ثانی مدینہ ہے میرا وطن

داد سخن۔ *عشاء نعیم*

اس وطن کو بنے اکہتر سال ہوگئے۔
پہلے دن سے لے کر آج تک اس کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔اس کو ختم کرنے کی جتنی جدو جہد کی گئی ہے شاید ہی کسی ملک کے لئے کی گئی ہو۔کیا اپنے کیا پرائے جس کو دیکھو جڑیں کاٹنے کو تیار۔
یہ تو اللہ کا انعام تھا کہ شہدا کے خون نے اس کی بنیادوں کو ایسا دوام بخشا ہے کہ یہ ملک نہ صرف سلامت ہے الحمداللہ بلکہ یہ ترقی کی ایسی راہ پہ گامزن ہے کہ پورا عالم کفر اسے مسلمانوں کا سر تسلیم کرتا ہے اور اسے قلم کرنے کے طریقے ڈھونڈتا ہے۔اور سمجھتا ہے کہ اسے ختم کر کے پورا عالم اسلام کمزور کر کے لوٹ سکتے ہیں۔
سو یہاں کبھی پیسہ تو سوشل میڈیا وار کے ذریعے اس ملک کی اور اسلام پہ ضربیں لگائی گئیں ۔
فرقہ واریت ، ذات پات، صوبایت ،لسانیت، قومیت ،دہشت گردی آئے دن کوئی نہ کوئی نیا فتنہ۔سب کا مقصد اس ملک سے اسلام کی چھٹی اور پھر ملک کا خاتمہ کے سوا کچھ نہیں۔
ہر طرف سے ناکام ہو کر
اب ایک فتنہ جو دب چکا تھا پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ جب انھوں نے دیکھا کہ شیعہ سنی بھی ناکام گیا ،وہ کفار کے خلاف بھائی بھائی بن گئے،وہابی سنی بھی بھائی بھائی بن گئے، صوبایت بھی ناکام ہو ئی سندھی، بلوچی ، پنجابی پشتون و بلتستانی سب بھائی بھائی بن گئے،اردو پنجابی سندھی زبان کا فرق بھی پیدا نہ کرسکے۔دہشتگردی ایسے کی کہ ایک فرقے پہ ایسے حملہ کیا کہ دوسرے کا،نام آئے وہ بھی وار ناکام گیا تو بالآخر اب وہ یہاں قادیانیوں کو مظلوم بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ ڈبل گیم کھیل سکیں۔
اس سلسلے میں میوزیکل بینڈ "لال" کے سنگر تیمور رحمان صاحب جو LUMS یونیورسٹی کااسسٹنت پروفیسر بھی ہے نے لمز یو نیورسٹی کے طلبا کو پاکستان کے مقام ربوہ جو قادیانیوں کی اکثریت کی وجہ سے قادیانیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے لے کر گئے۔ اور میاں عاطف مرزائی کو مشیر وزیر معاشیات منتخب نہ ہونے پہ احتجاجا قادیانیوں کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

یہ مسٹر فیس بک پہ پوسٹ کرتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسند تنظیمیں آزادنہ نفرت انگیز تقاریر کرتی ہیں ایسے میں میرے سٹوڈنٹس نے قادیانیوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے ربوہ کا دورہ کیا۔
آخر پاکستان میں تعلیمی اداروں کو کیوں کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں پڑھائیں سٹوڈنٹس سے جو چاہیں کروائیں۔
کیا دیگر ممالک میں بھی ایسی ہی چھوٹ ہوتی ہے؟
اور تو اور جس ویب سائٹ پہ یہ آرٹیکل لگا اس میں انھیں اقلیت بھی نہیں بلکہ انھیں مسلمانوں کا ایک فرقہ بھی لکھا گیا (یہ ویب سائیٹ قادیانیوں کی اپنی ہی ہے)۔
یہ سب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ قادیانیوں کے مخالفین کو انتہا پسند،شدت پسند قرار دلایا جا سکے اور ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں نرمی پیدا کی جا سکے۔
انھیں بڑے بڑے عہدوں پہ پہنچا یا جا سکے۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ آخر اس سے کیا ہوگا؟
قادیانی بھی تو انسان ہیں۔
ہاں وہ انسان ہیں لیکن مسلمان نہیں۔
وہ تو باقاعدہ کافر بھی نہیں۔
کیونکہ وہ اپنے کفر کا اعلان نہیں کرتے۔
وہ خود کو مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمان کو کافر کہتے ہیں۔
وہ منکر ختم نبوت ہیں وہ قرآن کی ان آیات کے منکرہیں جن میں اللہ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی قرار دیتا ہے
وہ ان احادیث کے منکر ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ میں اللہ کا آخری نبی ہوں۔
اور یہ معمولی باتیں نہیں ہیں۔
قرآن و حدیث ہی تو ہمارا ایمان ہے۔ایک مسلمان یہ نہیں کر سکتا کہ کچھ آیات و احادیث ماں لے کچھ چھوڑ دے۔
اور قادیانیوں نے یہیں پہ بس نہیں کیا بلکہ ایک خود سے نبی بھی بنا لیا اور جھوٹی شیطانی آیات بھی بنا ڈالیں۔
جو اسلام مخالف ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور کو جھٹلاتی ہیں۔
پھر ایسے لوگ جو گستاخ قرآن گستاخ رسول ہیں کو کیسے ہم اس اسلام کے نام پہ بننے والے وطن پہ مسلط کر لیں۔ہم کیسے لاکھوں شہدا کس خون بھلا دیں جنھوں نے اسلام کے نفاز کےلئے جانیں دیں؟
اس کے بنانے کا مقصد یہاں اسلامی شعار کی ادائیگی کے لئے آزادی حاصل کرنا تھا نہ کے غداروں کی آزادی حاصل کرنا۔
یہ ملک میر جعفر و میر صادق کے لئے نہیں بنا تھا بلکہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کے لئے بنا تھا۔
قادیانی کسی صورت بھی پاکستان کے وفادار نہیں ہو سکتے ۔
اس کے علاوہ یہ لوگ اسرائیل کے پیڈ لوگ ہیں انھیں کفار اسلام مخالف ہونے کی وجہ سے سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں۔
یہ کفار کے مخلص اور مسلمانوں کے دشمن ہیں یہ پاکستان کے بھی دشمن ہیں۔یہ پاکستان کے لئے کچھ اچھا کر ہی نہیں سکتے۔یہ تباہ ہی کریں گے اس وطن کو بس۔
بڑے عہدوں پہ پہنچا کر بھی مقصد یہ ہے کفار کا کہ وہ میر جعفر و میر صادق کا کام لے سکیں۔اور یہاں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ اس پہ قبضہ کرنا آسان ہو جائے۔
یہ بہت بڑی سازش ہے۔جو تیمور جیسے لوگوں کے ذریعے پہلے اس وطن کی نئی نسل کو ناچ گانے پہ لگایا گیا اور اب قادیانیت کے ہمدرد بنا کر کھڑا کر رہے ہیں ہر طرف سے گویا کہ گھیرا جا رہا ہے۔
نئی نسل کو اسلام و پاکستان سے دور کیا جا رہا ہے۔کیونکہ یہی راستہ ہے پاکستان پہ قبضے کا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں والدین بھی بس سکول کا نام دیکھ کر بچوں کو سکول داخل کرتے ہیں۔وہاں ایمان لٹ جائے اس پرواہ نہیں۔بیکن سکول۔ایجوکیٹر اور لمز یہ سب اپنی اصلیت دکھا رہے ہیں۔سب اسلام سے دور لے کر جا رہے ہیں۔کوئی کشمیر کا نقشہ ہی پاکستان کے نقشے سے نکال رہا ہے کوئی انڈیا کا حصہ دکھا رہا ہے کوئی اسلام پہ سوال اتھا رہا ہے۔اس قدر گند سکھایا جا رہا ہے کہ زیر قلم لانا بھی ناممکن لگتا ہے۔
ہم حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے تمام سکولز ،کالجز و یو یونیورسٹیز کو اصول و ضوابط اور حدود و قیود کا پابند بنایا جائے۔
ورنہ انھیں بند کیا جائے۔
اور تعلیمی اداروں میں یہ ناچ گانا سکھانے اور پروگرامز میں یہ سب کرنے پہ بھی پابندی لگائی جائے تاکہ مدینہ جیسی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
وہ خواب جس کا خان صاحب نے آتے پہلی تقریر میں ہمیں دکھایا تھا۔

Muhammad Naeem Shehzad
About the Author: Muhammad Naeem Shehzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shehzad: 144 Articles with 107586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.