دنیا کے ساتھ دین بھی بچائیے

تحریر: محمد ارسلان (جامعہ کراچی)
دور جدید میں ہر شخص مغربی تہذیب اور طرز زندگی کو اپنانے کا خواہش مند ہے۔ دنیا میں موجود تمام مذاہب، سماج کار اور مفکرین نے ہر طبقے کو یکساں حقوق اور نظریات فراہم کیے۔ ان نظریات کو اخبارات، میگزین میں شائع کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن کے ذریعے متعلقہ فرد کو ترغیب دلائی گئی۔کبھی کسی مفکر نے یہ نہیں لکھا یا کہا کہ آپ اخلاقی قدروں کو نظر انداز کر دیں یا اس قدر خود غرض بن جائیں کہ اپنے مطابق قانون و اصول بنائیں۔یا پھر اپنے مذہبی و سماجی اصول ہی بدل ڈالیں۔

بالکل اسی طرح اسلام کے نظریات بھی روز اول سے معاشرے کی اصلاح کے رہے ہیں۔ دین اسلام نے نے آتے ہی سب سے پہلے اخلاقیات کا درس دیا۔ معاشرتی مسائل کا حل پہلی ترجیح تھی۔ اس وقت سب سے بڑی بیماری ہی معاشرے کی اصلاح کی تھی، جو چند ہی دنوں میں ٹھیک ہوگئی۔

موجودہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، جس قدر ہم جدت کی طرف جارہے ہیں اس قدر ہم اخلاقی قدریں بھی کھورہے ہیں اور اس طرح ہمیں اپنے اخلاقیات کی اصلاح کا کام بھی زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بطور ایک مسلم یہ سب کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی کسی بھی طرح سے اصلاح کی ذمے داری ادا کریں۔

آج کل شرح خواندگی زیادہ ہے اور ہماری نوجوان نسل جلد باشعور ہو رہی ہے ۔ اس باشعوری کے چکر میں والدین اور سرپرستوں نے اپنے بچوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ جس سے بگاڑ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یعنی چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا۔ ٹیکنالوجی سے آشنائی بری بات نہیں مگر اس کا درست استعمال سیکھانا بھی بہت ضروری ہے۔

پھر سوشل میڈیا بھی اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمارے گھروں اور ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں آن واردہوا۔ جس نے سب سے زیادہ نقصان ہمارے اسلام کو ہی پہنچایا۔ خود ہمارے اپنے مسلمان بچے ہی اسلامی احکامات کے باغی اور متضاد نظر آتے ہیں۔ وجہ بالکل نمایاں ہے کہ اب ان کی اصلاح اور تربیت انٹرنیٹ کرتا ہے۔ یعنی جہاں پہلے بڑے بزرگ، والدین اور اساتذہ کیا کرتے تھے اب وہ تربیت ان کو انٹرنیٹ فراہم کرتا ہے اور وہ زیادہ تر اسلام سے ہی باغی بناتا ہے۔

ہمارے نوجوان اب سول سوسائٹی اور لبرل ہونے کا نعرہ لگانے میں ذرہ برابر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اسی بنیاد پر غیر ضروری اور غیراخلاقی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس تمام کے پیچھے اگر تھوڑا غور کیا جائے تو سازشوں کے تانے بانے سیدھے سیدھے مغرب سے ملتے ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک نے عورت کے نقاب پر سیکورٹی کی وجہ سے پابندی لگادی یا صرف اس لیے کہ حجاب سے غیر مسلم خواتین بھی تحفظ محسوس کرنے لگی تھیں۔ شاید حجاب ان کے سماج کا حصہ بن جاتا۔ صرف ترقی یافتہ بننے یا یورپین لوگوں کی طرح سوچ اپنانے کے لیے غلط راستہ ہم اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ان کے ہاں شرح جرائم کم اور ہمارے ہاں زیادہ ہے کیوں؟ اس وجہ سے ہماری کردار سازی اور ذہن سازی مثبت نہیں ہو پا رہی۔ کردار سے متعلق علامہ محمد اقبال نے فرمایا
حسن کردار سے نورے مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلمان ہو جا

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دین سے دور ہورہا ہے اور وہ جتنا دین سے دور ہورہا ہے اتنا ہی ان کے ذہنوں میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ اس لیے اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہمیں واپس پلٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر اپنے دین اور اپنے ایمان کی حفاظت چاہیے تو لازمی کہ ہے آپ خود کو دین اسلام سے جوڑ کر رکھیں۔

قرآن و احادیث کی تعلیمات و احکامات سے ناواقفیت کی بنا پر اﷲ کے وجود اور رسول کریمﷺ کے بتائے ہوئے دین پر تنقید کی جاتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم جدید ترقی کی لالچ میں تمام مفید اسلامی طریقوں کو بھول چکے ہیں۔ روزانہ ہماری خواتین کئی غیر اخلاق افعال کا سامنا کرتی اورپریشان نظر آتی ہیں چونکہ ہم مغربی طرز تعلیم اپنانا چاہتے ہیں اس لیے ہم یہ بالکل نہیں سوچتے کہ نامحرم مرد حضرات کے درمیان ہماری بیٹی غیر محفوظ ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں سے تمام غیر اسلامی ممالک اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ اسلامی تعلیم خواتین اور جوانوں کے لیے محفوظ راستہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی ریاستوں کے قیام کے بعد امن آیا، جرائم کا خاتمہ ہوا اور بیٹی کی عزت محفوظ ہوئی۔

مغرب کہاں جارہا ہے اور وہ کیا کررہا ہے یہ بات اہم نہیں اہم ہے تو یہ ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔ یاد رکھیں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں عافیت ہے۔ اگر مشعل راہ ڈھونڈنی ہے تو وہ صرف سیرت مصطفی ﷺ پر عمل کرنے میں ہی ملے گی۔ اگر اب بھی آپ کے پاس کئی سوالات ہیں جن کا جواب نہیں مل رہا، وہ چاہیے دنیا کے لحاظ سے ہوں یا پھر دین کے معاملات میں تو آپ ایک بار ان کے جوابات کے لیے احادیث مبارکہ کے جواب طلب کریں۔ مطالعہ کریں اور انہیں پڑھیں یقینا آپ کو آپ کے ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ اﷲ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے، اور ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے، آمین
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.