جہیز

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر فیاض احمد
آجکل نفسا نفسی کا دور ہے ہر انسان کی کوشش ہے کہ دوسرے انسان سے آگے نکل جائے اس مقصد کے لئے جائز اور ناجائز چیزوں میں تمیز کرنا بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے ناسور پیدا ہو جاتے ہیں اور ہمارے گھروں سے سکون تک ختم ہو جاتا ہے ہم صرف اور صرف دوسروں پر تنقید کرتے ہیں اپنے چہروں کو اصل شکل میں دیکھنے سے ڈرتے ہیں جس کی بدولت گھروں سے برکت تک ختم ہو جاتی ہے اس کو حوس کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے اس کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں جن میں دولت کا حوس، رشتوں کا حوس، شہرت کا حوس اور جہیز وغیرہ کا حوس قابل ذکر ہیں
ماں باپ کا گھر بکا، تو بیٹی کا گھر بسا
کتنی نامراد ہے یہ رسم جہیز بھی

ہمارے معاشرے میں ان دنوں لڑکیوں کے رشتوں کے مسائل عروج پر ہیں جس کی بنیادی وجہ جہیز ہے اچھی خاصی پڑھی لکھی لڑکیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے والدین پریشانیوں کا شکار ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لیٹ شادی کی وجہ سے بھی لڑکیوں کو کئی قسم کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی اب تک کنواری ہے

موجودہ دور میں ہمارا معاشرہ ظاہری خوبصورتی اور مالی حیثیت کو زیادہ ترجیح دیتا ہے انسان کی انسانیت کو دیکھنے والے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے گھر ان خوشیوں سے محروم ہیں لیکن ہمیں کسی کی خوشی یا غمی کی کوئی پرواہ نہیں ہے ہم ایک دوسرے کی مالی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہو ئے اس کے ساتھ اپنے تعلقات پروان چڑاتے ہیں ہم میں احساس نام کی کوئی چیز تک نہیں ہے آجکل ایک چیز زیادہ تر دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ دوسروں کے گھروں میں رشتے دیکھنے کے غرض سے جاتے ہیں اور لڑکی والوں کی حیثیت کو دیکھتے ہیں اگر وہ ان کے معیار کے مطابق نہیں ہوتے یعنی ان کے مطالبات پورے نہیں کر سکتے تو رشتے سے انکار کر دیتے ہیں کبھی کسی نے سوچا ہے کہ انکار ہو جانے پر ہمارے معاشرے میں لڑکی کو کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کو معاشرے میں کتنی باتیں سننی پڑتی ہیں اور ہر دفعہ نمائش کیلئے پیش ہونا پڑتا ہے اس لڑکی کیلئے ایک درد ناک حقیقت سے کم نہیں ہے لیکن ہم میں اس چیز کا احساس تک نہیں ہے ہم دوسروں کے درد سے ناآشنا ہیں لیکن جب یہ صورت حال ہمارے ساتھ واقع ہوتی ہے تو ہمیں اس چیز کا احساس ہوتا ہے مگر اس وقت ہم بے بس ہوتے ہیں ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے جہیز اس میں ایک لعنت سمجھا جاتا ہے اس لئے اس سے محفوظ رہنا چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج صرف اور صرف احساس ہے بطور مسلمان ہمیں اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کیونکہ جب ہمارے اندر احساس پیدا ہو گا تب ہمیں دوسروں کے دکھ اور تکلیف کا احساس ہو گا
تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے
باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے

آجکل ہمارے معاشرے میں جہیز کی بہت سی اقسام موجود ہیں لوگ جہیز کے نام سے تو نفرت کرتے ہیں اور ویسے لڑکی والوں کے ہاتھ میں سامان کی ایک لسٹ تھما دیتے ہیں اور ان کے مطابق یہ ضروریات زندگی ہے ہمیں تو کچھ نہیں چاہیے اور نہ ہی ہمارا کوئی مطالبہ ہے یہ سب تو آپ کی بیٹی کی ضرورت ہے مثال کے طور پر فریج، ٹی وی وغیرہ حالانکہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے لیکن ہم انسان کے بجائے چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں انسان دوبارہ نہیں ملتے مگر چیزیں تو مل جاتی ہیں ہم ملنے والی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے اور نہ ملنے والے انسان کی قدر نہیں کرتے ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر میاں بیوی میں پیارومحبت ہی نہیں ہو گا تو ایسی زندگی کا کیا فائدہ چیزیں ایک دوسرے کے اندر احساس پیدا نہیں کر سکتی جب میاں بیوی میں ایک دوسرے کا احساس ہو گا تو چیزوں کے بغیر بھی زندگی اچھی گزرے گی لیکن بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو یہ بات سوچنے کے قابل ہوتے ہیں ہمیں دوسروں کی بیٹیوں کا خیال رکھنا چاہیے

ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک باپ بیٹی پیدا کرنے کے بعد کن کن مشکلات سے دوچار ہوتا ہے سب سے تعلیم و تربیت اور پرورش کرنے میں جان توڑ محنت کرتا ہے پھر ہر لحاظ سے اس کی جائز حواہشات کو پورا کرتا ہے یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے جو وہ بغیر کسی لالچ کے اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے اس بات کا احساس ہمیں صرف اسی وقت ہی ہو سکتا ہے جب ہم خود ایک بیٹی کے باپ ہوں گے دوسروں کی مشکلات سے واقفیت حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے جب ہم پر یہ ذمہ داری پڑے گی تب پچھتاوا ہی ہمارے پاس ہو گا اس لئے اس پچھتاوے سے بچنے کیلئے ہمارے اندر دوسروں کی بیٹیوں کا احساس ہو نا ضروری ہے جس کی بدولت ہم اس دور کی ان غیر ضروری رسم و رواج سے اپنے ذہنوں کو پاک کر سکیں اور اس جہیز جیسی لعنت سے اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو محفوظ کرسکیں جس کی بدولت ہم اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوار سکیں اگر یہ فعل ہم کرتے ہیں تو اس کے اثرات ہمارے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں کیونکہ بچہ وہی کرتا ہے جو وہ اپنے ارد گرد کے ماحول میں دیکھتا ہے اسی لیے اپنے اندر احساس پیدا کرنے سے ہمارے بہت سے فائدے ہیں ایک تو ہم اپنی آخرت کو بہتر بنا سکتے ہیں دوسرا ہم اپنے بچوں کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں تھوڑی سی احتیاط سے ہم اپنے بچوں کو اچھے خیالات کا مالک بنا سکتے ہیں جس کی بدولت ہم ایک اچھے معاشرے اور اچھے انسان پیدا کر سکتے ہیں ہمیں صرف اور صرف کوشش کرنی چاہیے یعنی اپنی نیت کو صاف رکھنا چاہیے
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 470469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.