بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

سوال(1): میں ایک باپردہ خاتون ہوں ، شوہر پچھلے تین سالوں سے کفالت نہیں کر رہے نہ میرے والدین ان پہ زور ڈال سکتے اور نہ ہی میرے سسرال والے کوئی نوٹس لیتے ہیں،یہ میرا دوسرا نکاح ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالات سے مجبور ہو کر مجھے جاب کرنی ہے اور اپنیبھائی کا ہاتھ بھی بٹانا ہے جس کے لئے مجھے چہرے کا پردہ نہیں کرنا ہوگا کیونکہ باقی جاب بہت کم معاوضہ والاہے اور اس سے گھر والوں کی میں کفالت نہیں کر پاؤں گی۔ دعا کے ساتھ میری رہنمائی کر دیں۔
جواب: اولا :عورت گھر کی زینت ہے ، اپنے بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت اور گھر کی ذمہ داریاں اس کے سرہیں ، اس وجہ سے اسلام نے عورت کو معاشی تگ ودو سے نجات دیدی ہے ۔ اگر عورت گھر چھوڑ دے اور باہر کی ذمہ داری ادا کرنے لگ جائے تو گھرویران بلکہ بسااوقات برباد ہوجاتاہے مگر جو صورت حالات آپ نے ذکر کی ایسی صورت میں آپ کسی ادارہ یا بااثرلوگوں کے ذریعہ شوہر پر اخراجات کا دباؤ ڈالیں ،اگر پھربھی وہ نفقہ برداشت کرنے پر راضی نہ ہو تو طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہیں یا خلع لے سکتی ہیں۔ پھر عدت کے بعد کسی تیسرے صالح مرد سے نکاح کرکے اﷲ کے فضل سے اپنی زندگی خوشگوار بناسکتی ہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی نوکری کی ضرورت پڑے تو جان لیں اسلام نے عورتوں کو نوکری کرنے سے منع نہیں کیا ہے ، ایک عورت شرعی حدود میں رہ کر اس کے لئے جو وظیفہ جائز ہے انجام دے سکتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنے اور اہل خانہ کی پرورش کرسکتی ہے مثلا سلائی ، کڑھائی ، صفائی ، امور خانہ داری ، کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں مزدوری وغیر ہ ۔ نوکری کے لئے شرعی حدود یعنی حجاب کی پابندی، اختلاط سے اجتناب، عفت وعصمت کی حفاظت ، محرم کے ساتھ سفر اور خلوت سے دوری ضروری ہے۔اسلام میں ایسے کسی جاب کی اجازت نہیں ہے جس سے پردہ ہٹانا پڑے ، اگر حجاب کے ساتھ تھوڑا ہی معاوضہ ملے وہی اختیار کریں اور صبروقناعت سے زندگی گزاریں ساتھ ہی اﷲ سے مزید بہتری اور مال میں برکت کی بکثرت دعا کریں،وہی مشکل دور کرنے والا اور سارے جہان کو پالنے والا ہے۔
سوال(2): سورہ کہف پڑھنے سے سکینت نازل ہوتی ہے اس کا کیا معنی ہے ؟ کیا اس کے پڑھنے سے گھریلو مسائل حل ہوجاتے ہیں یا گھر میں سکون آتاہے ؟
جواب : سکینت کا نزول سورہ کہف کی قرات کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ مکمل قرآن کے لئے عام ہے گوکہ پس منظر میں ایک صحابی رسول کا سورہ کہف پڑھنے کا ذکر ہے تاہم فرمان رسول بخاری میں ان الفاط میں ہے:اقرَأْ فُلانُ، فإنہا السکینۃُ نزلَتْ للقرآنِ، أو تنزَّلَتْ للقرآنِ(صحیح البخاری:3614)
ترجمہ:قرآن پڑھتا ہی رہ کیونکہ یہ سکینۃ ہے جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی یا (اس کے بجائے راوی نے) تنزلت للقرآن کے الفاظ کہے۔
اور صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔فإنہا السکینۃُ تنزلت عند القرآنِ . أو تنزلت للقرآنِ( صحیح مسلم:794)
ترجمہ:یہ سکینت (اطمینان اوررحمت)تھی جو قرآن (کی قراء ت) کی بنا پر (بدلی کی صورت میں) اتری۔
اﷲ کی رحمتوں کی کوئی انتہا نہیں ، قرآن کی قرات سے ایسا بھی ممکن ہے کہ گھر کے فتنے، تنازع، اور مسائل ختم ہوجائیں یا بے چین دل کو اس سے ٹھنڈک وسکون پہنچے ،رحمت کے فرشتوں کا نزول ہو تاہم قرات کے ساتھ قرآن کے دیگر حقوق بھی اداکئے جائیں مثلا اس کے معانی پہ غوروخوض، آیات سے عبرت ونصیحت ، دعوت وعمل کا جذبہ وغیرہ ۔
سوال(3): ہم اپنے یہاں دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں اور مشارکین میں اکثر لوگ میلاد منانے والے ہیں۔ پہلے لوگ قرآن کلاس اور دیگر دروس میں آتے تھے پر جب سے انکو پتہ لگا ہم میلاد نہیں مناتے تو قرآن کلاس میں نہیں آرہے ہیں۔ ایسے میں کیا کریں ؟کھلے عام ہم میلاد کا انکار کرتے رہیں یا حکمت کے تحت پہلے لوگوں کو قرآن سے جوڑیں اور پھر آہستہ آہستہ انہیں ان بدعات کے بارے میں بتائیں ، سمجھ نہیں آرہا پلیز جلد رہنمائی کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب : دعوت میں حکمت وبصیرت اپنانا چاہئے مگر دعوت کے لئے خود کو میلادی منوانایا ظاہرکرنابدعت اور اہل بدعت کا تعاون ہے ۔ بلاشبہ دعوت کا کام حکمت کے ساتھ کریں یہ بڑے اجر کا کام ہے مگر خود کو بدعتی کا معاون نہ ظاہر کریں کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں منکر ات پہ خاموشی اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اولا ہاتھ سے مٹانے ، ثانیا زبان سے نصیحت کرنے اور ثالثا دل میں اسے برا جاننے کا حکم دیا ہے۔ بھلے آپ کے درس میں لوگوں کی قلت ہو مگر حق کی تعلیم دیں ، میلادیوں سے غصے میں نہیں ، حکمت سے بات کریں تاہم میلاد منانے والے بھی ٹھیک اور نہ منانے والے بھی ٹھیک ایسی پالیسی نہ اپنائیں ۔ یاد رکھیں حق کی پیروی کرنے والے اور حق قبول کرنے والے ہردور میں کم رہے ہیں ۔ دعوت کا مقصد بھیڑ جمع کرنا نہیں حق بات پہنچانا ہو خواہ اس کے قبول کرنے والے تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں ۔
سوال(4): اگر میاں بیوی بوس و کنار کر رہے ہوں اوراذان ہونے لگے تو اذان کے احترام کے لئے یہ عمل چھوڑ دینا چائیے یا نہیں ؟ اور اگر نہیں چھوڑنا چائیے تو کیااذان کا جواب دینا ضروری ہے؟ نیز اگر حالت جماع ہو اور اس دوران جماعت کھڑی ہو جائے تو کیا اس عمل کو روک دینا چائیے یا کھانے پر قیاس کیا جا سکتا ہے جس طرح ایک حدیث ہے کہ اگر کھانا سامنے رکھا ہو تو پہلے کھانا کھائیں مہربانی ہوگی رہنمائی فرمائیں۔
جواب : اذان کا مقصدلوگوں کو نماز کی طرف بلانا ہوتا ہے ۔ جب مسجد میں اذان ہونے لگے تو سارے کام کاج چھوڑ کر نماز کے لئے تیار ہونا چاہئے اور اول وقت پہ نماز ادا کرنا چاہئے کیونکہ نبی ? کا فرمان ہے: أفضلُ الأعمالِ الصَّلاۃُ فی أوَّلِ وقتِہا(صحیح الجامع:1093)
ترجمہ:بہترین عمل نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا ہے۔
اور جب جماع کی حالت میں اذان ہونے لگے یا اقامت کی آواز سنائی دے تو اس عمل کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاہم اس سے جلد فراغت حاصل کرکے اور غسل کرکے نمازادا کریں۔یاد رہے اذان سننے کے بعد بھی قصدا بستر پر لیٹے رہنا حتی کہ اقامت ہونے لگے تب جماع کرنا ہماری کوتاہی اور نماز سے غفلت ہے۔جہاں تک اذان کے جواب کا مسئلہ ہے تو یہ سب پر واجب نہیں بلکہ فرض کفایہ اوربڑے اجر وثواب کا حامل ہے اس لئے میاں بیوی سے بات چیت یابوس وکنار کے دوران جواب دینا چاہیں تو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جماع کے وقت اذان کا جواب دینے سے علماء نے منع کیا ہے ،جب اس عمل سے فارغ ہوجائیں تو بقیہ کلمات کا جواب دے سکتے ہیں ۔
سوال(5): کیا گھر میں طوطا اور پرندہ رکھنا جائز ہے ؟
جواب : ہاں گھر میں طوطا یا خوبصورت وخوشالحان پرندہ رکھنا ، اسے پالنا اور پنجڑے میں بند کرنا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی دیکھ ریکھ کی جائے اور اس کی خوراک کا انتظام کیا جائے ۔ نبی ﷺ کے زمانے میں ابوعمیر نامی بچہ ایک چڑیا سے کھیلا کرتا ،آپ نے اسے آزاد کردینے یا نہ کھیلنے کا حکم نہیں دیا ۔
سوال(6):غیر مسلم ہندو اور کفار کے ہوٹل میں کھانا کیسا ہے وہ لوگ نجس ہوتے ہیں اور انکی کمائی حرام کی ہوتی ہے؟
جواب : یقینا کافر نجس ہوتے ہیں مگر اس کے ہاتھ کا پکایا ہوا حلال کھانا نجس کے حکم میں نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو رسول اﷲ ﷺیہوی کا پیش کیا کھانا کبھی نہیں کھاتے ۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا جو ہمارے لئے شرعا حلال ہو اس کے ہوٹل میں کھاسکتے ہیں تاہم جس جگہ شراب وکباب عام ہوایسی جگہ کھانے سے پرہیز کریں خصوصا جب خنزیروغیرہ پکایا جاتا ہوکیونکہ بنائے اور کھائے گئے ایسے برتن میں آپ بھی کھائیں گے نیز یہ علم رہے کہ کفار کے ہوٹل سے اجتناب کرسکیں تو بہتر ہی ہے اور ضرورت پڑجائے تو حرج نہیں اور کفار کی ہر کمائی حرام نہیں ہے مثلا ہوٹل کی کمائی حرام نہیں ہے الا یہ کہ اس میں بھی حرام کاری کرتا ہو۔ یہاں ہوٹل میں ہمیں اس کی حرام کمائی سے سروکار نہیں ہے حلال فوڈ سے مطلب ہے۔
سوال(7): کیا دوران وضو باتیں کرنا منع ہے بہت ساری مساجد میں وضو والی جگہ لکھا ہوتا ہے کہ دوران وضو باتیں نہ کریں کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب : میں نے آج تک کہیں کسی مسجد کے وضوخانہ میں ایسا لکھا نہیں دیکھا البتہ وضو میں اسراف نہ کریں اس قسم کا جملہ عموما لکھا ہوتا ہے ۔ ممکن ہے عورتوں والے وضوخانوں میں ایسا کہیں لکھا ہوتا ہو کیونکہ عورتیں باتیں زیادہ کرتی ہیں اور بات کرتے کرتے وضو بنانے میں پانی زیادہ خرچ ہوگا ۔ بہرکیف! وضو کے دوران بات کرنا شریعت کی طرف سے منع نہیں ہے ۔
سوال(8): آج کل مساجد میں مریضوں کے لئے نماز کی ادائیگی کی خاطر کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اوراس کے آگے تختی لگی ہوتی ہے، نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو وہ اس تختی پرسجدہ کر لیتا ہے,اس عمل کی شرعی حثیت کیا ہے؟
جواب: شیخ صالح فوزان نے ایسی کرسی پر سجدہ کرنا ناجائز کہا ہے جس میں سجدہ کے لئے آگے تختی لگی ہو۔ ان کا استدلال ہے کہ نبی ﷺنے ایک مریض کو تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اسے پھینک دیا ۔ اس لئے کرسی پر نماز پڑھنے والے مریض کو چاہئے کہ اگر زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو زمین پر سجدہ کرے ورنہ کرسی پر ہی رکوع کے مقابلے میں ذرا زیادہ جھک کر سجدہ کرے ۔
سوال(9):نماز کے دوران اگرکسی کاوضو ٹوٹ جائے تو کیا اس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟
جواب : اگر نماز کے دوران کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے نماز توڑ کر پھر سے وضو بنانا ضروری ہے اور ازسرے نو نماز شروع کرناہے ۔
سوال(10):اگر لفظ بلفظ سیکھنے کا معاملہ ہو تو کیا حائضہ عورت اپنے ہاتھوں میں قرآن لے سکتی ہے ؟
جواب : صحیح قول کی روشنی میں حیض والی عورت بغیر چھوئے قرآن مجید کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے البتہ جہاں تک چھونے کا مسئلہ ہے تو ہاتھوں میں دستانے لگاکر مصحف پکڑے یعنی سیکھنے یا سکھانے یا تلاوت کی غرض سے جب قرآن اٹھانے کی ضرورت ہو تو اپنے ہاتھوں میں دستانے لگالے ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں "کِتَابُ الحَیْض "(بَابُ قِرَاء َۃِ الرَّجُلِ فِی حَجْرِ امْرَأَتِہِ وَہِیَ حَائِضٌ) کے تحت ترجمہ الباب کے طورپر ایک اثر ذکر کیا ہے: وَکَانَ أَبُو وَائِلٍ: یُرْسِلُ خَادِمَہُ وَہِیَ حَائِضٌ إِلَی أَبِی رَزِینٍ، فَتَأْتِیہِ بِالْمُصْحَفِ، فَتُمْسِکُہُ بِعِلاَقَتِہِ
ترجمہ:ابووائل اپنی خادمہ کو حیض کی حالت میں ابورزین کے پاس بھیجتے تھے اور وہ ان کے یہاں سے قرآن مجید جزدان میں لپٹا ہوا اپنے ہاتھ سے پکڑ کر لاتی تھی۔
سوال(11):عورت توعموما گھر میں ہی فرض نماز ادا کرتی ہے اور وہ فرائض میں قرآن کی تلاوت اونچی قرات سے کرنا چاہتی ہو تو کیا فجرو مغرب اورعشاء کی نماز میں وہ اونچی قرات کر کے نماز کی ادائیگی کر سکتی ہے؟
جواب : نماز عورتوں پر بھی ویسے ہی فرض ہے جیسے مردوں پر البتہ جہاں نماز میں عورتوں کے لئے خصوصیت ہے وہ حالت ان کے لئے مستثنی ہوگی ۔ جہری نمازیں یعنی فجر ، مغرب اور عشاء مردوں کی طرح عورتوں کے حق بھی میں جہرا مسنون ہیں لہذا وہ گھر میں ان نمازوں کی ادائیگی جہرا کرسکتی ہیں البتہ اگر ان کی آواز کوئی اجنبی مرد سننے والا ہو تو فتنے سے بچنے کے لئے سرا پڑھے ۔
سوال (12): اس جملے کا مجھے ترجمہ معلوم کرنا ہے : مَا أَعَانَ عَلَی نَظْمِ مُرُوء َاتِ الرِّجَالِ کَالنِّسَاء ِ الصَّوَالِحِ۔
جواب: تاریخ دمشق لابن عساکر اور المجالسۃ وجواہر العلم للدینوری میں مذکور ہے کہ سَلْمُ بْنُ قُتَیْبَۃَ نے ذکر کیا ہے کہ عرب کے بعض حکماء کا کہنا ہے : "مَا أَعَانَ عَلَی نَظْمِ مُرُوء َاتِ الرِّجَالِ کَالنِّسَاء ِ الصَّوَالِحِ ".یعنی مردوں کی مروت کی تنظیم و حفاظت میں نیک عورتوں نے جتنی مدد کی اتنی کسی نے نہیں کی ۔
اس قول میں نیک عورتوں کی تعریف کی گئی ہے کہ ان کی وجہ سے مردوں کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے اخلاق ومروت کی حفاظت ہوتی ہے ۔
سوال (13):دوران طواف نماز کے وقت کچھ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ نماز کے لئے مردوں کی صف میں کھڑی ہو جاتی ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے اوراسی طرح عید ین کی نمازوں میں بعض مقامات پر گلیوں میں رش کی وجہ سے اکثر عورتیں اور مرد آگے پیچھے ایک ساتھ نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں ، اس کا بھی کیا حکم ہے ؟
جواب : عورتوں کی صف مردوں سے الگ اور آخر میں ہونی چاہئے اس وجہ سے عورتوں کو حرم میں نماز پڑھتے وقت، یا عیدین ، نماز جمعہ اور فرائض مردوں کے ساتھ ادا کرتے وقت سب سے آخر میں مردوں سے الگ صف بناکر نما زادا کرنا چاہئے اور عموما عورتوں کے لئے مساجدومصلی میں جگہیں مخصوص کردی جاتی ہیں ان میں ہی نماز پڑھنا چاہئے لیکن اگر کبھی رش کی وجہ سے مردوں سے آگے نماز پڑھنا پڑجائے اس حال میں کہ نکلنے کا اختیار نہیں تو اس حالت میں پڑھی گئی نماز درست ہیلیکن ایک ہی صف میں مردوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا جائز نہیں ہے ، ہاں کافی رش ہو اور مردوں کے دائیں بائیں ذرا ہٹ کے نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے ۔ اختلاط(رش کی وجہ سیمرد کے ساتھ کھڑا ہونا پڑجائے) کی وجہ سے عورت جماعت سے نماز چھوڑ دیتی ہے تو جائز ہے ۔
سوال (14): کسی نے پیانو Piano بجانے کے لئیخریدا اور بعد میں اسے اپنے گناہ کا احساس ہوا تو کیا اسے بیچ کر اس کا پیسہ حلال ہوگا؟
جواب : اگر پیانو اس دوکان والے کو لوٹا سکتا ہے جس سے خریدا ہے تو بہتر ہے اور واپس لیا گیا پیسہ بھی حلال ہے اور دوکاندار واپس نہ لے تو کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچنے پر اس شخص کے گناہ میں شریک ہوجائے گا اس لئے کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچنے سے بہتر ہے کہ اسے توڑ کر ناقابل استعمال بنادے ۔
سوال (15):کیا ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کی کوئی خصوصیت ہے ؟
جواب : ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اﷲ عنہاسے منبر شریف کے درمیان میں ہے، اس کا نام ریاض الجنۃ یعنی جنت کا باغیچہ ہے ، یہ نام اس لئے پڑا کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا ہے:ما بین بیتی ومِنبَری رَوضَۃٌ من ریاضِ الجنۃِ ، ومِنبَری علی حَوضی(صحیح البخاری:1196,صحیح مسلم:1391)
ترجمہ: میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا ممبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
اس حدیث کی روشنی میں اس مقام کی بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، یہ دنیا کا مبارک مقام اور زمیں کا مبارک ٹکڑا ہے لہذا اگر کسی کو مسجد نبوی ? آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت ، ذکر، اﷲ سے دعا اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ۔ اس جگہ پہ نبی ? سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے ۔یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اﷲ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ رضی اﷲ عنہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں، انہوں نے کہا: إِنِّی رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَحَرَّی الصَّلَاۃَ عِنْدَہَا (صحیح البخاری:502)
ترجمہ: میں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔
کنزل العمال (34950) اور مسند الفردوس (5676) میں ضعیف سند سے ایک روایت ہے :من سرہ أن یصلی فی روضۃ من ریاض الجنۃ فلیصل بین قبری ومنبری۔
ترجمہ: جسے ریاض الجنہ کی کیاری میں نماز ادا کرنا پسند آئے وہ میری قبر اور میرے ممبر کے درمیان نماز پڑھے۔
سوال (16):"لاحول ولاقوۃ الاباﷲ " کا صحیح ترجمہ بتا دیں اوراس کے ساتھ "ما شاء اﷲ لاقوۃ الاباﷲ" بھی پڑھ سکتے یا صرف "لا قوۃ الا باﷲ" پڑھنا کیسا ہے؟ نیزتینوں میں زیادہ اجر کس کلمہ میں ہے ؟
جواب : "لاحول ولاقوۃ الاباﷲ " کو حوقلہ کہا جاتا ہے ، یہ اذان میں حیعلتین کا جواب ہے اور نبی ? کے فرمان میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ اس کا معنی ہے :(نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اﷲ کے بغیر ممکن نہیں) ۔
نبی ﷺنے فرمایا:یا عبدَ اﷲَ بنَ قیسٍ، قُلْ لا حولَ ولا قوۃَ إلا باﷲِ، فإنہا کنزٌ من کُنوزِ الجنۃِ (صحیح البخاری:7386)
ترجمہ:عبداﷲ بن قیس! لا حول ولا قوۃ إلا باﷲ کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
اس لئے اس عظیم ذکر کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے اور"ما شاء اﷲ لاقوۃ الاباﷲ" بھی ایک ذکر ہے ، یہ سورہ کہف کی (39) آیت میں آیا ہے ۔ ان الفاظ کے ذریعہ اﷲ کا شکر بجا لاسکتے ہیں اور اسی طرح کسی کو کسی کا مال، اولاد یا کسی کا حال اچھا لگے تو یہ کلمہ کہہ سکتے ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نظر بد سے حفاظت ہوگی ۔ اور محض "لاقوۃ الاباﷲ" کا ذکر نہیں ملتا اس لئے نظر بد سے بچنے کے لئے "ما شاء اﷲ لاقوۃ الاباﷲ" اور ذکر کے طورپر "لاحول ولاقوۃ الاباﷲ " کہا جائے ۔
سوال(17)میں بسااوقات بچوں کو سلانے کے لئے سونے کے اذکار پڑھاتی ہوں مگر اس وقت سوتی نہیں ہوں کیا مجھے سونے کے وقت اذکاردوبارہ پڑھنے ہیں ؟
جواب : سونے کے اذکار سونے سے قبل پڑھنا ہے، اگر کوئی بچے کو سلانے کے لئے اسے اذکار پڑھائے تو بلاشبہ پڑھنے والی کو بھی فائدہ ہوگا تاہم جب خود بستر پر سونے کے لئے جائیں تو اس سے قبل دوبارہ اذکار پڑھ لیں کیونکہ یہ اذکار بستر پر جانے کے وقت سونے سے قبل کے ہیں جب انسان سونے کی نیت سے اس سے ماقبل پڑھے ۔ ہاں اگر بچوں کے سوتے وقت انہیں اذکار پڑھائے نیز خود بھی وہ اسی وقت سونے لگیں تو اپنی طرف سے بھی نیت کرلیں یہ ایک مرتبہ بھی کفایت کرجائے گا۔
سوال(18): میں چند مہینے پہلے میں عمرہ کرکے آئی ہو اوردوران طواف کعبہ ہی کو ہی دیکھتی رہی ، جب واپس گھر آئی ہو تو معلوم ہوا کہ طواف کے دوران کعبہ کی طرف دیکھنا سخت منع ہے کیا واقعی یہ بات سچ ہے ؟
جواب : کعبہ کی طرف دیکھنا منع نہیں ہے خواہ طواف میں ہو یا بغیر طواف کے ۔اصل میں لوگوں میں یہ اعتقاد مشہور ہے کہ کعبہ کی طرف پہلی نظر پڑنے پر دعا کرنیسے قبول ہوتی ہے لیکن اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ہاں ایک ضعیف حدیث میں چار مقامات پر آسمان کا دروازہ کھلنے اور دعا قبول ہونے کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک خانہ کعبہ کی دیدار کے وقت ہے۔ یہ ضعیف حدیث ہے اس لئے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ (دیکھیں : سلسلہ ضعیفہ : 3410)
بہرکیف! آپ کا طواف صحیح ہے ، آئندہ یہ ذہن میں رہے کہ طواف میں کعبہ کی طرف دیکھنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی ہے عبادت ، چلتے ہوئے نظر پڑجائے یا اس کی عظمت کا خیال کرکے اسے دیکھنے لگیں تو کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ اس پہ نظر کرکے دعا کرنے سے دعا قبول ہوگی ورنہ نہیں ۔
سوال(19):ایک شخص دن میں سوتا ہے تو کیا وہ رات کے اذکار پڑھے گا ؟
جواب: اس سلسلے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ یہ رات کے ساتھ ہی خاص ہے اور بعض نے کہا کہ دن میں سونے کے وقت بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ ایک تیسرا قول جو مناسب معلوم ہوتا ہے جسے شیخ ابن باز نے اختیار کیا ہے کہ جو اذکار رات میں سونے کے ساتھ خاص ہیں وہ رات میں پڑھے جائیں مثلا مَن قرَأ بالآیتَینِ مِن آخرِ سورۃِ البقرۃِ فی لیلۃٍ کفَتاہ(صحیح البخاری:5008)
ترجمہ: جس نے سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لئے کافی ہوجائیں گی ۔
یہ رات میں سونے کے ساتھ خاص ہے اور نبیﷺکا یہ فرمان کہ جب تم میں سے کوئی اپنے پستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو پہلے اسے اپنی چادر کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز داخل ہوگئی ہے۔ پھر یہ دعا پڑھے:
باسمِکَ ربِّی وَضعتُ جَنبی وبِکَ أرفعُہُ ، إن أمسَکْتَ نفسی فارحَمہا ، وإن أرسلتَہا فاحفَظہا بما تحفَظُ بِہِ عبادَکَ الصَّالحینَ(صحیح البخاری:6320)
ترجمہ: اے میرے رب! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیری قوت سے میں اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اس کی حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ عام ہے، دن اور رات دونوں وقت سونے سے قبل پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال(20): مجھے کہیں سے ایک واقعہ ملا ہے اس کی حقیقت واضح کریں : ایک شخض اپنی بیوی کو صرف اس وجہ سے چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ نے فرمائے تھے کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟ (بحوالہ البیان والتابعین 2/101 فرائض الکلام صفحہ 113)
جواب : سید قطب نے فی ظلال القرآن (1/606) میں یہ قول ذکر کیا ہے :
وما أعظم قول عمر بن الخطاب - رضی اﷲ عنہ - لرجل أراد أن یطلق زوجہ؛ لأنہ لا یحبہا- "ویحک! ألم تبن البیوت إلا علی الحب؟! فأین الرعایۃ وأین التذمم؟
ترجمہ: اور عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ کے عظیم قول میں سے ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو اس وجہ سے طلاق دینا چاہ رہاتھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟
اس معنی کے الفاظ حضرت عمررضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب کنزالعمال میں ملتے ہیں : فلیس کل البیوت تبنی علی الحب، ولکن معاشرۃ علی الأحساب والإسلام(کنز العمال:16/554،رقم :45859)
ترجمہ: ضروری نہیں کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پر قائم ہو بلکہ دینداری اور خاندانی شرافت بھی گھروں کو سنوارنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہیں ۔
یہ ایک عمدہ بات ہے کہ جہاں میاں بیوی میں محبت میں کمی یا الفت کا فقدان ہو وہا ں صرف محبت کی کمی وجہ سے گھر توڑ دینا صحیح نہیں ہے بلکہ اخلاق ومروت ،غیرت وحمیت ،عزت وشرافت ،مذہبی روایات اورتہذیبی اقدار کی بنیادپر اپنا گھر قائم رکھ سکتے ہیں ۔
سوال(21):ایک عورت اگر شریعت کی پابند ہے جبکہ اس کے گھرکیمردحضرات بے دین ہیں مثلا بے نمازی، سود خور، شراب خور،جواڑی، عورتوں کی بیعزتی کرنیوالے اورانہیں مارنے پیٹنے والے تو کیا ایسے باپ، بھائی، چچا اس دیندارعورت کے ولی ہوسکتے ہیں جو زبردستی اس کی شادی کسی شرابی یا جواڑی سے کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: اﷲ نے عورت کی عفت وعصمت کی خاطر ہی ولی کا اہتمام کیا ہے لیکن ولی بے دین اور کفراکبرکا مرتکب ہو تو اس کی ولایت اس کے بعد والے ولی میں منتقل ہوجاتی ہے مثلا باپ بے دین ہے تو بھائی ولی بنے گا اور اگر بھائی بے دین ہے تو چچا میں سے جو دیندار ہو اسے ولایت کا حق ہوگا۔ اگرباپ نمازکا منکر نہیں ، کبھی ادا کرنے والا اور کبھی چھوڑ دینے والاہو تو مسلمان ہی مانا جائے گا اور نماز کے علاوہ دیگر گناہ شراب نوشی ، قماربازی اور سودخوری وغیرہ گناہ کبیرہ ہے مگر ان کاموں سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ایسا آدمی فاسق مانا جائے گا ، اگر کوئی فاسق آدمی اپنی لڑکی کی شادی بے دین اور شرابی کبابی آدمی سے کرے تو لڑکی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس شادی سے انکار کردے اور ولی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ جبرا لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کسی بے دین سے کرائے ۔ بعض علماء نے ولی کے لئے عدالت کی بھی شرط لگائی اس صورت میں فاسق ولی نہیں بن سکتا مگر صحیح قول کی روشنی میں فاسق ولی بن سکتا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ نے ذکر کیاہے : النکاح بولایۃ الفاسق یصح عند جماہیر الأئمۃ (مجموع الفتاوی:32/101) کہ جمہور ائمہ کے نزدیک فاسق کی ولایت نکاح میں صحیح ہے۔
سوال(22):کیا رمضان میں اعتکاف میں عورت طواف کر سکتی ہے کیونکہ ہم کتنا ہی دور سے طواف کریں نامحرم سے ضرور ٹکراتے ہیں اوررمضان میں رش بھی بہت ہوتا ہے؟
جواب: اعتکاف کی حالت میں بلاضرورت مسجد سے باہر جانا منع ہے اور مسجدحرام میں اعتکاف کرنے والی عورت کے لئے نفلی طواف کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، یہ مسجد ہی کا حصہ ہے ۔ جس طرح مسجد حرام کے کسی حصہ میں معتکف عبادت کرسکتا ہے اسی طرح اس مسجد کے دوسرے حصہ مطاف میں آکر طواف کرسکتا ہے بلکہ بعض علماء نے اعتکاف کی حالت میں نفلی عبادت سے افضل طواف کرنا قرار دیا ہے۔ دوران طواف عورت مردوں سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرے ، لاشعوری طور پر یا رش کی وجہ سے مردوں سے ٹکرا جانے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اعتکاف یا طواف میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔
سوال(23): عورتوں میں برص کا مرض کثرت سے پایا جاتا ہے ،یہ علاج سے بھی اکثر ٹھیک نہیں ہوتا ، اس مرض کی وجہ سے عورتوں کی شادی میں کافی دشواری پیدا ہورہی ہے آپ اس سلسلے میں قرآن وحدیث سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب : برص سے نبی ﷺ نے پناہ مانگی ہے ، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کہتے تھے: اﷲم إنی أعوذُ بک من الجنونِ والجُذامِ ، والبرصِ وسیِّءِ الأسقامِ(صحیح النسائی:5508)
ترجمہ:اے اﷲ! پاگل پن، کوڑھ، برص اور برے امراض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
یہ ایک بیماری ہے اس وجہ سے اﷲ کے رسول نے اس سے پناہ مانگی ہے ، اویس قرنی رحمہ اﷲ کو بھی یہ بیماری تھی اﷲ سے دعا کی اکثر ختم ہوگئی سوائے ایک درہم یا دینار کے برابر ۔ اسے شادی بیاہ میں عیب سمجھا جاتا ہے اور متعدی بھی تصور کیا جاتا ہے اس وجہ سے برص والے مرد یا برص والی عورت کی جلدی شادی نہیں ہوتی ہے ۔ لوگ اس بیماری کو لاعلاج بھی سمجھتے ہیں اور کہتیہیں کہ اس کا علاج صرف عیسی علیہ السلام ہی کرسکتے تھے ،ان کے بعد اب کسی کی یہ بیماری ٹھیک نہیں ہوگی جبکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما أنزَلَ اللَّہُ داء ً إلَّا أنزلَ لَہ شفاء ً(صحیح البخاری:5678)
ترجمہ: اﷲ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا کوئی علاج(شفا) نہ ہو۔
اس لئے یہ بیماری جہاں لاعلاج نہیں ، وہیں اس مرض والے سے شادی کی ممانعت بھی کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے ۔ کوئی اگر برص والے یا برص والی سے شادی کرنا چاہے تو شرعا منع نہیں ہے اور شادی کے بعد اﷲ پر توکل اور اس سے دعا کرتے ہوئے صحت مند اولاد کی امید کی جاسکتی ہے ۔
اہل علم نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ شادی کے موقع پر جس میں یہ مرض ہو اس کو ظاہر کردینا چاہئے اور اگر کسی میں یہ مرض شادی کے بعد ظاہر ہوا تو دوسرے کونکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے اور چاہے تو اکٹھے بھی رہ سکتے ہیں ۔
قبیلہ بنوغفار کی ایک عورت سے نبی ﷺ نے شادی کی ،جب اس عورت نے اپنا کپڑا نکالا تو برص کی بیماری معلوم ہوئی تو رسول اﷲ ﷺنے اسے جدا کردیا ، یہ روایت ضعیف ہے اور اسی طرح سیدنا عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب یہ قول بھی ضعیف ہے: أیُّما امرأۃٍ غُرَّ بہا رجلٌ بہا جنونٌ أو جذامٌ أو برصٌ فلہا مہرُہا بما أصاب منہا وصداقُ الرجلِ علی من غرَّہ(إرواء الغلیل:1913)
ترجمہ: ایسا کوئی مرد جو کسی ایسی عورت کے ذریعہ دھوکہ دی گئی جسے پاگل پن یا کوڑھ یا برص کی بیماری لاحق تھی تو اس کا مہر وہی ہے جو اس کے ذریعہ مرد کو لاحق ہوا اور مرد کا مہر اس پر ہے جس نے اسے دھوکہ دیا۔
مختصر یہ ہے کہ برص ایک بیماری اور انسانی عیب ہے جس سے تنفر ممکن ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ اس مرض میں مبتلا مرد؍عورت کی شادی نہیں ہوسکتی ، جو کسی کا سہارا بن کراﷲ سے اجر کا طالب ہو وہ شادی کرسکتا ہے اور دھوکہ میں برص زدہ سے شادی ہوجانے پر نکاح فسخ کرنا ہی ضروری نہیں ہے چاہے تو اسے باقی رکھ سکتا ہے۔
سوال(24): ایک عورت جنبی تھی اور اسی حالت میں ماہواری شروع ہوگئی تو جنابت کے لئیغسل کب کرے ، حیض سے پاک ہوکر یا اس سے پہلے ہی؟
جواب: جنابت ایک ناپاکی ہے اور حیض ایک دوسری ناپاکی ہے ،اگر عورت فورا غسل جنابت کرلیتی ہے تو اس سیجنابت کی ناپاکی ختم ہوجاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھے گی اور نہ ہی روزہ رکھے گی کیونکہ وہ حیض کی حالت میں ہے۔جب حیض سے پاک ہوتب طہارت کے واسطے دوسرا غسل کریاور نماز پڑھنا شروع کرے ۔ غسل جنابت بالفور کرنے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ جنابت کی ناپاکی ختم ہوجائے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ جنبی کے لئے قرآن کی تلاوت منع ہے جبکہ حائضہ کے لئے ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ہے ۔
سوال(25): کیا خاتون کو تھوڑے لمبے ناخن رکھنے میں شریعت اسلامیہ کی طرف سے کوئی قباحت ہے ؟
جواب: ناخن کاٹنے کا تعلق صفائی سے ہے اور یہ دس فطری امور میں سے ایک ہے۔ ناخن کاٹنے میں مرد وعورت دونوں برابر ہیں یعنی دونوں کو ناخن کاٹنے کا حکم ہوا ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، انہوں نے کہا:وُقِّتَ لنا فی قصِّ الشاربِ، وتقلیمِ الأظفارِ، ونتفِ الإبطِ، وحلقِ العانۃِ، أن لا نترکَ أکثرَ من أربعینَ لیلۃً .(صحیح مسلم:258)
ترجمہ: ہمارے لیے مونچھیں کترنے ، ناخن تراشنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کر دیا گیا کہ ہم ان کو چالیس دن سیزیادہ نہ چھوڑیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد ہو یا عورت زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک اپنے ناخن چھوڑ سکتا ہے ، اس سے زیادہ دن ہونے پر واجبی طورپر اپنا ناخن کاٹنا ہوگا ورنہ گنہگار ہوں گے ۔
کسی مسلمان عورت کے لئے لمبے ناخن رکھنا جائز نہیں ہے ، اس میں فطرت کی مخالفت ، فساق وفجار خواتین اور حیوانات کی مشابہت کے ساتھ اپنے اندر نجاست پالنا بھی ہے ۔ بھلا مومنہ عورت ، نماز و روزہ کا اہتمام کرنے والی اورطہارت وپاکیزگی کا پیکر اپنے ہاتھوں میں نجاست کیسے پالے گی ؟۔ لمبے ناخن کی تہ میں گندگی جمتی رہتی ہیاس لئے ہفتہ ہفتہ ہی اس کی صفائی بہتر ہے پھرلمبے ناخن رکھنے والیاں اپنے ہاتھوں کی نمائش بھی کرتی ہیں کیونکہ لمبے ناخن رکھے ہی جاتے ہیں نمائش کے لئے ،اس پر مستزاد اکثر اس پہ نیل پالش کی جاتی ہے جس سے وضو نہیں ہوتا ۔ گویا گناہ کے ساتھ یہ عمل عبادت میں بھی مخل ہے ۔


 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 315 Articles with 320970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.