عید میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ریمنڈ ڈیوس

ربیع الاول کا مبارک مہینہ آتے ہی وطن عزیز پاکستان میں گویا بہار سے پہلے ہی بہار آجاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ آسمان سے رنگ ونور کی برسات ہو رہی ہو۔مسلمان درود و سلام کے نذرانے حضور ختمی مرتبتﷺ کے حضور پیش کرنے لگتے ہیں۔گلی گلی محلے محلے مسلمان مل کر آپ ﷺ کی مدحت و ثنا بیان کرتے ہیں۔ ریلیاں اور جلوس نکالے جاتے ہیں اور ان میں بھی حضور اعلیٰﷺ کی خدمت میں نعتوں اور سلاموں کے تحفے بھیجے جاتے ہیں۔ماحول گویا مسرت اور شادمانی سے بھر جاتا ہے۔اور کیوں نہ ہو اللہ کریم نے خود اپنے کلام میں ارشاد فرمایا کہ میں نے مومنین کے درمیان اپنا رسولﷺ بھیج کر ان پر احسان فرمایا۔اور پھر فرمایا کہ وہ مومنین کی فلاح اور بہتری کے لئے ازحد خواہش رکھتے ہیں۔

مسلمان حضور اعلیﷺٰ کی آمد پہ اللہ کریم کے اس احسان کا اپنے اپنے طریقے سے اظہار کرتے ہیں۔کوئی گھر میں بیٹھ کر درود وسلام بھیجتا ہے تو کوئی اس کا اظہار باہر نکل کر کرتا ہے۔ہر وہ شخص جو مسلمان ہے اس پہ واجب ہے کہ وہ اللہ کی اس نعمت اور بلاشبہ کائنات کی سب سے بڑی نعمت پہ جیسے بھی ہو شکر ادا کرے ۔مسلمان حضور اعلیٰﷺ کی عزت وحرمت و تقدیس کو دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر مانتے ہیں۔اس کا شکر ادا کرنا ویسے بھی بنتا ہے۔میرے ذاتی خیال میں ہر مسلمان پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اسے ہر طرح سے اس بات کی کوشش کرنی چاہئیے کہ وہ اپنی زندگی کو حضور اعلیﷺٰ کی زندگی کے موافق بنا کے آپ ﷺ کو ہدیہ تبریک پیش کرے۔وہ مسلمان جس کی زندگی کا یہ مقصد نہ ہو کہ وہ اپنے نبی ﷺ کو اللہ کی مخلوق میں سب سے اعلیٰ وارفع نہ جانے اس کے ایمان کی تصدیق کم از کم میرا ایمان تو نہیں کرتا۔مسلمان کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ کریم کی مخلوق میں حضور اعلیٰ ﷺ ہی سب سے اونچے مرتبے اور مقام پہ فائز ہیں اور اس کائنات رنگ وبو میں ان کی برابری ممکن نہیں۔قصہ مختصر یہ کہ
بعد از خدا بزرگ توہی قصہ مختصر

بارہ ربیع الاول کی آمد آمد ہے۔یوں تو پورا ربیع الاول ہی درودوں اور سلاموں کے فلک شگاف نعروں سے گونجتا رہتا ہے۔ لیکن بارہ ربیع الاول ان برکات کا نکتہ عروج ہوتا ہے جہاں عاشقان نبی ﷺ اپنے پیارے آقاﷺ سے والہانہ عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔اس دن پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے اور راتیں بقعہ نور بن جاتی ہیں۔ہر مسلمان اپنے اپنے گھروں میں کچھ ایسا اہتمام ضرور کرتا ہے جس سے اس کی آقاﷺ سے محبت کا اظہار ہوتا ہو۔وہ جو جلوسوں اور ریلیوں کی مخالفت کرتے ہیں اس دن کسی نہ کسی بہانے محبت کا اظہار وہ بھی کرتے ہیں۔سوائے شیطان کے اس دن ہر شخص مسرور شاداں و شادماں ہوتا ہے کہ اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت کی آمد پہ شکر تو سب ہی ادا کرتے ہیں۔

بارہ ربیع الاول کا دن مسلمانوں میں عید سے بھی بڑھ کر خوشیاں لاتا رہا ہے۔ لیکن جب سے اس ملک پہ امریکی نحوست کی پرچھائیاں پڑی ہیں۔ مسلمانوں کی یہ خوشی بھی ماند پڑ گئی ہے۔آج سے چند سال پہلے نشتر پارک کا واقعہ آج بھی مسلمانوں کے سینے میں آگ سی لگا جاتا ہے۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب جب ہم امریکی ہدایات اور انتظامات کے مطابق آگے بڑھتے رہتے ہیں دھماکے بھی کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جونہی ہم اپنے کسی ملکی مفاد میں ذرا سا انکار میں گردن ہلانے کی تیاری کرتے ہیں ،ہمارا پیارا پاکستان دھماکوں سے گونج اٹھتا ہے۔یہاں دندناتے یہ بھیڑیئے اس قدر طاقتور ہیں کہ وہ کسی بھی جگہ اور کسی بھی مقام کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔وہ اور ان کے گماشتے کسی بھی جگہ مسلمانوں کا خون بہانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

پچھلے دنوں ان ظالمانہ دھماکوں میں کچھ کمی آئی تو ہمارے ہر دلعزیز وزیر داخلہ نے اعلان فرمایا کہ ہم نے ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ اب انہیں کون بتائے کہ آپ نے نہیں، ابھی تک انہوں نے ہی آپ کی کمر توڑی ہے۔ اب وہ آپ کی جان لینے کے بھی درپے ہیں۔اس کا ثبوت اس بدمعاش امریکی ریمنڈ ڈیوس کا وہ اقدام ہے جو اس نے لاہور میں دن دھاڑے کیا۔ہمار ے ذمہ دار اگر غور کریں تو انہیں احساس ہو گا کہ جب سے ربیع الاول کا ماہ مقدس شروع ہوا ہے۔ دھماکے بھی اپنی کمیں گاہ سے چل پڑے ہیں۔پہلے پشاور میں دھماکے ہوئے۔ آج گوجرانوالہ میں اکھٹے تین دھماکوں کی خبر ہے۔حکومت پاکستان پہ دباؤ بڑھانے کے لئے ان دھماکوں میں یہ وحشی درند ے ابھی اور تیزی لائیں گے۔حکومت بھی ہوشیار رہے اور عوام بھی۔اپنے گرد و پیش پہ نظر رکھیے۔حکومت کے ساتھ ساتھ ان تخریب کاروں کے آگے بند باندھنا ہماری بھی ذمہ داری ہے۔یہ تو جنگ ہے ۔ان بدمعاشوں کے ڈر سے محبت کے اظہار کو روکنا بزدلی ہے ۔لیکن انہیں وار کرنے کا موقع دینا بھی تو ایک طرح کی بزدلی ہی ہے۔مسلمان کی جان بھلے بہت ہی قیمتی ہے لیکن عزت و حرمت نبی ﷺ سے زیادہ نہیں۔

حکومت بھی خبردار رہے کہ نشتر پارک جیسا ایک اور واقعہ اس ملک کو بارود کے ڈھیر پہ کھڑا کر سکتا ہے۔پہلے بھی بچت اس لئے ہوئی کہ انہی لوگوں کے آباؤ اجداد نے اپنی جانیں د ے کر پاکستان بنایا تھا اور اب بھی یہی اپنی جانیں د ے کر یہی لوگ پاکستان بچانا چاہتے ہیں۔اس لئے کہ اس وقت تو پاکستان خون آشام بھیڑیوں کے پنجوں میں ہے۔ہم نے یہ ملک اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے احکامات کو آزادی کے ساتھ تسلیم کرنے کے لئے حاصل کیا تھا اور ہم انشاﺀ اللہ اس مقصد کے حصول تک اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔
Qalandar Awan
About the Author: Qalandar Awan Read More Articles by Qalandar Awan: 63 Articles with 54628 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.