لکی کمیٹیوں کا مکروہ دھندہ

تحریر۔۔۔ فیصل جاوید چوہدری
یوں تو پاکستان میں ایک خاص عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایسا مکروہ کھیل قوم کے سامنے ضرور آجاتا ہے جس میں لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی ڈوب جاتی ہے اور وہ باقی ماندہ زندگی‘زنجیر عدل ہلاتے ہلاتے بالآخر قبروں میں جا سوتے ہیں ایسے واقعات کے بعد عوام،میڈیا،سول سوسائٹی اور سیاستدان کچھ عرصے کے لیے آواز ضرور اٹھاتے ہیں تاہم کچھ عرصے کے لیے جی بھر کر دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد بالآخروہ بھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور ہماری زندگی معمول پر آجاتی ہے۔راتوں رات امیر بننے کے اسی جنون کے مظاہر ان دنوں ہم پورے پاکستان خاص طور پر جنوبی پنجاب اور ضلع خانیوال میں دیکھ رہے ہیں جہاں موٹر سائیکل اور کاروں کی لکی کمیٹیوں کے چرچے ہیں اور متاثرین در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں یہ دھندہ گزشتہ کئی سالوں سے پورے علاقے کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے طریقہ واردات یہ ہے کہ مفاد پرست عناصر‘ غریب آدمی کو موٹر سائیکل کی صورت میں ایک سو رو پے روزانہ اور کار کی صورت میں پانچ سو روپے روزانہ دینے اور ایک مقررہ مدت کے اندر قرعہ اندازی کے ذریعے موٹر سائیکل یا کار دینے کا جھانسہ دیتے ہیں اپنے اس مکروہ دھندے کو مزید پر کشش بنا نے کے لیے ضمیر کے یہ سوداگر ماہانہ پرچی میں عمرہ ٹکٹ تک بھی رکھ دیتے ہیں اگر کسی کا قرعہ فال نکل آئے تو اسے تین ہزار کی ایک ماہ کی قسط کے بعد موٹر سائیکل مل جاتا ہے جبکہ اسے بقیہ اقساط ادا نہیں کرنی پڑتیں کیونکہ لکی سکیم کی شرائط میں یہ شرط بھی شامل ہے جبکہ جن لوگوں کا قرعہ اندازی میں نام نہیں نکلتا ان کی تعداد درجنوں میں ہی نہیں‘ سو سے بھی زائد رہ جاتی ہے جوکہ لکی کمیٹی کی طرف سے مقررکی گئی معیاد 26سے 27ماہ بعد تک فی کس 81000روپے ادا کر چکنے کے باوجود بھی موٹر سائیکل حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ ابتداء کی چند قرعہ اندازیوں کے بعد لکی اسکیموں کے مالکان ہیرا پھیری سے کام لینا شروع کر دیتے ہیں اور معاملات کو موخر کرتے چلے جاتے ہیں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ بسا اوقات کمیٹیوں کے مالکان اپنے کارندوں کے ذریعے مختلف حیلے بہانوں سے کمیٹی کے ممبران سے ان کی بکیں یا کاپیاں بھی ہتھیا لیتے ہیں اور اس طرح ان کے ہاتھ میں کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں چھوڑتے جو مستقبل میں انصاف کے حصول میں ان کے کام آسکے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک لکی کمیٹی میں 150سے 200ممبران شامل ہو تے ہیں جن سے وصول کیا گیا کل سرمایہ ڈیڑھ تا دو کروڑ رو پے بنتا ہے جو لکی کمیٹی کے مالکان کی صوابدید پر ہوتا ہے اور عام طور پر خرد برد کر لیا جاتا ہے جس کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے معاشرے کے یہ محروم طبقات عام طور پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کمیٹیوں کے مالکان مزید شیر بن جاتے ہیں اور بعض اوقات قانون کا گھیرا تنگ پا کر دبئی بھی فرار ہو جاتے ہیں اور جب لوگوں کی یاداشت کمزور پڑتی ہے تو پھر دھڑلے سے واپس آکر پارسائی کا روپ دھارتے ہوئے ایک نیا کاروبار شروع کر دیتے ہیں بد قسمتی سے ملک میں کوئی ایسا قانون بھی نہیں ہے جس کے ذریعے کمیٹیوں کے ان مالکان کے خلاف سخت تادیبی کاروائی عمل میں لائی جاسکے لے دیکر تعزیرات پاکستان کی دفعات 420،406اور 294Aکے تحت ایف آئی آر درج کروائی جا سکتی ہے تا ہم متاثرین میں سے بیشتر کو اپنے ان قانونی حقوق کا عام طور پرکامل ادراک نہیں ہو تا اوراگر وہ کوشش بھی کریں تو راستے میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں کہ غریب آدمی جلد ہی تھک ہار کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔میری ذاتی معلومات کے مطابق ضلع خانیوال میں بہت سارے لوگوں نے راتوں رات امیر بننے کی خاطر ان پڑھ اور غریب دیہاڑی دار لوگوں کو پھنسا کر ان کمیٹیوں کادھندہ شروع کر رکھا ہے جن میں سے کئی ایک لکی کمیٹی مالکان کروڑوں رو پے لوٹ کر منظر عام سے غیب ہو چکے ہیں اور بعض ایسے لکی کمیٹی مالکان بھی ہیں جو کمیٹی شروع کرنے سے قبل تنگ دستی کی زندگی گزارتے تھے اور آج وہ کاروں موٹروں کے مالکان بننے کے علاوہ بہاولپور،ملتان و دیگر علاقوں کے پوش مقامات پر اپنی پراپرٹی بنا چکے ہیں جس سے معاشرے کے باقی لوگوں کو بھی اس مکروہ کھیل میں ملوث ہونے کی تحریک ملتی ہے فلاحی ریاست کا عنوان رکھنے والے پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اب جبکہ ملک میں تبدیلی کانعرہ لیکر پاکستان تحریک انصاف حکومت سنبھال چکی ہے تو اس سے بجاطور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک بھر میں موٹر سائیکل اور کار لکی سکیموں کے نام پر پھیلے اس مکروہ دھندے کے خاتمے کے لیے نئے تقاضوں کے مطابق ایسے قوانین روشناس کرائے جس سے ایک طرف تو لوگوں کو اپنا سرمایہ محفوظ شعبوں میں استعمال کر نے کی رغبت دی جاسکے جبکہ دوسری طرف لکی کمیٹیوں کے نام پر جاری لوٹ مارکے مکروہ دھندے پر قد غن لگائی جاسکے جس کے باعث جنوبی پنجاب کے سینکڑوں نہیں‘ بلکہ ہزاروں گھرانوں کی خوشیاں چھن چکی ہیں اس سلسلے میں ضلع خانیوال کی ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پولیس آفیسر بطور خاص ایک متحرک،فیصلہ کن،منصفانہ اور جاندار کر دار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ اس ضلع میں جرائم کے یہ سلسلے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کی بجائے دراز ہوتے چلے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں موجودلکی کمیٹی متاثرین کے لیے اب سانس لینا بھی محال ہو رہا ہے

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 472355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.