دنیا ایک دلفریب دھوکا اور حاصل کچھ بھی نہیں

دنیا کی حقیقت بے شک ایک دلفریب دھوکا اور بہلاوہ ہے اور انسان ساری زندگی اسی دھوکے اور خود کو بہلانے میں ہی گزار دیتا ہے وہ یہی سمجھتا رہتا کہ اس نے جو چاہا پا لیا لیکن کچھ ہی ساعتوں میں اسے کسی دوسری شے کی طلب اندر کا خالی پن پھر سے بے چین کرنا شروع کر دیتا ہے اور لا حاصل کے حصول میں اسے پتہ بھی نہیں چلتا اور اس کی زندگی کے اختتام کا وقت آ جاتا ہے-

جس بات کو سمجھانے کے لیے میں مندرجہ ذیل عبارت تحریر کی ہے اسے اور بھی آسانی سے ذہن نشین کرنے کے لئے ایک فرضی واقعہ جسے پڑھ کر مجھے کافی زندگی کی حقیقتیں اور بھی عیاں ہوئیں اپنے الفاط میں اس کو اور بھی آسان اور عام فہم بنا کر پیش کر رہا ہوں تاکہ قارئین اس سے مستفید ہو سکیں-

میرا ماننا ہے کہ تحریر پیغام جتنا آسان الفاظ میں اور مختصر لیکن جامع ہو گا اتنا ہی پڑھنے والوں کے لئے اسے سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہو کر اپنے میں موجود خامیوں اور کوتاہیوں کو محسوس کر کے اس کی روک تھام کا عمل سہل ہو جاتا ہے-

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں بندروں کا ایک غول جسے جنگل میں موجود پھلوں کی بہتات کی وجہ سے بہت آسائش والی زندگی میسر تھی بہت خوشحالی اور اطمینان سے زندگی بسر کر رہے تھے ایک سائنسدان ریسرچ کے سلسلے میں اپنی بیٹی کے ہمراہ اس جنگل میں کچھ دن پڑاوَ کرتا ہے جس آتے ساتھ ہی ریسرچ کے سلسلے میں عارضی نصب خیمے سے باہر چلا جاتا ہے جب کہ اس کی بیٹی تزین و آرائیش میں مصروف ہو جاتی ہے اس نے کچھ پلاسٹک سے بنے ہوئے مصنوئی سیب کھانے کی ٹیبل پر سجا دیے-

بندروں کی نظر جب ان مصنوئی سیبوں کی ٹوکری پر پڑی تو ان کی چمک دھمک سب بندروں کو بہت بھائی اور وہ ان کو حاصل کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے اور ایک دن ایک بندر ایک سیب چرانے میں کامیاب ہو گیا خیمے میں موجود سائنسدان کی بیٹی نے ان پر فائر کر دیا جس کی وجہ سے باقی بندر سیبوں کے حصول میں ناکام رہے-

سیب حاصل کر لینے والا بندر خود کو بہت خوش نصیب اور برتر جاننے لگا اور باقی بندروں کی سیب کو ہاتھ میں تھامنے کی حسرت کو دھدکارتے ہوئے ایک درخت کی چوٹی پر چڑھ گیا تاکہ سکون سے پورے سیب کو کھا سکے جب اس نے کھانے کے لئے سیب کو منہ میں ڈالا اور کھانا چاہا تو بے سود کیونکہ وہ تو پلاسٹک کا بنا ہوا سجاوٹ کے لئے بنا ہوا ایک شو پیس تھا جس کی وجہ سے اسے اس دن بھوکا سونا پڑا-

جب صبح وہ سیب ہاتھ میں تھامے ہوئے درخت سے نیچے آتا ہے تو دوسرے ساتھی بندروں کی طرف سے اسے بہت تعظیم دی جاتی ہے اور خود سے اسے اشرف سمجھنے لگے جو اسے بہت بھاتی ہے اور وہ بھوک کے باوجود پھلوں کو توڑ کر کھانے کی بجائے اپنی پکڑ اس مصنوئی سیب پر بنائے رکھتا ہے جبکہ دوسرے بندر کبھی اس درخت کبھی اس درخت پر چڑھ کر تازہ تازہ پھل کھاتے ہیں-

اسی برہم اور سیب کو ہاتھ میں ہی رکھنے کے نتیجے میں مسلسل بھوک کی وجہ سے مر جاتا ہے جب باقی کے بندر وہاں آتے ہیں اور اسے مرا ہوا پاتا ہیں تو کچھ آنسو بہا کر اسے پتوں کی اوٹ میں دفنا دیتے ہیں ابھی وہ اتنا کر ہی رہے تھے کہ ایک دوسرے بندر کو وہی مصنوعی سیب ملا۔ اور اس نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو وہ سیب دکھانا شروع کر دیا-

جیسا کہ مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ کیسے جھوٹی تعظیم اور شان کی خاطر ہم لوگ اپنی زندگیوں کو اتنا مشکل بناتے جا رہے ہیں جن کو قائم و دائم رکھنے کے چکر میں اپنا اطمینان سکون رشتے اور آخر کار اپنی زندگی بھی قربان کر دیتے ہیں اور حاصل کچھ بھی نہیں خالی ہاتھ اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتے ہیں-

Syed Zulfiqar Haider
About the Author: Syed Zulfiqar Haider Read More Articles by Syed Zulfiqar Haider: 23 Articles with 25745 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.