صحافت جرائم پیشہ افراد کا گنگا جمنا

سید الاولین والآخرین نبی کریم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے بڑھ کر کوئی ایسی سعادت نہیں جو اس دنیا کے باسیوں کو نصیب ہوئی ہو، بالخصوص اہل عرب وہ خوش قسمت ترین قوم ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔کیونکہ آپﷺ کی مبارک آمد کے موقع پر عرب معاشرہ جس زبوں حالی اور اخلاقی انحطاط کا شکار تھا اُس وقت کی دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، جبکہ آپ ؐ کی بعثت اور غلبہ کے بعداہل عرب اس قدر مہذب معاشرہ بن کر دنیا کے نقشہ پر ابھرے کہ ان کا مقابلہ دنیا کی کوئی تہذیب نہیں کرپائی۔ اس تفاوت کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی ﷺ
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی

عرب کے پسماندہ علاقو ں میں بھٹکنے والے سادہ دل لوگ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر دین ِ اسلام کی روشنی سے منور ہوئے تونہ صرف شرق وغرب کے اقتدار کے مالک بن گئے بلکہ رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کردی۔نبوت و رحمت کی نسیم ہدایت کے جھونکے جب جس شاخ سے ٹکرائے اس پر بہار آگئی ۔دعوت الی اﷲ کی صدا ابوبکر ؓ کے کانوں تک پہنچی تو صدیق اکبر بنا دیا،رحمت للعالمینؐ کی نظرِانتخاب عمر بن خطاب ؓ پر پڑی تو فاروقِ اعظم بنا دیا،عثمانؓ بن عفان نے دین الٰہی کو لبیک کہا تو غنی اور ذوالنورین بن گئے، پیغمبرانہ دستِ شفقت علیؓ بن ابو طالب کے سر پر ٹھہرا تو حیدر کراربن گئے، دعائے نبوی ؐ امیر معاویہ ؓ کی قسمت میں آئی تو ہادی و مہدی بن گئے ، خالدؓ بن ولید محبت رسالت ؐسے سرفراز ہوئے تو سیف اﷲ بن گئے، ابو عبیدہؓ دامن ِ مصطفےٰؐ سے منسلک ہوئے تو امین الامت کہلائے، ابو ایوب ؓ نے آپؐ کومرحبا کہا تو میزبان رسولؐ بن گئے،غرضیکہ آفتابِ نبوت کی کرنیں اس معاشرے پر صبحِ نو کا رنگ بکھیرتی چلی گئیں۔سحرکا سورج بلند ہوا تو یہ معاشرہ صحابہ کرام ؓ کی مقدس مطہر جماعت کی صورت میں ظاہر ہوا۔

امام الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس کھیتی نے پھل پھول دینا شروع کیا تو دنیا مہک اٹھی۔وہ امت جس کا تذکرہ رب العالمین نے گذشتہ صحائف میں جا بجا کیا تھا ایک مظبوط بنیاد کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی۔ان بنیادوں کے امین صحابہ کرامؓ نے ایفائے عہد اور دیانت داری کا حق ادا کردیا ،ہر وہ قربانی دی جو غلامیٔ رسالتؐ کا تقاضا تھی، اپنے ایثارو تقویٰ کا لوہا منوایا حتیٰ کہ رب العالمین نے کفار کے دل ان کی ہیبت سے اور اپنوں کے دل حلاوت سے بھر دیے ۔ایمان و عمل کی اسی معراج کے باعث رب کائنات نے صحابہ کرام ؓکی سیرت کو قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ قرار دیا۔قرآن حکیم میں یہ اعلان فرمادیا گیا کہ جس کا ایمان صحابہ ؓ کے ایمان سے متماثل ہو گیا اسی کو ہدایت کی سند ملے گی۔پھر تاریخ شاہد ہے کہ جس فرد نے ، جس گروہ یا جماعت نے، جس معاشرے نے ان پاکباز ہستیوں کی سیرت کو اپنی زندگی میں اپنا لیا کامیابی و فتح نے اسی طرح اس کی قدم بوسی کی جس طرح صحابہ کرام ؓ اس دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوئے۔ انہی کے نقش قدم پر چل کر موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد ، محمد بن قاسم ، محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، نور الدین زنگی جیسے جرنیلوں نے دشمن کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا اوررب کائنات نے ان کے دشمن کے دلوں کو خوف و ہیبت سے بھر دیا، یہی وجہ تھی کہ وہ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود کثیر دشمن پر اسی طرح غالب ہوئے جس طرح صحابہ کرامؓ فتح یاب ہوتے تھے۔بقول شاعر
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیرے نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

پھر رفتہ رفتہ جب امت مسلمہ سابقہ امتوں کی روش کو اپنا کر اسلاف کے طریقے سے ہٹنے لگی تو رب العالمین کے انعامات اور وحی کی برکات سے محروم ہوتی چلی گئی، مسلمانوں نے جب جب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقے اور صحابہ کرامؓ کی سیرت سے اعراض کیاتب تب اغیار کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے چلے گئے اور کفار کے دلوں سے مسلمان کا رعب ختم ہو گیا، دنیا بھر میں جگہ جگہ کفار کے مظالم کا نشانہ بننے لگے، کبھی تاتاریوں، کبھی یہودیوں ،کبھی نصرانیوں فرنگیوں، کبھی ہندوؤں، کبھی بودھوں، کبھی رافضیوں اور کبھی دہریوں نے امت مرحومہ کو تختۂ مشق بنا کر جو ظلم کیا تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے،اور پھر اغیار کا ظلم اپنی جگہ ، اپنوں کی بے حسی اس سے بھی بڑا ظلم ہے بلکہ زخموں پر نمک پاشی کے برابر ہے۔خیرالقرون میں تو مسلمانوں پر ظلم کاردعمل بلاتاخیر جہاد کی صورت میں ہوتا تھا۔ لیکن جبر کے اس دور میں مسلمانوں پر ظلم کاانتہائی ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی)کا رسمی اجلاس طلب کرکے معمول کی کاروائی کی جاتی ہے یا اقوام متحدہ کواحتجاجی یادداشت پیش کرکے اکتفا کرلیا جاتا ہے۔

اسلامی ممالک کے اس مضحکہ خیز ردعمل سے کافر کی ہمت مزید بندھی اور اب اس کی جرأت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقدس اور مطہر ناموس پر منظم حملے کرنے لگے اور ان کے نام پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت جیسی ناپاک جسارت بھی کر ڈالی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہر مسلمان پر کیا کیا حقوق ہیں اور ہم سب کو اس گستاخی پر کیا ردعمل کرنا چاہیے تھا، ان سوالات کے جوابات اگر ہر شخص اپنے ضمیر سے پوچھے تو یقینا مایوسی نہیں ہوگی۔ لیکن اس کے برعکس ہمارا ردعمل کیا تھاکہ ہم نے اپنے اپنے موبائل ، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر اپنے فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر ، انسٹاگرام وغیرہ کے اکاؤنٹ لاگ ان کیے اور گستاخانہ خاکوں پر خوب برسے، ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ لائک اور شئیر کریں تاکہ کافر کو پتا چل جائے کہ مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورکسی کو آئندہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گستاخی کی جرأت نہ ہو۔یا یہ لکھ دیاکہ جس کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت ہوگی وہی اس پوسٹ کو شئیریا لائک کرے گا۔پہلی بات تو یہ کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر کوئی مذمتی بیان پوسٹ کرنے سے کسی کافر کو کوئی فرق پڑے گاتو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں کیونکہ ضدی کافروں کا علاج مذمت نہیں بلکہ مرمت ہے اور کفار تو یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے تمام فرائض و اعمال نظر انداز کرکے انٹرنیٹ پر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں۔

اسلام تفریح سے منع نہیں کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی اجازت دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کی مثال یوں ہے کہ جیسے آگ ہر گھر کی ضرورت ہے لیکن اس آگ کو ہمہ وقت قابو میں رکھنا سلامتی کا تقاضا ہے، اگر آگ سے بے فکر ہو جائیں تو وہ لمحوں میں گھر بھر کو تباہ کرسکتی ہے، اسی طرح انٹرنیٹ اگر نماز و اذکار سے فراغت کے بعد کاروبار یا ذاتی تفریح کے لیے ایک حد میں رہ کر استعمال کیا جائے تو اس کا فائدہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس میں مصروف ہو کر اپنے دین و دنیا سے بے فکر ہوجائیں اور اپنی نسل کو بھی بے راہروی اور بے حیائی کے گرداب میں دھکیل دیاجائے۔دوسری بات یہ کہ ہم گستاخی کی مذمت تو ضرور کریں لیکن اس سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ کہیں خود ہم نے تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حقوق سے نا انصافی تو نہیں کی۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا اور حیات طیبہ کا آخری حکم اس کے التزام کا دیا ہم نے اس نماز کی کتنی قدر کی ۔جبکہ مؤذن نے اپنی ہر ہر اذان میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اسم گرامی ادا کرکے گویا ہمیں یاد دلایا کہ آپ ؐ نے نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی تھی۔ہم اپنا احتساب کریں کہ آپ ؐ کے نام نامی گرامی قدرسے متصلـــــ حی علی الصلوٰۃ کی پکار نے ہمارے دل نرم کیوں نہیں کر دیے اور ہم نے نماز قضا کیوں کی ۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں موسیقی کے آلات کو توڑنے کے لیے دنیا میں آیا ہوں۔اب اگر آپ ؐ کے اس حکم کے پیش نظر اپنے اعمال کا مختصر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔موسیقی جس کے آلات کو توڑنے کے لیے آپؐ دنیا میں تشریف لائے،ہم نے اپنی روز مرہ زندگی میں اسی موسیقی کو موبائل ٹونز اور ٹیونز کے نام پر کس قدر داخل کر رکھا ہے۔

عام طور پر ہمارے کان پر جو ں تک نہیں رینگتی کہ ہمارے موبائل فون کی موسیقی کسی کی عبادت میں کتنا دخل انداز ہورہی ہے۔ہم کبھی اس بات کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ موبائل کی میوزیکل ٹونز کی بجائے اس کو صرف وائبریشن یا سنگل بیپ پر ہی رکھ لیں تاکہ کم از کم موسیقی کا گناہ ہمارے حصے میں نہ آئے اور کسی حد تک ہم نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی سے بچ جائیں۔ بلکہ اب تو ہماری بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی ؐ میں بھی موبائل ٹونز کے ذریعے موسیقی بج رہی ہے، مسجد نبوی ؐ میں موبائل فون کی میوزیکل ٹونز چلا کر ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہو کر آپؐ کے امتی آپ ؐ کے واضح احکام کی نافرمانی کریں گے تو آپ ﷺکو کتنا دکھ ہو ا ہو گا۔

معروف عالم دین حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ ایک مرتبہ مسجد نبوی ؐ کے باہر کھڑے تھے اسی دوران ایک پاکستانی جو بظاہر تعلیم یافتہ اور متمول لگتا تھا نہایت ادب سے حضرت سے ملا۔ حضرت اس کو دیکھ کر رونے لگے اس شخص نے رونے کی وجہ دریا فت کی تو آپؒ نے فرمایا ـ ، بھائی !جب میں نے آپ کے چہرے کو دیکھا تو مجھے اس لیے رونا آیا کہ آپ (داڑھی مونڈ کر) اس چہرے اور شکل کو لے کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دربار میں گئے ہوں گے ، اس سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کتنی تکلیف پہنچی ہو گی۔یہ سن کر وہ شخص دھاڑیں مارمار کر رونے لگا اور وعدہ کیا کہ آئندہ داڑھی نہیں منڈواؤں گا۔اسی طرح ہمارا بڑا جرم ہے کفار کی نقالی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہو گا۔ہمارے اطوار ، گفتار ، کردار،تہذیب و تمدن پر اغیار کے آثار صاف نظر آتے ہیں۔ افسوس ناک اور حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف جنہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی کو اپنا کر اعلیٰ کردار اور اخلاق سے دنیا کی وسعتوں کو زیر کرلیاہم ان کے طریق سے اعراض کر کے کفار کی نقالی میں اپنی کامیابی کو تلاش کرنے لگے۔ہماری ایک اور معاشرتی برائی ہے کہ ہم باہمی حقوق کا خیال نہیں رکھتے ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا کہ کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کواپنے ہاتھ اور زبان سے ایذا نہ پہنچائے، اور ہم آپؐ ہی کے ناموس پر احتجاجی جلوس نکال کر حد سے گزر جاتے ہیں، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی دوکانوں ، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا کر اور اپنے قومی اثاثوں کو جلاؤ گھیراؤکا نشانہ بناکر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے توہین رسالت کا بدلہ لے لیا ہے۔اگر جلوس نکال کر دنیا کی توجہ طلب کرنا مقصود ہے تواس بات کا اہتمام لازمی ہو کہ پرتشدد ہتھکنڈوں کی بجائے جلوس امن اور سلامتی کی علامت ہو۔ کسی کا راستہ بند نہ کیا جائے اور کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ گستاخانہ جسارت کرنے والوں کوان پر تشدد کاروائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ہاں اگر نقصان ہو گا تو خود ہمارے کسی مسلمان بھائی کا ہوگا۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والوں سے بدلہ لینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم آج ہی سے اپنی زندگی بدلنے کا ارادہ کر لیں، ہم یہ نہ سوچیں کہ پورے معاشرے کو بدلنا تو ممکن ہی نہیں، جن لوگوں کو اﷲ نے توفیق دی ہے وہ فرداً فرداً اس معاشرے کو اﷲ کے دین اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے طریقوں پر لانے کی محنت کر رہے ہیں اور اس کے لیے وقت لگا رہے ہیں بلکہ اپنی زندگیاں بھی اﷲ کے راستے میں وقف کر رہے ہیں، انفرادی طور پرہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اپنے اعمال کو درست کریں کیونکہ اﷲ کی مدد اعمال پرآتی ہے،جب ہماری انفرادی زندگی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر آ جائے گی تو یہی کافر کی موت ہو گی۔در اصل کفار کو آپؐ کی توہین کا راستہ ہماری بداعمالی ہی نے تو دکھایا ہے۔ اس لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سب اپنے گریبان میں جھانکیں ورنہ اﷲ کی عدالت میں ہمارا یہی گریبان فرشتوں کے ہاتھ میں ہو گا اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔

Qazi Bahao Uddin
About the Author: Qazi Bahao Uddin Read More Articles by Qazi Bahao Uddin: 17 Articles with 22701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.