تذکرہ حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ المتوفی 761ھ سگر شریف

(بضمن یوم وصال ماہ جمادی الاولیٰ)

سگر شریف دکن میں روحانیت کا ایک مرکز ،دکن میں پرچم اسلام کو بلند کرنے والا نصرت آباد ہر دور میں اپنی انفرادیت رکھنے والا گوہر جس کی گود میں بے شمار قطب ،ابدال ،مجاہد ،شہداء ،اُمراء ،واہل ذوق آرام کررہے ہیں ۔ ہر دور میں اولیاء کرام نے اس مقام روحانیت کا رُخ کیا جہاں دکن کے اولین مجاہد صوفی حضرت صوفی سرمست اسد الاولیاء ؒ کا آستانہ ہے جو محبوب ہرزمانہ ہے ۔ مستوں کا ایک ٹھکانہ ہے ۔ اور اسی آستانہ کے اطراف نور کے قطاروں میں شہداء آرام کررہے ہیں ۔ انہیں قطاروں میں ایک مزار مبارک اس ہستی کا بھی ہے جسے دنیا تصوف میں خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ کہا جاتا ہے ۔

یہ وہ ذات اقدس ہے جس نے ہند کے پنجتن چشت کے ملفوظات کو قلم بند کیا اور ہمارے لئے رہنمائی کا ایک ورثہ چھوڑا خلد آباد شریف اور سگر شریف یہ دونوں مقام دکن میں اسلام کے مرکز رہے سگر اور خلد آباد کا روحانی تعلق بہت گہرا رہا ہے اکثر اولیاء کاملین کی آمد ورفت رہی ہے ۔ جس میں حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ بھی ایک مضبوط کڑی ہیں ۔ مگر سب سے پہلی کڑی جو سگر شریف اور خلد آباد شریف کو جوڑتی ہے وہ حضرت خواجہ منتجب الدین زرزری زر بخش ؒ کی ذات اقدس ہے ۔ جو جہاد صوفی میں سگر شریف میں موجود تھے اور بعد از معرکہ خلد آباد تشریف لے گئے ۔ اور حضرت عین الدین گنج العلوم ؒ بھی خلد آباد سے سگر شریف تشریف لائے ۔

آج ہم جس ہستی کا تذکرہ کررہے ہیں وہ حضرت حماد الدین کاشانی ؒ کی ذات اقدس ہے آپ کا اصل وطن ملک کاشان آپ کے والد عماد الدین کاشانی ؒ کاشان سے دہلی تشریف لائے اور جب سلطان محمد تغلق نے اپنا پایہ تخت دہلی سے دولت آباد منتقل کیا تو حضرت عماد الدین کاشنانی بھی معہ اہل وعیال دہلی سے دولت آباد منتقل ہوگئے ۔ خواجہ حماد الدین کاشانی اور آپ کے برادران نے دولت آباد میں حضرت خواجہ برھان الدین غریب ؒ سے 732؁ھ میں شرف بیعت حاصل کی اور حضرت کی خدمت میں تادم آخر شیخ رہے ۔

خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ اور آپ کے براداران خواجہ رکن الدین کاشانی ، خواجہ مجددا لدین کاشانی ؒ نے حضرت خواجہ برھان الدین غریب ؒ جو نظام الدین اولیاء ؒ کے بہت ہی محبوب خلفاء میں سے ہیں اور جنہوں نے سب سے پہلے دکن میں تعلیمات خواگان چشت کو پیش کیا اور سلسلہ چشتیہ کی ترویج اور اس کے عروج میں آپ کا کافی حصہ رہا ہے ۔ آپ کے ملفوظات کو ان برادران نے جمع کیا جو دنیا ئے تصوف اور بالخصوص اہل چشت کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ خواجہ رکن الدین کاشانی ؒ نے نفائس النفاس ، شمائل اتقیاء، رموز الوالہین میں حضرت غریب ؒکے ملفوظ کو جمع کیا ۔

مجد دالدین کاشانی ؒ نے غرائب الکرامات ، بقیۃ الغرائب ، اور دیوان عین حیات ، مرتب فرمائے ۔ حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ نے برھان الدین غریب ؒ کے ملفوظات جمع کئے اس کو آپ نے احسن الاقوال سے موسوم کیا ۔ احسن الاقوال میں حضرت غریب ؒ کے ارشادات آپ کے بیان کردہ وظائف اور پیران چشت کے اقوال درج ہیں جو اہل تصوف بالخصوص چشتیوں کے لئے رہنمائی کا ایک اہم سلسلہ ہے ’’نثار احمد فاروقی ‘‘ اپنی کتاب ’’نقد ملفوظات ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ خواجہ نظام الدین اولیاء اور بابا فریدالدین گنج شکر ؒ کے اقوال پر احسن الاقوال ایک اہم اور مستند ماخذ ہے ۔

احسن الاقوال کے قلمی نسخہ علیگڈھ مسلم یونیورسٹی ، سالارجنگ میوزیم حیدرآباد ، اور خلد آباد شریف میں موجود ہیں ۔اور اس کا فارسی سے اردو میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔ اس کا سب سے پہلے ترجمہ ’’عبدالمجید صاحب ‘‘ نے 1342؁ء میں کیا الحمداﷲ ’’احسن الاقوال ‘‘ کے تمام اردو نسخے اور کچھ فارسی نسخوں کی نقل میرے ذاتی کتب خانہ’’کتب خانہ اسد الاولیاء ‘‘ میں جس کو میں نے اپنے جد امجد حضرت صوفی سرمست اسد الاولیاء ؒ سے منسوب کیا ہے موجود ہے اور ان شاء اﷲ اس کا ایک اردو ترجمہ خانقاہ صوفی سرمست ؒ سے شائع ہو یہ میری کوشش ہے اور اﷲ اس میں کامیابی عطا فرمائے ۔ ’’احسن الاقوال ‘‘کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیر وتاریخ وبزرگان چشت کے سوانح کی قدیم کتب میں اکثر احسن الاقوال سے حوالے ملتے اور کئی اہم مورخین نے احسن الاقوال سے روایات نقل کی ہیں ۔ اس کتاب میں کئی ایک اہم مسائل پر گفتگو کی گئی ہے اور اس میں کل 29 باب قائم کئے گئے ہیں جو برھان الدین ؒ کے ملفوظات ہیں ۔ حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ کی ’’احسن الاقوال ‘‘ کے علاوہ اور تین کتب مشہور ہیں ’’نافع المسلمین ‘‘ یہ کتاب فقہہ پر لکھی گئی ہے ۔،اور دو کتب ’’حصول الوصول ، اسرار طریقت ‘‘ یہ کتب طریقت کے اصول پر تحریر کی گئی ہیں ۔ یہ کتب اب دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے نسخوں کا پتہ ہے مگر محققین کی نظر اس پر جمی ہوئی ہے ۔ ان کتب کے علاوہ ایک اور رسالہ مراۃ المحققین بھی حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ کی طرف منسوب ہے ۔ جس کا ترجمہ ’’شبیب انور کاکوری ‘‘نے کیا جس کا ذکر انور خلد کی منصفہ نے کیا ہے ۔ وہ لکھتیں ہیں کہ یہ رسالہ خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ کی تصنیف ہے جس میں کل 51صفحات ہیں اور ہر صفحہ پر دس سطریں ہیں جس میں خالص صوفیانہ انداز میں حقائق ومعارف بیان کئے گئے ہیں ۔ مزید آپ لکھتی ہیں کہ خود خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ نے اس رسالہ میں فرمایا کہ یہ رسالہ معرفت ، خداشناسی اور عجائب قدرت کے بیان میں لکھا گیا ہے اس لئے میں اس کا نام مراۃ المحققین رکھا ہے ۔ مراۃ کا مطلب آئینہ اور جب کوئی خوش عقیدہ آدمی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس میں خود کو دیکھا گا ۔ اور خود سے خدا شناسی تک پہنچ سکے گا ۔ (من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ) جس نے خود کو پہنچانا اُس نے رب کو پہنچانا ۔ چنانچہ خواجہ حماد الدین کاشانی کی کتب کی تعداد پانچ (5) ہوتی ہیں ۔ (۱) احسن الاقوال (۲) حصول الوصول (۳) اسرار طریقت (۴) نافع المسلمین (۵) مراۃ المحققین

سگر شریف میں آمد :
آپ کی آمد سگر شریف میں 738؁ھ کے بعد ہوئی جب خواجہ برھان الدین غریب ؒ کا وصال ہوا یہ وہ دور تھا جب اکثر اولیاء کاملین کاآمد ورفت سگر شریف اور خلد آباد شریف کے درمیان رہی خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ جب سگر شریف تشریف لائے تو اس وقت جید علماء کرام وہاں موجود تھے روایت ہے کہ خواجہ حماد الدین خانقاہ حضرت صوفی سرمست ؒمیں لنگر خانقاہ کے مہتمم رہے اور آپ ہی کے زیر نگرانی تما م لنگر کے انتظامات ہوتے رہے ۔اور آج بھی یہ روایت باقی ہے کہ درگاہ شریف میں دوران عرس حضرت صوفی سرمست ؒ لنگر آپ ہی کی بارگاہ کے قریب تیار ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عرس شریف کا بھنڈار جو خانوادہ حضرت صوفی سرمست ؒ میں تقسیم ہوتا تھا وہ آپ ہی کی گنبد میں ہوتا تھا ۔ ’’رسالہ انوار سرمست ‘‘ جس میں حضرت صوفی سرمست ؒ کے حالات درج ہیں جو حضرت سید شاہ سرج الدین سرمست صاحب قبلہ سجادہ نشین بارگاہ صوفی سرمست ؒ کے قلمی بیاض سے نقل کئے گئے تھے جس کو حضرت نے قلمی مخطوطات جو سجادگان سگر کے پاس موجود تھے سے اخذ کیا تھا ۔ اس میں آپ نے حضرت حماد الدین کاشانی ؒ کے تعلق سے لکھا ہے کہ آپ نے حضرت صوفی سرمست ؒ سے حالت کشف میں دریافت فرمایا اس کربلا ئے ثانی میں قبو ر کی تعداد کتنی ہے تو حضرت صوفی سرمست ؒ نے فرمایا کہ ایک قطب کا اس سرزمین پر سے گذر ہوگا جو دہلی سے آئیگا اس کی آمد سے تعداد قبور کا پتہ چلے گا تو جب خواجہ بندہ ؒ دہلی سے دکن تشریف لائے تو آپ نے بغرض زیارت سگر شریف تشریف لائے تو آپ کے ہمراہ سات بنڈی پھول تھے اور آ پ ہر مزار پر دو پھول پیش کرتے اور زیارت فرماتے اس سے تعداد قبور کا اشارہ ملتا ہے ۔

حضرت حماد الدین کاشانی ؒ کی آمد سگر شریف میں یہ مان لی جائے کہ برھان الدین غریب ؒ کے وصال کے بعد تشریف لائے تو آپ کا عرصہ قیام 20سال کے قریب ہوتا ہے ۔ مترجم ’’روضۃ الالیاء خلد آباد‘‘ عبد المجیدصاحب خلدآبادی لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ بحکم پیر ومرشد بعد وفات پیر ومرشد سگر شریف تشریف لے گئے مولانا عبد المجید بقیۃ الغرئب کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی نے جب سگر شریف سے روضہ شریف (خلد آباد شریف ) حضرت برھان الدین غریب کی زیارت کا ارادہ کیا تو خواجہ مجدد الدین کاشانی ؒ نے آپ کے ہمراہ ایک غلاف روانہ کی جب خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ روضہ شریف پہنچے اور زیارت کے لئے اندر تشریف لے گئے تو غلاف مبارک سامان میں بھول گئے روضہ مبارک سے آواز آئی جو غلاف لائے تھے پیش کرو فورا غلاف لے کر حاضر ہوئے اور پھر آواز آئی جو جو مطالب ہوں لکھ کر لاؤ تو آپ فرماتے ہیں کہ کل آٹھ مطالبات پیش کئے جو سب تھوڑی دیر بعد پورے ہوئے ۔ اس سے اولیاء کاملین کا اختیار بعد از وصال ثابت ہوتا ہے اور مریدین کا پیران طریقت کی قبر مبارک سے فیض حاصل کرنے کا بھی جوا ز ملتا ہے ۔ عبد المجید صاحب اپنے ترجمہ میں لکھتے ہیں حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ نے بارہ 12؍جمادی الاولیٰ 761؁ھ کو وفات پائی مزید آپ نے لکھتے ہیں کہ وہ خود بھی سگر شریف کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں آپ کی آمد غالبً 1920 ؁ء کے قریب کی ہے اس وقت حضرت سید شاہ سراج الدین سرمست صاحب قبلہ مسند سجادگی پر فائز تھے ۔ حضرت خواجہ حماد الدین کاشانی ؒ کی وفات دوران محفل سماع اس شعر پر
اے اجل آن قدر صبر کن امروز کہ من
لذتے گیرم از آن زخم کہ برجانم زد

اس پر آپ رات بھر حالت جذب میں رہے اور صبح کی اولین ساعتوں میں اس دنیا سے رخصت ہوئے بعد وفات آپ کے برادر خواجہ مجدد الدین کاشانی ؒ دیکھا کہ آپ تبسم فرمارہے ہیں یہ دیکھ کر مجدد الدین کاشانی ؒ نے چیخ ماری اور کہا کہ خواجہ حماد زندہ ہوگئے ۔ وہاں پر موجود خواجہ قوام الدینؒ نے فرمایا مولانا مردان خدا زندہ ہی رہتے ہیں ۔ اور جب آپ کا جنازہ تدفین کے لئے لے جایا جارہاتھا تو وہاں پر موجود تمام سادات کرام مشائخین علماء اور عوام کا ایک کثیر مجمع تھا اور ہر فرد آپ کو کاندھا دینا چاہتا تھا تو آپ کا جنازہ معلق ہوا میں چلتا یہ دیکھ کر کئی کفار نے اسلام قبول کیا بالآخر آپ کو حضرت صوفی سرمست ؒ کے آستانہ میں جانب جنوب سپرد لحد کردیا گیا ۔ بعد میں سلاطین بہمنیہ کے دور میں آپ کے مزار مبارک پر گنبد تعمیر کروایا گیا۔
الٰہی تابود خورشید و ماہی
چراغِ چشتیاں راروشنائی
 

Mujeeb Sarmast
About the Author: Mujeeb Sarmast Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.