں استعمال کر رہے تھے ۔ حتیٰ کہ فقیر لوگ بھی دور دراز کے گاؤں میں موٹر بائیکوں پر ہی دیہاڑی لگانے جا رہے ہوتے ہیں۔

لیکن اس پروفیسر کی اپنی ہی دنیا تھی۔ وہ لباس ، جوتا اور باقی چیزوں میں بھی سادگی کا قائل تھا۔ لیکن ایک بات اس کے متعلق بڑی خاص تھی کہ اس کا مشاہدہ بہت عمیق تھا۔ وہ چیزوں کو سرسری انداز میں دیکھتے ہوئے بھی ان کا اچھی طرح ایکس رے کر لیتا تھا۔اس کی نظر ظاہر سے زیادہ باطن پر ہوتی۔ وہ کالج کے رسالے کے مسائل سلجھانے پر غور کی طاقتور دوربین لگائے سوچ رہا تھا کہ آخر ان ساری باتوں کا کیا نتیجہ نکلے گا، کیا ہو گا ، کیا نہیں ہو گا۔ لیکن اسے واضح طور پر کوئی حتمی حل سمجھ نہیں آرہا تھا ۔

گرم لوسے آنکھیں پناہ مانگ رہی تھیں۔ کان بھی سردیوں کی یخ ہواؤں کو یاد کر رہے تھے۔ سروں نے ٹوپیوں، صافوں اور رومالوں کی ھنگامی پناہ حاصل کر لی ہوئی تھی۔ جانور بھی جیسے اپنی حیوانیت بھول کر سایوں کی اماج گاہوں میں محوِ استراحت ہو چکے تھے۔

پروفیسر کو پیدل چلتے کوئی آدھا گھنٹا ہونے والا تھا۔ اس کی منزل ہر قدم پر ایک قدم نزدیک ہو رہی تھی۔ سڑک کی گرمی اس کے جوتوں کے چمڑے کے تلوں سے اس کے پاؤں کے تلوں تک سرایت کر چکی تھی۔اس کے پاؤں اندر سے جلنے لگے تھے۔

وہ سڑک کو خیر باد کہتا ہوا، اپنے آگے پیچھے دیکھتا ہوا دائیں طرف مڑ گیا۔ یہ اس کے گھر کی گلی تھی۔ اس گلی کے آغاز میں جانبِ مشرق بچیوں کا ایک سرکاری پرائمری سکول تھا ، جس کی آٹھ فٹ اونچی دیوار پر پچھلے سال دہشت گردی کے خوف سے کانٹے دار تار لگائی گئی تھی،جسے دیکھ کر سکول کی بجائے کسی جیل خانے کا گمان پیدا ہوتا تھا لیکن سکول کے اندر سے آنے والا بچیوں کا شور جلد ہی اس بات کا احساس پختہ کر دیتا کہ نہیں یہ سکول ہی ہے۔اس سکول کے اختتام پر ایک چوراہے پر بجلی کا ایک کھمبا عادت سے مجبور لوگوں کو یہاں کوڑا پھینکنے کی دعوت دے رہا تھا۔

پروفیسر علی کی نظر اس کھمبے کے پاؤں میں لگے کوڑے کے ڈھیر میں ننگے پاؤں کھڑے چھ ، سات سال کے ایک سیاہ فام بچے پر پڑی اور بس پڑی ہی رہ گئی۔

ہائے! یہ کیا! اس بچے کے پاؤں کو زمین کی سخت گرمی کچھ نہیں کہتی۔ اس کے پاؤں جلتے نہیں یا جل جل کے جل ہی چکے ہیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے پروفیسر نے کچھ گدھے دیکھے تھے جو اس شدید گرمی میں اپنی دیہاڑی کا کام کر رہے تھے۔ ان کے پاؤں میں بھی جوتے نہیں تھے، لیکن وہ تو گدھے تھے۔حیوان تھے، بڑے تھے۔ کل ایک پاگل دیکھا گیا تھا، جو کہ شدید دھوپ میں ننگے پاؤں چلا جا رہا تھا ، لیکن وہ تو پاگل تھا ، ہو سکتا ہے اس کی محسوس کرنے کی حس اتنی حساس نہ ہو ، لیکن یہ تو با حواس انسانی بچہ ہے، چھ سات سال کی عمر بھی کوئی عمر ہے ابھی تو ہڈی بالکل کمزور، اور ماس بہت نرم ہے۔ اس کے ننگے پاؤں کو دیکھ کر پروفیسر کالج میں چلنے والی جنگِ پلاسی جیسی بحث مکمل طور پر بھول گیا۔

اس کے گرم پاؤں اب ٹھنڈک کا احساس دے رہے تھے۔ اس کے پسینے تھم گئے تھے۔ وہ اپنے سے بے شمار گنا زیادہ بے حیثیت انسان کو دیکھے جا رہا تھا جس نے سورج دیوتا کی بادشاہی ماننے سے انکار کر دیا تھا، جو اپنی دھن میں ایسے مصروف تھا جیسے سورج کی گرمی کامذاق اڑا رہا ہو ۔ اس کے پاؤں کوڑے کے ڈھیر میں یوں کھڑے تھے جیسے لوگ صبح سویرے کسی سبزہ زار میں جا کر پاؤں سے جوتے اتار کر نرم اور ٹھنڈے سبزے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ انسان کا بچہ ہے یا کسی جن، بھوت یا حیوان کا ۔ یقیناً شاپر الٹا، الٹا کر ڈھیر میں چیزیں بکھیرنے والا اور ان میں سے اپنے مطلب کی چزیں نکالنے والا نہ تو کسی حیوان کا بچہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی جن بھوت کا۔۔

اس بچے کی ایک اور خوبی جو دفعتاً پروفیسر کے ذہن میں واضح ہو گئی یہ تھی کہ اسے اپنے آس پاس کے ماحول سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ ایسے اس کوڑے کے ڈھیر سے شوپر الٹ کر اپنے تھیلے میں کچھ چیزیں ڈال رہا تھا جیسے کوئی مقدس رسمیں ادا کر رہا ہو، جن میں ادھر ادھر دیکھنا حرام قرار دیا جا چکا ہو۔

پروفیسر کی سمجھ جواب دے چکی تھی کہ کالج کا میگزین درست کیا جائے یا کوئی اور کام کیا جائے۔ اصل میں کام کیا جانے والا کون سا ہے۔آخر یہ کام ہے کس کے کرنے کا۔ نہ پروفیسر کا ، نہ ڈاکٹر کا ، نہ انجینیئر کا، نہ حاکم کا نہ محکوم کا ۔ حاکم نے تو سکول کھول دئے ہیں ، اور محکوم نے وہاں سے استفادہ بھی کیا ہے۔ آخر اس کام کا بیڑا کون اٹھائے کہ انسان کے بچے کو واپس انسانی معاشرے میں لایا جائے۔

بھٹہ مزدوروں کے بچے بھی اس ابتری کا شکار نہیں ہوتے جس ابتری میں ان خانہ بدوشوں کے بچے ہیں۔یہ بچہ بھی انہی کے قبیلے کا ہے۔ ان کی نفسیات کیسی ہے۔ جو کہ حیوانوں کے قرب ترین اور انسانوں سے دور ترین۔ ان کا کیا کیا جائے۔ بندہ آخر کیا کرے۔کالج کے میگ میں صفحے آگے پیچھے لگنے پر جھگڑا جائے یا انسانوں کے حیوانوں میں چلے جانے پر کفِ افسوس ملی جائے۔ انسان کا اصل مسئلہ تعلیم ہے یا بقا ۔

وہ خانہ بدوش بچہ خود بھی کوڑے کے ڈھیر کا حصہ لگ رہا تھا۔ پروفیسر کا دل چاہاکہ اس بچے کے پاؤں میں جوتا پہنا دے لیکن کیا وہ پہن لے گا۔ اور کیا صرف جوتا ہی اس کا مسئلہ ہے؟ اس کا سارا جسم میل کی ایک دبیز تہہ میں اٹا ہوا تھا۔ اسے کیسے دھلایا جائے۔ اس کی آج تک کی نفسیات کو کیسے واش کیا جائے۔ اس کو دوبارہ انسانوں میں واپس کیسے لایا جائے جبکہ اس کی پوری فیملی حیوانوں میں واپس جا چکی ہے۔یا وہ ڈارون کے نظریہ ارتقا کی کوئی سچائی ہے یا کہ انہوں نے تہذیب میں آکر اسے حیوانوں کے جنگل سے بھی زیادہ گھٹیا سمجھا اور پھر واپس حیوانوں میں ہی جانے کو ترجیح دی۔

میگ چھپ چکا ، بائینڈنگ ہو چکی۔ اب صفحات آگے پیچھے نہیں ہو سکتے اور شاید سوسائٹی بھی چھپ چکی، بائینڈنگ بھی ہو چکی اور اب تبدیلی نہیں آ سکتی۔ تمام کمی بیشی اب اگلی اشاعت میں ہی پوری ہو سکتی ہے اور وہ اگلی اشاعت اگلی نسل ہی نکالے گی۔ اس وقت تک پروفیسر آپس میں جھگڑتے رہیں گے کہ اس میگ کی خرابی کی ذمہ واری کس پر عائد ہوتی ہے۔اس وقت سے اس وقت تک بندہ کیا کر سکتا ہے۔ نہ پہلے کبھی تبدیلی آئی ہے اور نہ اب آئے گی۔ خانہ بدوشوں کے پاؤں دھوپ میں جلتے رہیں گے۔ اور ذہین لوگ کاغذوں کی زینت بننے کے لئے اپنی زندگیاں صرف کرتے رہیں گے۔ بندہ کیا کرے !
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284496 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More