مؤثر تدریس کیسے کی جائے؟

ایک ایسا طریقہ تدریس جو بچوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دے جو طلباٗ کو علم منتقل کر دے،انہیں مہارتیں سکھا دے اور ان کے کردار اور رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کر دے۔بلا شبہ ایسا طریقہ تدریس بہترین ہوتا ہے۔جس سے مؤثرتدریس ممکن ہوتی ہے۔ایسے معلم کو بہترین معلم کہتے ہیں۔مؤثر تدریس کا یہ اصول ہے کہ سبقی خاکہ موجود ہو،پہلے سے سبقی منصوبہ بندی کی گئی ہو،یاد رکھیں کوئی بھی کام بغیر منصوبہ بندی کے احسن طور پر پایہء تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔اگر سبقی خاکہ موجود نہ ہو تو کم از کم اس کے اقدامات کو تو ٖفالو کرنا چاہیے۔تعارف،پختگی،خلاصہ،جائزے کے سولات اور گھر کا کام جیسے اقدامات کی پیروی کرنی چاہیے۔تعارف کے مرحلے پر سابقہ واقفیت کو نئے موضوع سے ملانے کے لئے ایسے سوالات کرنا چاہیے جن کی مدد سے پہلے سے حاصل کی گئی معلومات کو نئی معلومات سے مربوط کیا جاسکے۔ان سولات کی تعداد چار سے چھ تک ہونی چاہیے اور چار سے پانچ منٹ تک وقت لینا چاہیے۔یاد رکھیں پہلے سے بچوں کو بتانا نہیں چاہیے بلکہ سوالات کے زریعے آگے بڑھنا چایہے تاکہ بچہ سوچنے پر مجبور ہو جائے اور ساتھ ساتھ ان کی برین سٹورمنگ بھی ہوتی رہے۔پختگی کے مرحلے میں تصورات کی وضاھت کے لیے تختہ تحریر کا بھر پور استعمال کرنا چاہیے اور ساتھ ساتھ تصورات کی وضاحت کے لیے روزمرہ سے مثالیں بھی دینا چاہیے۔وضاحت کے لیے مادری زبان کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے تا ہم زیادہ تر زبان وہی استعمال کریں جو درسی کتاب کی زبان ہو۔انگریزی کو انگریزی میں،اردو کو اردو میں اور پشتو کو پشتو میں ہی پڑھانا چاہیے۔اس سے شاگرد نہ صرف زبانیں بھی سیکھ لیتے ہیں بلکہ علم کی بھی تفہیم ہوتی رہتی ہے۔ہر بچہ آسانی کے ساتھ چار پانچ زبانیں سیکھ سکتا ہے۔ایک کامیاب معلم یا لیڈر کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسے انگلش کے ساتھ ساتھ اردو اور مقامی زبانوں پر عبور حاصل ہو۔واضح رہے کہ اس دوران طلباء کی نشت و برخاست پربھی نظر رکھنی چاہیے تا کہ فعال تعلم پر اثرانداز نہ ہو۔اس دوران بچوں سے سبق اخذ کیا جائے جس کے لیے ایسے سوالات ہوں جو طلباء کو سوچ بچار پر مجبور کر دیں۔سوالات اجتماعی ہوں اور جوابات انفرادی ہوں۔سولات ہاں اور نہیں پر مبنی نہ ہوں بلکہ کیوں اور کیسے پر مبنی ہوں۔طلباء کو بھی سوالات کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔اگر بچوں کی طرف سے سوال آ جائے تو پہلی فرصت میں خود جواب نہ دیں بلکہ یہ سوال کلاس کو پاس کر دیا جائے اور اگر بچے اس سوال کا جواب نہ دے سکیں تو پھر استاد کو جواب دینا چاہیے۔اس دوران حوصلہ افزائی بھی ضروری عمل ہے۔ضروری وضاحت کے بعدپھر شاگردوں کو گروپوں میں یا جوڑوں میں بٹھا دینا چاہیے اور دیئے گئے سبق کے مطابق بچوں کو سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے۔اس دوران بچوں کو انفرادی توجہ بھی دی جائے اور کمرہء جماعت کے ماحول کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔طلباء کے آپس کے تعلقات،معلم کے ساتھ تعلق خوشگوار ہوں۔مار پیٹ کی بجائے لب ولہجہ میں نرمی اور فرینڈلی ماحول رکھا جائے اسی طریقے سے کلاس روم کا تعلق بھی خوشگوار رہ سکتا ہے جس سے تعلم بھی بہترین ہو گا۔استاد کم بولے گا اور بچوں کو زیادہ وقت بولنے کے لئے دے گا۔پرانے طریقۂ تدریس میں معلم زیادہ سے زیادہ فعال ہوتا تھا اور شاگرد خاموشی سے سبق سنتے تھے اور کامیاب استاد اسے کہا جاتا تھا جو کلاس کو خاموش رکھے اور بچوں کو رعب میں رکھے لیکن دور جدید میں کامیاب معلم وہ ہے جو بچوں کو علم منتقل کرے،ان کو فعال رکھے اور سرگرمیوں میں مصروف رکھے۔ان میں مہارتیں پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔گروپوں میں حوالہ کیا گیا ٹاسک کو چیک کرے پھر کلاس روم میں بچوں کے کام کی نمائش کرے۔بچوں کے کام کی حوصلہ افزائی کرے۔ استاد کلاس روم میں کرسی پر نہ بیٹھے بلکہ کمرہء جماعت میں بچوں کی رہنمائی کرتا نظر آئے۔ اگر بچے کلاس روم میں بور ہو گئے ہیں تو ان کی بوریت ختم کرنے کے لیے انہیں کلاس سے باہر بھی لے جا کر کوئی انرجائزر کی سرگرمی بھی کرائی جا سکتی ہے۔کوئی لطیفہ وغیرہ سے بچوں کو ریفریش کیا جا سکتا ہے۔پختگی کے مرحلے پر ۲۵ منٹ لگائے جا سکتے ہیں۔پھر سبق کاخلاصہ بیان کرنے کے لیے ۵ منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔بہتر ہو گا کہ سبق کا خلاصہ بچے بیان کریں اس دوران معلم ان کی مدد کرے اگر وہ نہ بیان کر سکیں تو پھر استاد خود سبق کا خلاصہ بیان کرے۔چوتھے مرحلے میں معلم بچوں سے جائزے کے سوالات پوچھے گا۔اس سے اگر ایک طرف بچوں کی کارکردگی چیک کرنا ہے کہ انہوں نے موضوع کو کتنا سیکھ لیا ہے؟کتنا علم حاصل کر لیا ہے؟ تدریس کی خوبیاں کیا تھیں اور خامیاں کیا تھیں؟اور دوسری طرف استاد محترم اپنی خامیوں کا بھی جائزہ لے رہا ہے کہ اس کی تدریس کتنی کامیاب رہی اور کون سے ایریاز میں بہتری کی گنجائش ہے۔جائزے کے سوالات کلاس کے مختلف کونوں میں بیٹھے ہوئے طلباء سے پوچھے جا سکتے ہیں۔کامیاب تدریس کے بعد طلباء کو ہوم ورک دیا جائے۔اس سے بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔اور پھر دوسرے دن ہوم ورک کو ضرور چیک کیا جائے۔ہوم ورک بچوں کی زہنی استعداد کے مطابق ہونا چاہیے۔کم ہو نہ ذیادہ بلکہ ان کی دلچسپی بھی برقرار رہے اور وہ ہر دم آگے بڑھتے رہیں۔جدید طریقہء تدریس ایسا ہونا چاہیے کہ بچوں میں سیکھنے کا جذبہ بھی برقرار رہے،دلچسپی بھی برقرار رہے۔ایک کامیاب معلم وہ ہے جو بچوں کو انکے ناموں سے پکارتا ہے۔ان کے ساتھ کلاس روم میں دوستانہ ماحول رکھتا ہے۔ہر مرحلے پر سبق کی دلچسپی کو برقرار رکھتا ہے۔ایک ایسی تدریس جو طلباء کو سبق پڑھنے پر آمادہ رکھے،ان میں جستجو کا مادہ پیدا کرے،ان میں تحقیق کا مادہ پیدا کرے،بچوں کی قوت فیصلہ بڑھائے ،ان میں پرابلم سالونگ کی خصوصیت پیدا کرے تو ایسی تدریس کو بہترین تدریس کہا جا سکتا ہے۔تدریس کے علاوہ بچوں کی نوٹ بکس کی بھی اصلاح کرے۔ان پر ریمارکس دے۔ٹک مارک کرے۔دستخط کے ساتھ مورخہ بھی درج ہونی چاہیے۔

Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Muhammad Saleem Afaqi: 21 Articles with 37524 views PhD Scholar in Education
MA International Relations
MA Political Science
MA Islamiyat
.. View More