لا علمی

تحریر کنیز بتول کھوکھر، سرگودھا
خالق کائنات نے کچھ چیزیں انسانی فطرت میں شامل کر کے اسے ا س دنیا میں بھیجااچھی فطرت پر قا ئم رہنا اور بری سے گریز کے اصول کو مقصد حیات میں شامل کر کے اس کی پابندی لازمی قرار دے دی اگر صرف اچھائی ہی خمیر میں شامل ہوتی تو پھر یہ جہاں امتحان کی جگہ نہ رہتی اصل آزمائش یہی ہے کہ صراط مستقیم پر چلنا ہے مشکل لگے تو بھی آسان لگے تو بھی اپنے مالک کو ہر حال میں منا ناہے اگر برائی طبیعت میں شامل نہ ہوتی تو یہ کام بہت آسان ہوتا جتنی بڑی مشکل سامنے آئے گی اتنی ہی برداشت بڑے گی اﷲ کی خوش نودی کی خاطر برداشت ہی راہے نجات کی طرف لے جائے گی اس حقیقت کے عیاں ہونے پر بندہ ہر اس عمل سے گریز کرے گا جس کے کرنے سے روز حشر اس کو اپنے مالک کے سامنے شرمسار ہونا پڑے خواہش نفسی سے بے نیاز ہو کر اپنا ایک ایک پل قیمتی سمجھ کر حالا ت کی لہروں سے لڑتا ہوا فرائض کی ادائیگی میں مشغول رہ کر بھی ہر لمحہ موت کو اپنے سر پریوں سوار دیکھتا ہے کہ اگلی سانس پر واقع ہونے والی ہے آرزوں کی زنجیروں میں جکڑے انسان کو جب موت کا یقین ہو جائے تو پھر فطرت تقاضہ ہدایت کر تی ہے اس طرح وہ تمام تر برائیوں کا قلع قمع کرتا ہواطالب حق بن جاتا ہے جس کے بعد اس کے سامنے سے تمام حجاب اٹھا دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر منزل کو پہنچے جو مالک کونین نے اپنے محبوب سر وردو جہاں محمدمصطفیٰﷺکے زریعے ہمیں بتائی ۔جب کوئی حکم الہٰی اور اطبع رسول ﷺ کا ارادہ کر تا ہے تو اسے غلط اور صحیح میں امتیاز نظر آتا ہے ورنہ توہر مذہبی کام کرنے والا اس کو نیکی ہی سمجھتا ہے چاہے وہ بغیر سیکھے کرنے کی کوشش میں الٹا کر بیٹھے اس کی عقل پر پردہ پڑا رہتا ہے جس کی مثالیں ہمارے معاشرے میں عام ملتی ہیں جیسا کہ ہم نے مذہب اور رسم کے درمیان فرق کو ختم کر دیا مذہبی عقائد کو فر سودہ رسومات بنا کر اپنی مرضی کے مطابق تراش خراش کر کے کچھ نوافل کو فرائض سے آگے کر دیااس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پھر آہستہ آہستہ فرض کی جگہ نفل لے لیتے ہیں جب ان کو سمجھانے کی کو شش کی جائے تو مغز پھرے پوچھتے ہیں کہ کیا ہم جو کر رہے ہیں وہ گناہ ہے بس اتنا بتا دو اب وہ گناہ تو نہیں ہوتا لیکن اس سے فرض کی ادائیگی میں فرق آتا ہے مثلاایک انسان کو اپنی نیند کا علم ہے کہ وہ چار یا چھ گھنٹے سے کم میں پوری نہیں ہو سکتی اور وہ رات دیر تک نفلی عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے دیر سے سوتا ہے جس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ نماز فجر رہ جاتی ہے۔ ایسے موسمی مسلمانوں کو جب یہ کہا جائے کہ آپ کو جلدی سونا چاہے تھاتاکہ نماز میں کوتاہی نہ ہوتی تو اپنی لا علمی کی وجہ سے کہتے ہیں اتنی بابرکت رات تھی زندگی میں دوبارہ آنی بھی ہے یا نہیں ساری رات تو نوافل اداکیے ہیں اگر نماز رہ بھی گئی تو کیا اﷲ تعالیٰ کو علم نہیں کہ کیوں رہ گئی ، اس نے تو نماز فرض کی ہے جس کے لئے ہم جواب دہ ہونگے وہ ہر حال میں پوچھی جائے گی نوافل ادا کریں یا نہ کریں فرض کا حساب تولازمی دینا پڑے گا اسی طرح ایک بہن کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز عصر پڑھنے کا اتفاق ہوا تو محترمہ نے سنت کھڑے ہوکر اداکیں اور فرض بیٹھ کر ادا کیے میرے پوچھنے پر بتایا کہ جوڑں کی تکلیف کی وجہ سے پوری نمازکھڑے ہوکر آدا نہیں کر سکتیں اس کو جب کہا کہ آپ سنت بیٹھ کر پڑھ لیا کریں اورفرض کھڑے ہوکر تو اس کی سمجھ میں اس کی وجہ نہیں آسکی توکہا آپ کسی اور فرقہ کی ہوں گی فرض بھی اسی کے لیے پڑھنے اور سنت بھی یہ حال ہے ہمارے نمازیوں کا جن کو سنت اور فرض کے درمیاں فرق کا علم نہیں اس کا حساب کون دے گاکیا علماء اکرام سے نہیں پوچھا جائے گا کہ میں نے تم کو علم دیا تاکہ اسلام کی حفاظت کر سکواور تم جان جوکھوں میں ڈال کر جمہوریت بچانے میں لگے رہے اس کی زیادہ فکر تھی یہ تو ایک مثال تھی ورنہ ہمارا معاشرہ اسی طرح کے خود ساختہ مذہبی عقائد کی گرفت میں آچکا ہے جس سے آزادی حاصل کیے بغیر ہم تعلیمی بہران سے تو نکل سکتے ہیں مگر جہالت کو ختم نہیں کر سکتے۔اﷲ تعالیٰ نے کچھ کاموں کے لیے حد یں مقرر کر دی ہیں لیکن ہم ان میں بھی ثواب کی غرض سے اضافہ کر لیتے ہیں اور کچھ نہیں ہو سکا تو عیدوں میں کی تعداد بڑادی،آپ ﷺ ہر پیر کا روزہ رکھتے اپنی ولادت کی خوشی میں لیکن ہم نے ربیع الاول کو رسم بنا لیا ہے چھوٹے چھوٹے بچے چندہ مانگنے آجاتے ہیں کہ گلی کو سجانا ہے یہ د ن گلی کو نہیں اپنے من کو سجانے کا ہونا چائے کہ ہم اپنے آپ کو ایسا بنا ئیں گے جیسا ہمارے رب کا حکم اور ہمارے نبی ﷺکی تعلیم بتاتی ہے ان بچوں سے جب پوچھا کہ وضو کا طریقہ آتا ہے تو کہتے ہیں نہیں کیا یہ ہیں عاشق رسولﷺ ایک دن میلاد منا کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں اس حستی کے لیے جس پر اﷲ اور اﷲ کے فرشتے سلامتی بھیجتے ہیں دوسرے دن یہی نعلین مبارک اور جھنڈیا ں زمین بوس ہو جاتی ہیں اس بے ادبی کا اذالہ کون کرے گاکیا یہ گناہ ہے یا ثواب ہے کم از کم اتنی تعلیم تو دی جانی چاہے کہ اس نام کی کتنی عزت ہے اگر اس کا علم ہوتا تونعت شریف پڑھنے والوں پر جب پیسوں کی بارش کی جاتی ہے تو نوٹوں پر گورنر کا نا م بھی ہوتا ہے ان میں کسی کا محمد بھی ہو سکتا احمد بھی مصطفی یہ سب نام کس کے ہیں؟کیا اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کبھی کسی نعت خواں نے منا کیوں نہیں کیا کیوں کہ وہ خود اس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں شہرت کا نشہ اتنا چڑا ہوتا ہے کہ ان باتوں کی طرف کبھی دھیان ہی نہیں گیالوگوں کو اس طرح شعلہ بیانیوں سے ذہنی یر غمال بنا رکھا ہوتا ہے کہ منفی پہلو پر کبھی نظر ہی نہیں گئی۔صحابہ اکرام سے بڑا بھی کوئی عاشق رسول ﷺ ہو سکتا ہے؟حضرت علی ؓنے ایک بار فرمایا میں ہر وقت عبادت کی حالت میں ہوتا ہوں تو باقی اصحابہ ؓنے پوچھا کہ آپ دنیا کے کام بھی تو کرتے ہیں تو اس وقت کیسے عبادت میں ہوتے ہیں تو آپؓ نے فرمایا کہ میں ہر کام سنت نبوی ؑکے مطابق کرتا ہوں سنت رسول ؑپر عمل بھی تو عبادت ہے یہ ہیں عاشقان رسولؑ کی زندگیوں کے واقعات اب ہر بندہ اپنے اپ کو عاشق سمجھتا ہے ان میں سے دودھ پینے والے مجنو ں زیادہ ہیں جہاں قربان ہودل وہاں قیمت سر کیا کچھ سر کٹانے والے بھی لیکن سنت کے مطابق زندگی گزارنا ان کو بھی مشکل کام لگتا ہے یہ کیا عشق ہے؟ قر آن مجید فر قان حمید میں بھی اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ایسی طرح ارشاد فرمایا۔
ترجمہ:اور جو کوئی کہا مانے رسول ؑکاپس تحقیق کہا مانا اﷲ کا اور جو کوئی پھر جاوے پس نہیں بھیجا ہم نے تجھ کو اوپر ان کے نگہبان ۔سورۃ،النساء آیت (۸۰)

جو رسول ؑ کی اطاعت کرتا ہے وہ حقیقت میں اﷲ کی اطاعت کرتا ہے کیونکہ رسول ؑتو صرف حکم پہنچانے والے ہیں حکم دینے والا تو اﷲ ہی ہے اگر کوئی نبی کی اطاعت نہیں کرتا تو اس کے لیے وہ خود ہی جواب دہ ہوگا حساب فہمی اﷲ کا کام ہے اس کے لیے نبی کو نگران نہیں بنایا گیا ،ہمارے ہاں ایک غلط نظریہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہر کلمہ گو کو ہمارے نبی ؑ بچالیں گے ، جس کو یہ بھی علم نہیں کہ کلمہ کا مطلب کیا ہے اگر کوئی جانتا ہے تو وہ شرک نہیں کرے گا اور کلمہ کے دوسرے حصہ کے مطابق آپؑ کو اﷲ کا نبی مان کر اطاعت کرے گا ہاں ایسے کلمہ گو کی ضرور شفاعت کریں گے لیکن جن کو پتہ ہی نہیں کہ شرک کیا ہے اور اطاعت نبی کیا ہے زندگی میں کوئی اچھا کام کبھی کیا ہی نہیں وہ بھی اسی امید پر ہیں قرآن کے مطابق تو وہ خسارے میں ہیں میرے خیال کے مطابق تو خود کو مفا کر کے اﷲ کو پایا جاتا ہے ۔و اﷲ اعلم۔
 

M.H BABAR
About the Author: M.H BABAR Read More Articles by M.H BABAR: 83 Articles with 64759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.