نئی نئی جدّتیں اور پرانی مشقیں

ہر نئے دن کے آغاز کے ساتھ نئی جدّت بھی جنم لیتی ہے اور کم وقت میں اپنی پہچان بنالیتی ہیں۔ دورِحاضر میں ٹیکنالوجی سے آگاہی ناگزیر تصور کی جارہی ہے چوں کہ ہر آنے والا دن اپنے ساتھ نئی ٹیکنالوجی لائے گا اور وقت کی ضرورت بن جائے گا جیسا کہ ہوتا آرہا ہے ۔ ٹیکنالوجی سے مراد سائنس اور معلومات جس کا استعمال افرادی قوت میں کمی اور وقت کے ضائع کو محفوظ کرتے ہوئے کسی عمل کو آسان بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کا قیام در اصل نئی جدّت ہی کہلاتی ہے ۔ نئی نئی جدّ ت جہاں انسان کی معمولاتِ زندگی کو آسان بنا رہی ہیں ، وہیں مشکلات کا باعث بھی بن رہی ہیں ۔ آسانیوں کی تلاش میں انسان اپنی حقیقی قوت سے دور ہوتا جار ہا ہے ۔" کمپیوٹر"ـ بلاشبہ دنیاکی اعلیٰ ایجاد ہے جس نے بہت کم وقت میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اوردنیا اس سے مسلسل استفادہ اٹھا رہی ہے ۔ اسی طرح انٹر نیٹ کا شمار بھی اعلیٰ ٹیکنالوجی میں ہوتا ہے جس نے دنیا کو ایک عالمی گاوٗں کی حیثیت سے متعارف کروایا ۔ کمپیوٹر کی اہمیت کسی قدر کم نہیں لیکن کمپیوٹر کے ذریعے انٹر نیٹ کے استعمال نے انسان کو گلیوں ، کوچوں اور میدانوں سے اٹھا کر ایک کمرے میں محدود کر دیا ہے۔ اس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے میدان ویران دیکھائی دے رہے ہیں ، گلیوں / محلوں میں وہ پرانی بھٹک دیکھائی نہیں دے رہیں، انسانی معمولاتِ زندگی میں خاموشی سی ہے ۔ دنیا میں مزید ایک اور اعلیٰ ایجاد ـ"موبائل فون" جس نے رابطوں کو آسان کیا، جو پیغام پہلے بذریعہ تار/ڈاک مہینوں ، ہفتوں، دنوں میں جاتے تھے یا موصول ہوتے تھے وہ اب سیکنڈوں میں عمل میں آجاتے ہیں۔ جہاں موبائل فون نے انسانی رابطوں کو آسان کر کے فاصلے مٹا دیئے وہیں انسان کا انسان سے تعلق کو مشکل کر دیا ہے ۔ آج ہر فردِ واحد اپنا ذاتی موبائل فون رکھتا ہے اور اس میں اتنا مگن ہے جیسے دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ جیسے کہ پہلے انسان اپنے معمولاتِ زندگی میں سے کچھ وقت اپنے والدین، بہن بھائی، دوست احباب، پڑوس محلہ کے ساتھ گزارتا تھا وہ اب کام سے فارغ ہو کر موبائل فون پر مصروفِ عمل ہوتا ہے ۔ موبائل فون کی ازخود ٹیکنالوجیز نے انسان کو اتنا موح لیا ہے کہ وہ اس سے اپنے آپ کو چھڑا نہیں پا رہا ۔ آج انسان دوسرے انسان کو اہمیت کم دے رہا ہے جبکہ اپنے موبائل فون کو زیادہ اہمیت دیتا دیکھائی دے رہا ہے۔ ان معنوں میں جیسے انسان کی قدر روز با روز کم ہوتی جارہی ہے اور ٹیکنالوجی کی قدر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

نئی نئی ٹیکنالوجیز جہاں بڑے انسان کو تو جکڑ چکی ہیں وہیں بچے بھی اس سے محفوظ دیکھائی نہیں دیتے ۔آج کے دور میں کمپیوٹراور موبائل فون بچوں کی جسمانی سرگرمیوں میں ایک آرڈ سی دیکھائی دیتے ہیں جنہوں نے بچوں کو گلیوں اور میدانوں سے دور کر کے گھروں میں قید سا کر دیا ہے ۔ بچے اب کرکٹ، ہاکی ، فٹبال وغیرہ کھیلنے کے لئے بمیدانوں میں نہیں جاتے بلکہ موبائل فون پر ہی گیم کھیل لیتے ہیں اور والدین بھی بچوں کے اس عمل کو محفوظ تصور کر رہے ہیں ۔ اگر ہم دورِ حاضرکا کو اس دورسے موازنہ کریں جب ٹیکنالوجییز کم تھی اور مشغلیں بھرپور تھیں، صحت مند معاشرہ تھا ، بیماریاں کم تھی ، میدان ، گلیاں کھیلوں سے آباد تھیں ، آمدنی کم لیکن بچے تندرست تھے اور آج ٹیکنالوجی کے دور میں بچے ذہنی و جسمانی طور پر کمزور دیکھائی دیتے ہیں ، جس کی وجہ بچوں کا جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نا لینا ہے ۔

اس کے علاوہ اگر ہم تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو وہاں بھی کافی مایوسی کا سامنا ہے۔ انٹرنیٹ آنے سے قبل طلباو طالبات ازخود محنت کرکے اپنے کورسزمکمل کرتے تھے کتابوں سے لگاوٗ تھا جو کہ ذہنی مشق سمجھی جاتی ہے جس سے ذہین کو پختگی حاصل ہوتی ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ لیکن اب چونکہ ٹیکنالوجی کا دور ہے تو کتابوں کی ضرورت تو جیسے محسوس ہی نہیں ہوتی کیونکہ تمام طر مواد / کورسز انٹر نیٹ پر دستیاب ہوتا ہے ۔ اب کتابوں کا مطالعہ کم ہوگیا ہے اور آن لائن اسٹڈی کا رحجان بڑھتا جارہا ہے جس سے طلبا و طالبات کی ذہنی صلاحیتوں میں واضح کمی دیکھائی دیتی ہے ۔ یوں طلباء تعلیم تو مکمل کر لیتے ہیں مگر ان کے ذہین اتنے پختہ نہیں ہوتے جو کہ کتاب پڑھ کرتعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کے ہوتے ہیں اور نا ہی ان طلبہ کی مقابلے میں تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اسی طرح اگر ہم استاذہ کے پڑھانے کا انداز دیکھیں تو اس میں بھی نمایا تبدیلی دیکھائی دیتی ہے ۔ جیسا کہ پہلے استاذہ ازخود محنت کر کے طلباء کے لئے کورسز تیار کرتے تھے اب استاذہ بھی ٹیکنالوجی سے استفادہ اٹھاتے ہوئے طلباء کو بذریعہ انٹرنیٹ امتحانات کی تیار ی کا مشورہ دیتے دیکھائی دیتے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ جدّت / ٹیکنالوجیز نے ہمیں پرانی مشقوں سے دور کر دیا ہے وہ مشقیں جو ہمیں ذہنی و جسمانی قوت بخشتی تھیں ، انسان کو انسان سے قریب رکھے ہوئی تھیں، ہمیں ایک دوسرے کی مدد کے مواقع فراہم کرتی تھیں، ہمارے بچے جن مشقوں سے صحت مند و تندرست رہتے تھے ، ہماری گلیا ں و میدانوں کو آباد رکھتی تھیں ۔لیکن ٹیکنالوجی بھی وقت کی ضرورت ہے اور ہر ابھرتا ہو ا دن نئی ٹیکنالوجی کو متعا رف کروائے گا ، ایسے میں ہمیں سوچنا ہے کہ ہم اس سے کس حد تک استفادہ کریں اپنا قیمتی وقت جو ہمارے والدین، بہن بھائی، دوست احباب اور ہماری ذہنی و جسمانی قوت فراہم کرنے والے وہ میدانوں میں ملیں گی جو ویران پڑے ہیں ، کی ضرورت ہے وہاں صرف کریں یا ان نئی نئی جدّت اور ٹیکنالوجی ضائع کر دیں۔ لہٰذا آج اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کا استعمال اپنی ضرورت کی حد تک کریں اور اپنی پرانی مشقوں کو پھر سے تازہ کر کے خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی صحت مند زندگی گزاریں۔
 

Aleem Quraishi
About the Author: Aleem Quraishi Read More Articles by Aleem Quraishi: 6 Articles with 4126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.