رحمتیں دور ان سے خداکرتا ہے
جوبیٹیوں کو اپنی خفاکرتاہے
بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات معاشرے کی اخلاقی ابتری کی نشاندہی
واضع کررہے ہیں جوظلم کی انتہا کی جانب نشاندہی کرتا ہے اورظلم یہ بھی ہے
کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعدانکوموت کے گھاٹ اتارکے کسی کے گھرکے چراغ
کو بجھا دیا جاتا ہے آج کے اس دورمیں انسان کے ذہن میں حوس بھری ہوئی ہے
اسی وجہ سے کسی کی ماں،بہن اوربیٹی کواپنی ماں بہن بیٹی نہیں سمجھتا بیٹیاں
اپنے والدین اوراپنی آبروکوبچانے کیلئے گھرسے نہیں نکلتی مگرکسی ضرورت کی
وجہ سے گھرسے نکلنا بھی پڑے توناپاک نظریں پہلے اسکی تاک میں لگی ہوتی ہیں
مجھ سے ایک دوست نے سوال کیا کہ لوگ بچیوں کا عالمی دن کیوں مناتے ہیں
حالانکہ آج کے دورمیں عورت کو کھلی آزادی ہے تومیں نے اسے جواب دیا بھئی
بیٹی پیداہوتی ہے تو ماں تب سے اس کی شادی کے خواب سجائے شادی کی تیاریاں
شروع کردیتی ہے کیونکہ بیٹی کے بڑے ہونے کا پتہ نہیں چلتا اوراس غلیظ
معاشرے میں عورت کو کتنی ہی آزادی کیوں نہ مگراس کی فیملی کوان کی عزت کی
ہروقت فکرلگی رہتی ہے کیونکہ وہ جہاں بھی جاتی ہے بھوکے بھیڑے توآزادگھوم
رہے ہیں ان پرتوکسی نے پابندی نہیں لگائی۔بچیوں کی باوقارتعلیم وتربیت
اورکامیاب زندگی بسرکرنے کیلئے باعزت روزگارکے زیادہ مواقع دورحاضرکی سخت
ضرورت ہیں ہم والدین کویہ سوچنا چاہیے ہم اپنی بچی کی تربیت اچھے سے کررہے
ہیں؟کیونکہ بیٹیاں گھروں کی رونق کے ساتھ ساتھ خاندان کی عزت اورسکون ہوتی
ہیں انکی معصومیت اورپاکیزگی والدین کافخراورغرورہوتی ہے مگرجب بیٹیوں کی
معصومیت کوزمانے کی ہوالگ جائے اورپاکیزگی کو دورحاضرکی دیمک چاٹنے لگے
تودلوں کو سکون بخشنے والی یہ بیٹیاں زندگی کا روگ بن جاتی ہیں آج کل ہمارے
معاشرے میں لڑکیوں کا گھرسے بھاگنااورپسندکی شادی کرنا رواج سا بنتا جارہا
اوراس کے ذمہ دارسراسروالدین ہیں جومشرقی طرز کے بجائے مغربی طرز زندگی
کوترجیح دیتے ہیں ہم جب بھی گھرداخل ہوں تومغربی ڈرامے فلموں کی آواز آتی
ہے نماز قرآن کا پتہ نہیں مگرفلموں ڈراموں گانوں کے ڈائیلاگ یاد ہیں والدین
بیٹیوں کو کھلی آزدی دے کران میں خودنمائی اور بے باکی توپیداکردیتے ہیں
مگرخوش اخلاقی انکسارشعورایثارجیسی خوبیاں پیداکرنے میں ناکام نظرآتے ہیں
جس وجہ سے بچی کالج سے پہلے سکول میں ہی کسی نہ کسی کے پیارمیں پڑ جاتی ہے
یاان پڑھ بھی ہوتو فلمیں ڈرامے دیکھ کراس کے اندرخواہش جاگتی ہے مجھے اس
ہیروجیسا چاہنے والا کوئی ہوجس کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی کے جھانسے میں
آجاتی ہے مگرآج کل کی محبت سے اﷲ بچائے اس حوالے سے شاعرنے کیاخوب کہا ہے :
لباس تن سے اتاردینا کسی کوبانہوں کے ہاردینا
پھراسے جذبوں کو ماردینااگرمحبت یہی ہے جاناں
تومعاف کرنا مجھے نہیں ہے!!!!
حالانکہ ہمیں اپنی بیٹیوں کو بے ہودہ ٹی وی چینل دیکھنے اور رات رات بھرفون
پربات کرنے کیلئے سختی کرنی چاہیے تاکہ ہمارا غرورنہ ٹوٹے فون سے بڑھ کرآج
کل اسلامی معاشرے میں دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا جسے ٹرپ کہتے ہیں یہ
ٹرینڈ بن گیا ہے جس کی وجہ سے کئی کئی روز بچیاں گھرسے باہراپنے مرددوستوں
کیساتھ رہتی ہیں مگرہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا اسلامی معاشرہ اس چیز کی
اجازت ہی نہیں دیتا کہ غیرمحرم لڑکے لڑکی کی دوستی کا تصورہی نہیں مگراس
معاشرے میں اگرکوئی والدین روک دے تو کندذہن اور پرانے خیالات والا شکی
پتانہیں کیا کیا کہا جاتا ہے یقیناً بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ قابل فخرثابت
ہوسکتی ہیں مگرشرط یہ ہے کہ ان کی تربیت اچھی کی جائے آج کل دیکھنے اورسننے
میں آتا ہے کہ فلاں لڑکی کی شادی ہوئی اسے کھانا پکانا نہیں آتا گھرکی صاف
ستھرائی کا نہیں پتا یہ فرض ماں کا ہے اس وجہ سے ماؤں کواپنا کرداراداکرنا
چاہیے تاکہ انہیں شادی کے بعدشرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے کھاناپکانا
صفائی ستھرائی ایک دن کا کام نہیں اس میں کئی سال لگ جاتے ہیں اس لیے بچیوں
کی پڑھائی کیساتھ انہیں گھر کے کام کاج بھی آنے چاہییں ۔ یہ کام تعلیم کی
بے جان ڈگریون سے نہیں بلکہ ماں کی تربیت سے سیکھیں تب نکھارآئے گااورسسرال
کے دلوں میں جگہ بنانے میں دیرنہیں لگے گی آج سے 3دہائی پیچھے چلے جائیں
تووہ دوراچھا تھا جب بچیوں کو دینی تعلیم توضروردلوائی جاتی تھی اور
گھرداری میں بھی خوب مہارت دلوائی جاتی تھی اس وقت کی لڑکیاں اپنے میکے کی
عزت وآبرو کی خاطرہرمشکلات کا سامنا کرتی تھی مگرگھرکونہیں ٹوٹنے دیتی تھی
مگرآج کے دورمیں ہم دیکھتے ہیں کئی عورتوں نے ہی طلاق کیلئے درخواستیں دی
ہوئی ہیں طلاق اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل ہے اسلیے سب سے پہلے
ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اوراردگرد کے لوگوں پرتوجہ دینی چاہیے اور کسی
لڑکی کوچھیڑنے والے کوسخت سزادلوائی تاکہ پھرکسی کی جراٗت نہ ہوتب ہی ہماری
بچیاں آزد گھوم سکیں گی اور آزادی محسوس کریں گی۔بچیوں کے حقوق کے عالمی دن
کے موقع پر میں شوہرحضرات سے اتنا کہوں گا کہ اپنی بیویوں پربھروسہ کریں
اوراسے اپنی داسی نہ سمجھیں:شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
باپ سے بھی ملتی ہیں توشوہرسے پوچھ کر
بیٹی جب رخصت ہوتی ہے توحقداربدل جاتا ہے |