قومی مسائل کا حل سیرۃالنبی ؐ کی روشنی میں

ہادی عالم ؐ نے انسانی زندگی کے متعلق تمام امور میں رہنمائی فرمائی اور دونوں جہانوں کی فلاح و کامیابی کے اصول بتلادیئے بلکہ یوں کہئے کہ ظلمت کدہ عالم میں ربیع کے مہینے وہ بہار آئی کہ جس کے قدموں میں اوج ثریا کی بلندیاں بھی فرش راہ ہوئیں ۔نوری مخلوق کا سردار طوق غلامی پر نازاں ہوا ۔چاند ، سورج اور ستاروں کی لمعانیت جس کے در کی دریوزہ گر ٹھہری ۔ بھٹکتی انسانیت کو صراط مستقیم پر چلانے والا آچکا ۔ یتیموں ،مسکینوں ،بیواؤں اور مظلوموں کے سرپر دست شفقت رکھنے والا آگیا۔ ظالموں ،جابروں اور وقت کے فرعونوں کا احتساب ہوا چاہتا ہے ۔عورت اب محض عیاشی ،جنسی لذت ،زندہ درگور اور بے توقیری کی نظر نہیں ہوگی بلکہ ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کے تقدس سے پہچانی جائے گی ۔غلام اب جانور نہیں رہے بلکہ اپنے مالک کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھے گیں اور ایک ہی صف میں اپنے رب کے حضور کھڑے ہونگے ۔بڑائی کا ذریعہ مال و دولت اور طاقت نہیں بلکہ تقویٰ ہوگا اور کسی کو بھی استثناء نہیں ملے گا ۔عہدوں کی تقسیم منظور نظر افراد اور اقربا ء پروری پر نہیں بلکہ میرٹ پر ہوگی ۔انسان کی جان ، مال ،عزت اور آبرو کی حفاظت لازم ہے ان کو پامال کرنے والوں کو سرعام سزادی جائیگی تاکہ انسانیت کی حرمت کی حفاظت میں کوئی گنجائش باقی نہ رہے ، یہ اور اس طرح کے سینکڑوں احکامات نبوی ؐ نے مختصر سے وقت میں دنیا عالم کے اندر انقلاب برپا کردیا اور بے ہنگم لوگوں کے ہجوم کو ایک آئیڈیل معاشرے میں تبدیل کردیا ۔

اسی طرح ہادی عالم ؐ نے ایک مملکت کو فلا حی ریاست بنانے کے اصول بھی مختلف شعبہ ہائے جات بنا کر سکھلائے مثلاً محمد بن مسلمہ انصاری ؓ کو مدینہ میں پولیس کے شعبہ کا انچارج بنا یا ، حضرۃ عبادہ بن صامت ؓ کو وزیر تعلیم بنایا ،حضرۃ عبداﷲ بن سعید بن العاص ؓ کو انچارج شعبہ خوش نویسی مقرر کیا ،اسوقت قاضی اور مفتی کا منصب ایک ہی ہوتا تھا چنانچہ چاروں خلفائے کرام ؓ ،حضرۃ عبدالرحمن بن عوف ؓ ، حضرۃ عبداﷲ بن مسعود ؓ ،حضرۃ ابئی بن کعب ؓ ، حضرۃ معاذ بن جبل ؓ ، حضرۃ عمار بن یاسر ؓ وغیرہ کو قاضی و مفتی بنایا گیا ۔ حضرۃ عبداﷲ بن الارقم الزہری ؓ کو شعبہ دستاویزات کا انچارج بنایا ، حضرۃ سعید بن العاص ؓ مکہ میں بازاروں کے نگران مقرر ہوئے اسی طرح ایک صاحب الاعشار ہوتا تھا جو تاجروں کے سرمائے کا ندازہ لگا کر ان سے عشر لیا کرتا تھا ،ایک صاحب الخراج ہوتا تھا جو زمین کی پیداوار سے حصہ وصول کرتا تھا ، ایک صاحب الجزیہ ہوتا تھا جو غیر مسلموں سے ٹیکس وصول کیا کرتا تھا ،ایک صاحب المساحہ ہوتا تھا جو زمین کی جانچ اور پیداوار کا اندازہ کرتا تھا ، سیدنا عمر فاروق ؓ وزیر خارجہ تھے ،سیدنا ابوبکر صدیق ؓ وزیر مملکت تھے وغیرہ وغیرہ ۔

ہمیں اس وقت جن قومی مسائل کا سامنا ہے ان کا بہترین حل سیرۃ النبی ؐ میں موجود ہے جس پر مختلف موضوعات کی ہزاروں کتابیں مرتب ہو چکی ہیں میری کافی عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ کوئی ایسی کتاب ہو جس میں ملکی و قومی مسائل کو عنوانات کے تحت ذکر کیا جائے اور پھر ہر مسئلے کے آخر میں اس کے ساتھ جس طرح نبویؐ دور حکومت میں نمٹا گیا اس کا جامع اور ما نع ذکر ہو مگر اس طرز کی کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گذری میں چند مسائل کا حل اس طرز پر اپنی کم علمی کو مد نظر رکھتا ہوا پیش کر رہا ہوں اس نیک نیتی کے ساتھ کہ کوئی صاحب قلم اس طرز کو اپنا کر کوئی جامع کتاب مدون کرے جو کہ ملک عزیز پاکستان کی قانون سازی میں بھی معاون ثابت ہو ۔

سید سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرۃ النبی ؐ جلد ہفتم میں اسلامی نظام مملکت کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں ’’ اسلام عرب میں جو نظام حکومت قائم کرنا چاہتا تھا اس کے لئے صرف یہی نہ تھا کہ عرب کی قدیم و حشت کو مٹاکر اسلامی تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی جائے بلکہ سب سے مقدم کام یہ تھا کہ عرب کو غیر قوموں کے دماغی تسلط ،سیاسی مرعوبیت اور ان کے اخلاقی و تمدنی اثر سے آزاد کرایا جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر نہ صرف عربوں بلکہ سارے عالم کو انسانوں کے خود ساختہ قانون کی غلامی سے نکال کر قانون الٰہی کی اطاعت و فرما برداری میں دیدیا جائے ‘‘۔ ( آج ملک عزیز پاکستان کو بھی اسی سوچ اور نظریہ کہ ضرورت ہے )

(1)……اختلاف :
پاکستان میں اختلافات کی مختلف صورتیں مروج ہیں مثلاً مذہبی ،سیاسی ،لسانی ،علاقائی پھر ہر اختلاف کی آگے کئی شاخیں ہیں اور یہ تمام اختلافات ملکی تعمیر کی بجائے تخریب کا ذریعہ بن رہا ہے جس سے بھاری جانی و مالی نقصان ہورہا ہے جب نبی کریم ؐ نے اعلان نبوت فرمایا تو یہ سب اختلافات اپنی ہلاکت خیزیوں کے ساتھ موجود تھے ان کا تدارک آپؐ نے یوں فرمایا ۔

’’لوگو !اﷲ کا ارشاد ہے کہ انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا کہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو تم میں زیادہ عزت و کرامت والا خدا کی نظر میں وہی ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عرب کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کوعربی پر ،نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے ‘‘۔

ایک جگہ فرمایا ’’دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘ ایک اور جگہ فرمایا ’’میں جاگیر داروں کے گھمنڈ مٹانے آیاہوں میرے دین میں چھوت چھات ،خاندانی اونچ نیچ کی کوئی حیثیت نہیں ‘‘۔پھر ایک جگہ فرمایا ’’ بہادر پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو بچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے پر قابو رکھے ‘‘۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ’’ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں (کتاب اﷲ و سنت رسول اﷲ ؐ) تاکہ تم کبھی گمراہ نہ ہو سکو اگر اس پر قائم رہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے لوگ انہی باتوں کے سبب ہلاک کردیئے گئے ‘‘۔ ان احکامات نے جب عملی شکل اختیار کی تو اختلافات زحمت سے رحمت بن گئے اور اختلافات کی بنیاد پر جان لینے والے اب جان دینے والے بن گئے ۔

(2)……تعلیم :
نبی کریم ؐ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو عرب میں ذہانت تو تھی مگر علم سے بے بہرہ معاشرہ تھا اور بعض علوم بعض لوگوں کے لئے خاص تھے ان سب بالا دستیوں کو ختم کردیا گیا چنانچہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ‘‘ دوسری جگہ ارشاد فرمایا ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین تک جانا پڑے ‘‘ نبی کریم ؐ نے علم کے پھیلاؤ میں عملی جدو جہد کرتے ہوئے صاحب علم جنگی قیدیوں کو 10,10مسلمانوں کو تعلیم دینا رہا ئی کے لئے شرط قرار دیا ۔دنیاوی علوم سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے کئی صحابہ کرام ؓ کو مختلف مواقع میں مختلف زبانیں اور فنون سیکھنے کا حکم دیا اسی طرح ایک منظم طریقہ کار سے ہر محلہ کی مسجد میں حفظ قرآن اور دیگر دینی علوم سکھانے کے لئے معلمین منتخب کئے جو بلا تفریق امیرو غریب ،طاقت و ر و کمزور سب کو یکساں تعلیم دیتے تھے اسی لئے اس دور میں تعلیم سے اجارہ داری اور طبقاتی تقسیم ختم ہو گئی ۔

(3)……انصاف:
حضرۃ علی ؓ کی طرف ایک مشہور قوم منسوب ہے کہ ’’معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم و ناانصافی پر نہیں ‘‘ ایک مرتبہ فاطمہ نامی ایک عورت نے چوری کی نبی کریم ؐ کے پاس اس کی سفارش کی گئی کہ اسے سزا نہ دی جائے کیونکہ یہ کسی بااثر شخص کی بیٹی ہے نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا اگر یہ چوری فاطمہ بنت محمد بھی کرے تو اسے بھی قانون الٰہی کے مطابق سزادی جائیگی ۔ اسلام نظام عدل و انصاف میں کسی کو بھی استثناء حاصل نہ تھا بلکہ سربراہ مملکت کو کئی مرتبہ عام آدمیوں کی طرح عدالت میں آنا پڑا اور عدالتی احکامات کی پابندی کرنا پڑی ۔

نبی کریم ؐ نے عورتوں کو انصاف دلایا ،غلاموں کو انصاف سے بہرہ ور کیا ۔ یتیموں ،بیواؤں ،بے کسوں ،بے سہارا اور مظلوم لوگوں کو انصاف دلایا ۔انسانی حقوق کے تحفظ کی سخت تاکید کی چنانچہ خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا ’’ قریش کے لوگو! خدا نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخرو مباہات کی کوئی گنجائش نہیں لوگو! تمہارے خون ،مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردی گئیں ہمیشہ کے لئے ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہے جیسی تمہارے اس دن کی اور اس ماہ مبارک ( ذی الحجہ) کی خاص کر اس شہر میں ہے تم سب خدا کے آگے جاؤ گے اور و ہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا ‘‘ انصاف کی بروقت اور صحیح فراہمی سے پوری مملکت اسلامی میں جرائم ختم ہوگئے بلکہ جرائم سے عوام کو شدید نفرت ہوگئی کیونکہ جرائم خدا اور اس کے رسول ؐ کو انتہائی ناپسند اور مملکت اسلامی کے امن کو خراب کرنے والے تھے ۔

(4)……کرپشن:
کرپشن کی کئی صو رتیں ہیں (۱) اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال (۲) رشوت خوری (۳) اقرباء پروری(۴) نااہل لوگوں کا تقرر ۔وغیرہ وغیرہ

اسلام کرپشن کی ان سب صورتوں کی سختی سے بیخ کنی کرتا ہے چنانچہ نبی کریم ؐ نے ان کے بارہ میں سخت احکامات صادر فرمائے اور ہر انسان کو ایک فریم ورک دیا جب اس کی ذمہ داری بڑہی تو اسے مزید احتیاطوں کا خوگر بنا یا جیسا کہ آپؐ نے مختلف علاقوں کے گورنروں کو احکامات دیئے پھر فرمایا رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔اقرباء پروری اور نااہل لوگوں کے تقرر کو باطل قرار دیتے ہوئے ان کے اسباب کی بیخ کنی کی اور ہر علاقے اور محکمہ کا سربراہ حتی الامکان انہی میں سے بنا گیا اور جس بندہ کو جس شعبہ میں مہارت حاصل تھی اسی شعبہ میں اس کی خدمات حاصل کی گئیں جس کی سینکڑوں مثالیں کتب سیرت میں رقم ہو چکی ہیں ۔ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی اور کرپشن سے نمٹنے کے لئے ایک تو صاف و شفاف احتساب سیل قائم کیا گیا اس کے علاوہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان جو تمام پردے حائل تھے ختم کردئے گئے ، ہر انسان اپنی شکایات کے لئے سربراہ مملکت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا تھا فوری انصاف کے لئے اگر ممکن ہوتا تو وہیں عدالت لگتی اور وہیں فیصلہ ہو جاتا ،سر کاری اہلکار عوامی مسائل ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کے ذمہ دار ہوتے اور نا اہل اہلکاروں کے خلاف شکایات کا فوری ازالہ کیا جاتا تھا۔

(5)……سود اور معاشی نظام:
موجودہ دور کی طرح اس وقت بھی جب نبی کریم ؐ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور پہلی اسلامی مملکت قائم کی تو مدینہ کی تمام معیشت یہودیوں کے کنٹرول میں تھی جب بھی کوئی ان کے اصولوں کے خلاف چلنے لگتا تو اس کے مال کی فروخت بند کردی جاتی یہ سب صورتحال نبی کریم ؐ کو پتا چلی تو آپ ؐ نے تدریجاً سود کا خاتمہ فرمایا تاکہ معیشت بھی مستحکم رہے اور سود سے بھی چھٹکارا مل جائے اس کے لئے سب سے پہلے اپنی منڈی متعارف کروائی اور مسلم بازار بنایا جس میں کوئی سودی لین دین یا ایکسٹرا ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا ،پھر مسلم بازار کی افادیت و اہمیت کا پرچار کیا اور انعامات خداوندی کا سزاوار ہونے کی ترغیب دلائی، پھر مسلم بازار میں اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کو اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے خلاف اعلانیہ جنگ سمجھا گیا پھر سود ہی کو اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے خلاف جنگ قرار دے دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ بازار میں جو لوگ کاروبار کریں وہ آزادانہ اور رضامندی کے ساتھ کریں کوئی بیرونی قوت ان کو خاص انداز پر چلنے میں مجبور نہ کرے ،مصنوعی طور پر قیمتوں میں کمی بیشی نہ ہو ،ذخیرہ اندوزی نہ ہو ،کسی کو اپنا مال منڈی میں لانے سے نہ روکا جائے وغیرہ وغیرہ ۔
کتابیات
۱۔۔۔ محاضرات سیرت از ڈاکٹر محمود احمد غازی
۲۔۔۔ سیرۃ النبی ؐ از سید سلیمان ندوی
۳۔۔۔رہبرو رہنما ؐ از علامہ فاروقی شہید ؒ
۴۔۔۔محسن انسانیت ؐ ازڈاکٹر حافظ محمد ثانی
۵۔۔۔اسوہ رسول اکرم ؐ از ڈاکٹر عبدالحئی ؒ

Sufiyan Ali Farooqi
About the Author: Sufiyan Ali Farooqi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.