مذاہب سے نکل آؤں

چند دن پہلے کی بات ہے۔ مجھے راستے میں میرا ایک دوست ملا۔ جو پشاور کے ایک "این جی او" میں جاب کرتا ہےجس کی شخصیت ایک روشن چراغ کی طرح ہے اور آج کل کافی اچھے منصب پر فائز ہے۔ دوران گفتگو میں نے ان سے کہا کہ میرے گزشتہ آرٹیکلز کے بارےمیں مجھے "فیڈ بیک"دو۔ اس نے کھڑے کھڑےسب سے پہلے یہ بات کہی کہ آپ کے آرٹیکلز تو بہت اچھے ہیں لیکن یار تھوڑا (اسلام سے نکل آؤں) یہ بات سن کر میں بہت ہنسا اور تھوڑا سا انہوں نے بھی تبسّم فرمایا۔وہ تو شکر ہے کہ ہمارے آس پاس کوئی مولوی صاحب نہیں تھے ورنہ وہی پر فتویٰ لگا دیتے کہ یہ تو (کلمہ کفر ہے)۔ اسلام سے نکل آؤں سے میرے اس دوست کا مطلب یہ نہیں تھا کہ معاذاللہ کافر ہو جاؤ۔ بلکہ اس سے مراد ان آرٹیکلز کا موضوع تھا۔ جس میں اکثر میں نے اسلام کے کسی پہلو کو موضوع بنایا ہوا تھا۔ جس پر میرے اس دوست نے مجھے یہ فیڈ بیک دی کہ اسلام کے موضوع سے نکل کر کسی دوسرے موضوع پر بھی کچھ لکھوں۔ اور میں لکھتا بھی تو کیا لکھتا (یعنی اسلام کے سوا کیا لکھتا) کیونکہ بحثیت ایک مسلمان میں اسلام کا طالب العلم ہوں اوردوسرے مذاہب کا بھی۔ بلآخر میں نے اسی کو موضوع بنایا کہ (مذاہب سے نکل آؤں)

فرض کیجئے۔ اگر خدا نخواستہ سارے لوگ مذاہب کو پس پشت ڈال دیں تو اس کا اثر کن کن چیزوں پر پڑے گا۔اور میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہم اخلاقیات کے باب کو نہ کھولیں کیونکہ اس سے بحث بہت طویل ہو جائے گا اور صرف معیشت کے اوپر بات کریں۔اور یہ جان لے کہ اس سے معیشت کے اوپر کیا اثر پڑے گا تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ مثال کے طور پر حج جیسے مقدس فریضے کو لیجئے جو ایک بڑی عبادت ہے۔ جس میں لوگ خدا کے گھر کا حج کرتے ہیں اور طواف کرتے ہیں۔ اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے ہر سال بیس سے لیکر بائیس لاکھ لوگ مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔ اور حج کی ادائیگی پر مختلف ممالک سے تقریباً تین سے لیکر پانچ لاکھ روپے تک کا خرچہ ایک شخص پر ہوتا ہے۔ جس سے کھربوں روپے بنتے ہیں۔اور حج کے علاوہ صرف عمرہ کرنے ہر سال تقریباً ایک کروڑ پچاس لاکھ لوگ مکہ مکرمہ تشریف لاتے ہیں۔ اگر حج کے چند دن نکال کر ہم اس کو تقسیمکرلیں تو روزانہ پچاس ہزار کے قریب لوگ عمرہ ادا کرنے مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔اور جتنی تعداد میں لوگ حج کرنے جاتے ہیں اتنی ہی تعداد میں لوگ قربانی کرتے ہیں یعنی جانور ذبح کرتے ہیں۔ اور عیدالاضحی کے دنوں میں پوری دنیا میں مسلمان کتنے جانور ذبح کرتے ہیں یہ معلوم کرنا ہمارے لئے مشکل ہے۔ ہم صرف ایک ہی صوبے کا حساب بتاسکتے ہے باقی کو آپ اس پر خود ہی قیاس کرلیں۔ پچھلے سال تقریباً چالیس لاکھ ستر ہزار جانور ذبح کئے گئے۔ جس میں سے انیس لاکھ اسی ہزار بڑے جانور یعنی گائے بیل اور بھینس وغیرہ تھے۔ اور تقریباً بیس لاکھ نوے ہزار بھیڑ بکریاں اور چھوٹے جانور تھے۔اور آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ ان تمام اسلامی ممالک کو یہ جانور کون کون سے ملک ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ان میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، برازیل اور انڈیا سرفہرست ہے۔اگر صرف آسٹریلیا کا ہم جائزہ لیں تو وہ ہر سالانڈونیشیا، مصر، اردن، کویت، ایران، بحرین، قطر، سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک کو بڑی تعداد میں جانور ایکسپورٹ کرتاہے۔ اور اس کی تعداد کتنی ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ اسی سے لگائیں کہ صرف فرانس ہر سال تقریباً سات لاکھ بڑے جانوریعنی گائے اور بیل وغیرہ ترکی اور لبنان جیسے ملکوں کو ایکسپورٹ کرتاہے۔اور ہمارا پڑوسی ملک جہاں پر گائے کے پیشاب تک کو مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں سے یعنی ہندوستان سے بھی بڑی تعداد میں جانور اور گوشت سپلائی کی جاتی ہے۔اور مزےکی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان میں گوشت کے جو چھ 6 بڑے سپلائرز ہے ان میں سے چار ہندو ہے۔ حلانکہ بڑے گوشت پرتو ہندوستان میں بڑے فسادات ہوتے ہیں۔اور یہ بات بھی ذہن نشین کیجئے کہ ہمارا یار چین ہر سال اربوں روپے کی تسبیحاں اور جائے نماز سعودی عرب ایکسپورٹ کرتاہے جسے حاجی صاحبان وہاں سے خرید کر واپس اپنے ملک لے جاتے ہیں۔ اور یہ بات بھی سننا گوارا کیجئے کہ اسرائیل امت مسلمہ کو مسواکیں فروخت کرتاہے۔ جس سے مسلمان اپنا منہ صاف کرکے یہودیوں کو گالیاں دیتا ہے۔ عزیزانِ من عطر اور سرمہ سے لیکر احرام اور کفن تک کی چیزیں یورپ سے پیک ہو کر مسلم ممالک پہنچائی جاتی ہے۔ جس کی مالیت اربوں ڈالر کی ہوتی ہے۔

قارئین۔ یہ تو مذہب اسلام کا صرف ایک ہی رکن تھا جس سے بخوبی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دنیا کی معیشت اس ایک رکن پر کتنا انحصار کرتی ہے۔اب ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندو مذہب کا اس میں کتنا کردار ہے۔ ہندوستان میں ایک بڑا مندر ہیں جس کو تیروپتی بالاجی مندر کہتے ہیں جہاں پر ہندو جاکر پوجا کرتے ہیں منتیں مانتے ہیں اور نذریں چڑھاتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس ایک مندر پر ہندو ہر سال 900کروڑ کےمالیت کی رقم اور زیورات چڑھاتے ہیں۔اور اس مندر کا 14ہزار افراد پر مشتمل عملہ ہے جو پرمننٹ ہے۔ جن کا وظیفہ تقریباً 115کروڑ تک بنتاہے۔ اور اس سب کے علاوہ ان کے پاس تقریباً 52ٹن کے زیورات محفوظ ہیں۔ جس کو انڈین اوورسیز بینک اور سٹیٹ بینک آف انڈیا میں جمع کرائی گئی ہے۔ یہ صرف ایک مندر کی آمدنی ہے اور اس سے بڑے مندر انڈیا میں اور بھی ہیں۔ جس کی تفصیل ہم یہاں پر ذکر نہیں کرسکتے بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ "ورلڈ گولڈ کونسل" نے یہ رپورٹ جاری کیا ہے۔ کہ ہندوستان کے مندروں کے پاس نجی طور پر 22ہزار ٹن کے زیورات موجود ہے۔ جس کی مالیت 1ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تو صرف دو مذاہب کے ایک ایک رکن کا جائزہ لیا گیا ہے باقی کو آپ خود ہی اس پر قیاس کیجیئے۔

قارئین۔ اس ساری بحث سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مذاہب کاروبار کے لئے بنائے گئے ہیں۔ (اعوذ بالله أن أكون من الجاهلين) بلکہ میرا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مذہب جہاں پر انسانوں کی اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی کردار کی اصلاح کرتی ہے وہاں پر مذہبی عبادات میں سے خود بخود معیشت کو پروان چڑھانے کے اسباب پیدا ہوجاتے ہے۔ جس سے کوئی بھی حقیقت پسند شخص انکار نہیں کر سکتا۔ اگر اس کو صحیح طریقہ سے مینجکردیا جائے تو یہ آمدنی دوبارہ انسانیت کی فلاح میں لگ سکتی ہیں۔

Malak Gohar Iqbal Khan
About the Author: Malak Gohar Iqbal Khan Read More Articles by Malak Gohar Iqbal Khan: 34 Articles with 30225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.