مسلمانوں کے باہمی حقوق (۱)سلام کو عام کرو!

سلام کے لغوی معنی:طاعت و فرمانبرداری کے لیے جھکنا، عیوب و نقائص سے پاک اور بری ہونا، کسی عیب یا آفت سے نجات پانا۔نیز سلام کے ایک معنی صلح وآشتی کے بھی ہیں۔
سلام اسماء الحسنی یعنی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک و صاف ہے۔
سلام تسلیم کا اسم ہے اور شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد دو یا دو سے زیادہ مسلمانوں کی آپس میں ملاقات کے وقت کی دعا یعنی’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘کہنا ہےجس کا جواب دینا ہر مسلمان کاحق ا وراس پرواجب ہے ۔جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں اس میںسے ایک سلام کا جواب دینا ہے۔جو نبی آخرالزماںﷺاورصحابہ کرام کا طریقہ اور شیوہ ہے۔جسےپھیلانےاور عام کرنے کی کتاب وسنت میں جابجا تعلیم دی گئی ہے۔
مذہب اسلام کے ماننے والےاس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سلام اسلام کا شعار اور آپسی الفت ومحبت کا ضامن ہےاور جس کا جواب دینا ایک دینی واخلاقی فریضہ ہے نیزیہ دخول جنت کا باعث اور سبب بھی ہے جیساکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ: تم لوگ جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک تم مومن نہ ہوجائو اور تم لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو ،کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتلائوں جس پر تم عمل کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو ،اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ (مسلم)
دنیا کے ہر مذہب و ملت میں ہر قوم نے بوقت ملاقات کچھ الفاظ اور طریقے مقرر کر لیے ہیں جن سےوہ اپنی بات اور تکلم کا آغاز کرتے ہیںچنانچہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ جب آپس میں ملتے تھے تو ’’حیاک اللہ‘‘ یعنی اللہ تجھے زندہ رکھے کے الفاظ ایک دوسرے کو کہتے تھے۔ ہندو آپس میں ملاقات کے وقت ’’نمستے‘‘ کہتے ہیں۔ عیسائی یا انگریزوں کے ہاں وقت کے اعتبارسے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں۔ مثلًا صبح میں گڈ مارننگ، شام میں گڈایوننگ اور رات میں گڈ نائٹ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سکھ لوگ ’’جے گرو‘‘ کے الفاظ بولتے ہیں۔مجوسی مذہب کے پیروکار ملاقات کے وقت صرف منہ پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں، پارسی مذہب والے شہادت کی انگلی اٹھا دیتے ہیں مگر ان تمام طریقوں میںسب سے بہتراورافضل طریقہ اسلام کا ہے ۔لیکن افسوس کہ آ ج کے اس مادہ پرستی کےدور میں روشن خیال مسلمانوں نے سلام
کے اس مبارک اور پاکیزہ کلمات کو چھوڑ کر یہودو نصاریٰ کے طریقہسلام کو اپنا کران کے دین وملت کی اتباع وپیروی کررہےہیںاورکچھ لوگ تو’’صباح الخیر،مساء الخیر‘‘ جیسے کلمات کا استعمال کرکے اپنی شناخت ووقار کو مجروح کررہے ہیں۔جس سےدین اسلام نےسختی سےمنع فرمایاہے۔اورمذہب اسلام میں اس طرح کے سلام کرنے کا کوئی طریقہ ثابت نہیں ہے ۔اسی طرح اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ٹیلیفون اور موبائل پر بات کرنے سے پہلے مخاطب سے سلام کریں ۔گھرمیں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اہل بیت کو سلام کریں ۔
اور نبی کریم ﷺکے کا فرمان ’’افشوا السلام بینکم ‘‘پر عمل کرتے ہوئے اس کو خوب عام کریں۔
لیکن افسوس کہ آج یہ سنت ہمارے یہاں بالکل مفقود نظرآتی ہے ،آج بڑا چھوٹے سے مالدار غریب سے حاکم محکوم سے اساتذہ طلباء سے سلام کرنے میں کسر شان سمجھتے ہیں،جب کہ ہمارے نبی کا شیوہ یہ تھا کہ آپﷺ بچوں اورچھوٹوں سے سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،اور آپ کا فرمان کہ :تَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ ، وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (بخاری : ۱۲) اس بات پر دال ہے کہ تم اس سے بھی سلام کرو جسے جانتے اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے ہو ۔
لہٰذا مسلمانوں! کتاب وسنت کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلام کرنا اور اسے پھیلانا مسلمانوں کا شعار اور باعث اجروثواب ہے ۔لہذا آج ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس متروکہ سنت مطہر ہ کو زندہ کریں اور رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے کثرت سے سلام کو عام کریں ۔
اللہ ہماری اصلاح فرمائے اور اغیار کی مشابہت اور طریقہ سلام سے اجتناب کرنے کی توفیق بخشے ۔آمین !

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 134514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.