مفکر پاکستان علامہ اقبال ؒ

تحریر: امداداﷲ خان نعمانی
علامہ اقبال ؒکا تصور پاکستان طویل جدوجہد کا ثمرہ ہے جو مسلمانوں کے قومی تشخص کو بدرجہ اتم اجاگر کرتا ہے۔ علامہ اقبال ؒاس بات سے بخوبی آشنا تھے کہ مسلمان ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنے بنیادی حقوق حاصل نہ کرسکیں گے اور ہندوؤں کے غلبے میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں گے۔ اسی لیے علامہ اقبالؒ کے پیش کردہ تصور پاکستان کی روشنی میں پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر رکھی گئی۔ علامہ اقبال ؒنے مسلمانانِ برصغیر کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنے اشعار کا سہارا لیا اور اقوام مسلم کو صرف اور صرف اﷲ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات و فرمودات کو اپنا ہم رفیق بنانے کا درس دیا۔

اسلام کے عادلانہ نظام کی ترویج اور مغربی تہذیب کی غیر مساویانہ روش کو بدلنے اور رنگ و نسل کے امتیازات کو ختم کرنے کا ذریعہ اسلام کو قرار دیا۔ انقلاب علامہ اقبال کے تصور پاکستان کا ہی تسلسل تھا۔یہ تصور یہ نظریہ انسان کی اجتماعی زندگی کا نظریہ تھا یوں اقبال انسانیت کے لیے بالعموم امت مسلمہ کے لیے بالخصوص اجتماعیت،اتفاق اور اتحاد کا درس دیتے ہیں اور اتحاد ملت کو امت مسلمہ کی فلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے جدید دور کی جہالت اور مغرب کی تاریکیوں کی نشاندہی کی جو اس وقت مسلمانوں کو اپنی کشش کی لپیٹ میں لے رہی تھیں بقول اقبالؒ کہ
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر

اس آگاہی کے بعد علامہ اقبالؒ نے اپنی قوم کے لیے باقاعدہ اصلاحی کاوشوں کا آغاز کیا۔ یہی وجہ سے کہ آپ نے مسلمانوں کے جداگانہ تصور قومیت کو غلبہ اسلام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا۔ بقول ہندو لیڈر مدن موہن مالویہ ’’اقبال سے پہلے ہم یہ بات محسوس نہیں کرسکتے تھے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا الگ وجود بھی ہے ہم انہیں متحدہ قومیت کا جزو سمجھتے تھے‘‘۔اقبالؒ مسلم جوانوں کو شاہین کی طرح باعزت خود دار اور پرعزم دیکھنا چاہتے تھے کہ ہم کھڑے ہوکر دنیا سے غیراﷲ کی حاکمیت مٹادیں اور اﷲ کے بندوں پر اﷲ کے سوا کسی کی حاکمیت باقی نہ رہنے دیں۔یہ شیر کا منصب ہے اور اس منصب کو ادا کرنے کے لیے کسی قوم کی خارجی شرائط درکار نہیں بلکہ صرف شیر کا دل درکار ہے اس مقصد کے پیش نظر علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کو پاکستان کا خواب دکھلایا انہیں تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اسی مقصد کے لیے صرف کرنے کی تلقین کی۔

لیکن آج یہ ہماری بدقسمتی کی بات ہے کہ اقبالؒ کے خواب کی تکمیل کہ بعد یہ ملک نہ تو اقبالؒ کی تعبیر کے مطابق اسلام کا گہوارہ بن سکا اور نہ قائد اعظمؒ کی خواہش اور مسلم نظریات کی روشنی میں پارلیمانی جمہوریت کے راستے پر گامزن ہوسکا۔اقبالؒ کی تعلیمات سے روگردانی کرنے کی وجہ سے ملک گزشتہ ستر سال سے پے درپے بحرانوں کا شکار ہے جبکہ قوم غربت و افلاس، بیروزگاری، ناخواندگی، لاقانونیت، بدامنی، بے یقینی اور مایوسی کا سامنا کر رہی ہے۔ ہماری موجودہ سیاسی بحالی سماجی ناہمواریوں اور اقتصادی و معاشی مشکلات بھی اقبالؒ کے تعلیمات سے دوری ہے۔

یوم اقبالؒ کے اس موقع پر ہمارا فرض ہے کہ جہاں دوبارہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی طرف مراجعت کی شعوری کوشش کریں۔ ان کے فکر و فلسفہ کو پروان چڑھانے کے لیے تمام وسائل اور صلاحتیں بروئیکار لائیں وہاں اسلام اور جمہوریت کی تعبیر کے سلسلے میں بھی ان دونوں سے رہنمائی حاصل کریں کیوں کہ انہی کی رہنمائی اور قیادت برصغیر کے عوام نے پاکستان حاصل کیا تھا اور انہی کے خیالات و افکار سے رہنمائی حاصل کرکے ہم ایک اسلامی، جمہوری، پارلیمانی اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ آج ہر شخص بالخصوص حکمرانوں کو اپنے ذہنی تحفظات شخصی نظریات اور تمناؤں سے بالاتر ہوکر اقبالؒ کے فکر و فلسفہ کو کسی قطع و برید کے بغیر نافذ کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ موجودہ مشکلات سے چھٹکارا پانے میں مدد مل سکے۔ وگرنہ خدانخواستہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1035651 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.