شہادت کی موت خوش نصیبوں کو ملتی ہے

حضرت خالد بن ولید ؓ کے نام سے تو ہر مسلمان آشنا ہے ۔بہادری اور جنگی حکمت عملی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ان کی قیادت میں مسلمان مجاہدین نے بے شمار فتوحات حاصل کیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ جنگوں کی تاریخ میں کامیابی کی علامت بن کے سامنے آئے ۔ جب وہ عمررسیدہ ہو کر بیمار ہوئے تو کچھ لوگ ان کی عیادت کے لیے آئے اور گفتگو کے دوران کہا اے خالد بن ولید ‘دنیا میں آپ جیسا بہادر نہیں دیکھا ‘آپ کانام سنتے ہی کفار کے لشکر میں تھرتھلی مچ جایا کرتی تھی ۔ دنیا میں آپ جیسا بہادر ‘ خوش نصیب بھی کوئی اور ہوگا ؟حضرت خالد بن ولید ؓ نے جواب دیا مجھ سے میری تمام فتوحا ت لے لو لیکن مجھے شہادت کی موت دے دو ۔ تمام تر کوشش کے باوجود میں شہادت کا مرتبہ حاصل نہیں کرسکا ۔ حقیقی معنوں میں خوش نصیب وہ ہے جس کو اﷲ شہادت کے مرتبے پر فائز کرتا ہے ۔

کرنل (ر) سردار عبدالرؤف خاں مگسی پاک فوج کے عظیم مجاہد ہیں ان کا تعلق بلوچ قبیلے "مگسی"سے ہے ۔انہوں نے پاک فوج کی ‘ 40 بلوچ رجمنٹ کی کمانڈبھی کی اور کنٹرول لائن پر آپ فرنٹ لائن پر لڑتے رہے لیکن خواہش کے باوجود آپ کو شہادت کی موت نہ مل سکی ۔1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگوں میں بھی سینہ تان کر اگلے مورچوں میں لڑتے رہے ‘ ان پر دشمن گولہ باری کرتے رہے ‘ دشمن کے جہاز بم گراتے رہے لیکن قدرت انہیں ہر موقع پر محفوظ رکھتی رہی ۔ وہ غازی کی حیثیت سے فوج سے ریٹائر ہوئے ۔ لیکن ان کے فرزند کیپٹن علی رؤف مگسی فوج میں شامل ہونے کے چند سال بعد ہی جام شہادت نوش کرکے اپنے والد پر سبقت حاصل کرگئے ۔ جب کیپٹن علی کا تابوت گھر پہنچا تو کرنل (ر) مگسی کی آنکھوں میں بیٹے کی جدائی کے آنسو تو تھے لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے آنسو پونچھ ڈالے کہ کیپٹن علی ‘شہادت کی جس موت کی تمنا میں نے کی تھی وہ اعزاز تم نے حاصل کرلیا ۔ تمہیں مبارک ہو۔

میجر شفقت بلوچ ‘ جنہیں محافظ لاہور کا اعزاز ہے انہوں نے صرف 110جوانوں کے ساتھ 1965ء کی جنگ کے دوران نہ صرف بھارتی فوج کے ایک بریگیڈکا حملہ پسپا کیا بلکہ حملہ آور بریگیڈ کو مکمل طور پر تباہ کرکے واپسی کا راستہ دکھادیا ۔ وہ ہڈیارہ ڈرین کے مغربی کنارے پر کھڑے ہوکر لاہور کی جانب بڑھتے ہوئے دشمن کی فوج اور ٹینکوں پر گولہ باری کرواتے رہے لیکن دشمن کا کوئی گولہ ان تک نہ پہنچ سکا اور وہ زندہ سلامت واپس لوٹے ۔1971ء کی جنگ میں بھی انہوں نے بھارتی فوج کا ناطقہ بند کیے رکھا وہ بھارت کے لیے خوف کی علامت بنے رہے ۔ لیکن بھی فرنٹ لائن پر لڑنے کے باوجود انہیں شہادت کی موت نہ ملی اور وہ طبعی موت دنیا سے رخصت ہوئے ۔

بریگیڈئر نصر ت سیال شہید کا ذکر معرکہ کارگل کے شہیدوں میں آتا ہے ‘ یہ شہادت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ کیپٹن انعام اﷲ ‘ کارگل کے محاذ پر داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے ۔شہید کی میت جب سکردو پہنچی تو فضا میں اتنی خوشبو پھیلی کہ ہر شخص اس خوشبو کو محسوس کرسکتا تھا ‘نما ز جنازہ میں دیگر فوجی افسران کے علاوہ بریگیڈئر نصرت سیال بھی شریک تھے ‘ جب امام نماز جنازہ پڑھاکر فارغ ہوئے تو بریگیڈئر نصر ت سیال نے امام صاحب سے دعا کروائی کہ اﷲ تعالی انہیں بھی ایسی ہی عظیم موت عطا فرمائے ۔ جب امام دعا کررہے تھے تو آمین کہنے والوں میں بریگیڈئر نصرت سیال بھی شامل تھے ۔ اس واقعے کے چند دن بعد ہی بریگیڈئر نصرت سیال کو گلتری سیکٹر میں ایک اہم میٹنگ کے لیے جانا پڑا ۔واپسی پر موسم سخت خراب ہوگیا ۔میجر شیر افگن نے بریگیڈئر صاحب کو بتایا کہ خراب موسم کی وجہ سے اگر آپ گل تری میں ہی رک جائیں توبہتر ہوگا لیکن بریگیڈئر نصر ت سیال نے خراب موسم کی پروا نہ کی اور گل تری سے بذریعہ ہیلی کاپٹر سکردو کے لیے روانہ ہوگئے ۔ یہ ہیلی کاپٹر میجر محمد حنیف چلا رہے تھے ‘ ابھی سکردو بہت دور تھا کہ ہیلی کاپٹر بلند و بالا پہاڑیوں سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا ۔ہیلی کاپٹر کے پائلٹ میجر محمد حنیف اور بریگیڈئر نصرت سیال موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔ اس طرح وہ دعا قبول ہوئی جو بریگیڈئر نصرت سیال نے کیپٹن انعام اﷲ شہید کے جنازے پر امام صاحب سے کروائی تھی ۔ بعد از شہادت آپ کو ستارہ بسالت سے نواز اگیا ۔

اسی طرح بریگیڈئر مسعود انوری شہید کا واقعہ ان کی اہلیہ کی زبانی سنیئے ۔ بیگم کہتی ہیں یہ 26جولائی 1992ء کی بات ہے ہم دونوں گھر میں چائے پی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی ۔بریگیڈئر انوری نے فون اٹنڈکیا ‘ وہ یکدم غصے میں آگئے میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بھارتی فوج کی گولہ باری سے ہمارا ایک جون زخمی ہوگیا ہے پھر بریگیڈئر انور ی نے مخاطب کو حکم دیا کہ جہاں بھی بھارتی فوجی نظر آئے بھون کے رکھ دو ۔ اس لمحے ان کا چہرہ سرخ تھا اور یہ سرخی ان کی آنکھوں میں بھی دیکھی جاسکتی تھی ۔وہ رات بھر جاگتے رہے ‘ وہ یہ کہہ کر اپنے بیڈ روم میں چلے گئے کہ دس منٹ بعد انہیں بیدار کردیاجائے ۔ میں گھر کے کام میں ایسی مصروف ہوئی کہ پندرہ منٹ بعد یاد آیا‘ جب میں بیدار کرنے کے لیے ان کے بیڈروم میں گئی۔ سارا ماحول ہی تبدیل ہوچکا تھا قالین اور پردوں کا رنگ سرخ دکھائی دیا ۔بریگیڈئر صاحب اپنے بیڈسے اچھل کر یکدم کھڑے ہوگئے ‘ خوشی سے ان کا چہرہ تمتا رہا تھا وہ مجھ سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے میں بہت خوش قسمت ہوں جو اﷲ تعالی نے مجھے شہادت کی موت دینا قبول کرلیا ہے ۔وہ یہ فقرہ بار بار دھرا رہے تھے ۔یوں محسوس ہورہا تھا جیسے انہوں نے جنت کا کوئی منظر دیکھ لیا ہے ۔اسی دن ان کو اپنی شہادت کا یقین ہوچکا تھا ۔ یہ یکم اگست 1992ء کا دن تھا جب بریگیڈئر مسعود انوری شہید کو ایک اہم مشن کی تکمیل کے لیے سیاچن جانا پڑا ۔وہاں بھارتی فوج زبردست گولہ باری کرکے ایڈوانس کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔ بریگیڈئر مسعود انوری ‘ پاک فوج کے دیگر افسروں اور جوانوں کے ہمراہ بھارتی حملے کور وکنے کے لیے فرنٹ لائن پر جا پہنچے ‘ جہاں کئی گھنٹے تک مقابلہ جاری رہا۔ جب وہ ہیلی کاپٹر پر سوار ہوکر بیس کیمپ واپس آرہے تھے تو ان کا ہیلی کاپٹر دشمن کی گولہ باری کی زد میں آکر تباہ ہوگیا جس سے آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔۔اس طرح وہ خواب عملی شکل اختیار کرگیا جسے انہوں نے کچھ عرصہ پہلے یکھا تھا ۔ حکومت پاکستان نے ان کو بعد از شہادت ستارہ جرات سے نوازا ۔

یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ شہادت کی موت کی تمنا تو ہر مسلمان کرتا ہے لیکن یہ اعزاز کسی کسی کوہی نصیب ہوتا ہے ۔ یہ 9 مئی 2009 ء ہفتے کی صبح کی بات ہے میں نماز تہجد ٗ صلوہ تسبیح اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد لبرٹی پارک واک کے لیے چلا گیا ۔ واک کے بعد واپس گھر آیا تو بنک جانے سے پہلے ایک گھنٹہ مجھے آرام کرنے کا موقع مل گیا ٗ یہ میرا روز کا معمول تھا ۔ سورہ یسین اور سورہ الرحمن کی تلاوت کرنے کے بعد جب میں کچھ دیرسستانے کے لئے بستر پر دراز ہوا تو خواب کی حالت میں ‘ میں ایک ایسے ماحول میں جا پہنچا جہاں چار پانچ مسلح دہشت گرد‘ چند لوگوں کو یرغمال بنا کر اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے لوگ فائرنگ کی زد میں آکر شہید ہورہے تھے۔یہ حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ وہاں موجود کوئی شخص بھی مزاحمت کے لیے آگے نہ بڑھ سکا ۔ مرنے والوں کی لاشیں زمین پر بکھر ی پڑی تھیں ۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر میں آگے بڑھا اور ایک دہشت گرد کو قابو میں کرکے اس کی سٹین گن چھیننے کی کوشش کی۔ اس نے مجھ پر بھی فائر کردیا ‘ گولی میرے دائیں جانب چھاتی میں پیوست ہوتی ہوئی صاف دکھائی دی لیکن دھینا مستی کے دوران میں سٹین گن چھیننے میں کامیاب ہوگیا پھر اﷲ اکبر کا نعرہ لگاکر اسی سٹین گن سے چار دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا پھر میں خود بھی زمین پر گر پڑااور شہادت کا جام پی لیا ۔جمع ہونے والے لوگ میری بہادری کی تعریف کررہے تھے اور میں اپنی نعش کے قریب ہی موجود تھا ‘ میں لوگوں کو دکھائی نہیں دے رہاتھا لیکن میں سب کو باتیں کرتے دیکھ اور سن بھی رہا تھا ۔

حیرت کی بات تو یہ تھی کہ نہ مجھے گولی لگنے سے درد ہوا اور نہ ہوئی روح جسم سے نکلنے کی تکلیف ہوئی ۔ اس لمحے میری زبان پرکلمہ طیبہ تھا ۔

خواب ختم ہوتے ہی میں اﷲ اکبر کا نعرہ لگا کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس دنیا میں آگیا۔ میری زبان سے مسلسل کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت جاری تھا۔قریب ہی صوفے پر میری اہلیہ بھی سو رہی تھی ‘ میری آواز سن کر وہ بھی بیدار ہوگئی ۔ مجھ پر روحانیت کا غلبہ طاری تھا اور میں اسی وقت شہادت قبول کرنے کو تیار تھا ۔ میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے اور بار بار اﷲ تعالی کا شکرادا کررہا تھاجس نے شہادت حاصل کرنے کی میری اولین دعا قبول فرما لی تھی۔ جب اس واقعے کی تفصیل میں نے اپنی بیگم کو بتائی تو وہ بھی مجھے مبارک دینے لگی ۔حدیث میں ہے کہ شہید کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں بلکہ سبز پرندوں میں روح ڈال کر جنت میں داخل کردیا جاتا ہے زندگی اور موت کے وہ تمام مراحل اس قدر آسان ہوجاتے ہیں کہ شہادت حاصل کرنے والا خود کو دنیا کا سب سے زیادہ خوش قسمت انسان تصورکرتا ہے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ شہدا کی کہانیاں لکھتے اور شہداء کی قبروں پر فاتحہ کرتے ہوئے ہمیشہ یہی دعامانگتا رہاہوں کہ پروردگار جب بھی موت دینا عظمت اور ایمان کی حالت میں شہادت کی موت دینا ۔ میں بستر پر لیٹ کر نہیں مرنا چاہتا ۔وطن اور اسلام کے دشمنوں سے لڑتے اور انہیں جہنم واصل کرتے ہوئے اگرمجھے شہادت مل جائے تو اس سے بڑی خوش قسمتی اورکیاہوسکتی ہے ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد کیفیت بدل گئی اورماحول بھی تبدیل ہوگیا۔ لیکن اس خواب کا اثر بہت دنوں تک مجھ پر طاری رہا۔ یقین کامل ہے کہ میرا مجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا؟ ان شاء اﷲ

یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری زندگی میں ایک اور واقعہ رونماہوا جس لمحے میں موت سے بچ نکلا ۔ یہ8 نومبر 2008 ء کی شام مجھے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے ( شاہدرہ )بیگم کوٹ کی شمع کالونی میں جانا تھا ۔ میرا یہ معمول رہا ہے کہ گھر سے نکلتے وقت باوضو ہوکر آیت الکرسی پڑھتے ہوئے سفر کا آغاز کرتاہوں ۔اس روز بھی نماز عصر اداکرنے کے بعد میں بیگم کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوا ۔ جب میں شیخوپورہ روڈ پر پہنچا تو ایک جگہ ٹھہر کر میں نے بیگم روڈ پر واقع شمع کالونی کا ایڈریس پوچھا ۔شاید وہیں سے ہمارے تعاقب میں کوئی شخص لگ گیا۔ ابھی میں شادی والے گھر کے قریب موٹرسائیکل کھڑی کر ہی رہاتھا کہ ایک اجنبی نوجوان ہاتھ میں پستو ل لیے ہماری جانب بڑھا - قریب آکر اس نے بیگم کو حکم دیا کہ زیورات اتار کر میرے حوالے کردو ۔وگرنہ میں گولی مار دوں گا۔ یہ سب کچھ اس قدر اچانک ہوا کہ میں بھی سکتے میں آگیا ۔ ساڑھے چھ بجے شام کا وقت ہوگا کچھ اور لوگ ابھی گلی میں موجود تھے ۔ جب وہ ہاتھ میں پستول لیے بیگم کی جانب بڑھک تو بیگم چیختی ہوئی میری جانب بڑھی ۔اب وہ میرے بالکل سامنے پستول تانے کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اگر زیورا ت میرے حوالے نہ کیے توگولی مار دوں گا۔ اس لمحے اﷲ تعالی نے مجھے ہمت دی ‘میری زبان سے یہ الفاظ بے ساختہ ادا ہوئے۔ اگر میری موت تیرے ہی ہاتھ سے لکھی ہے تو تم مجھے گولی مار دو ۔ میں ہاتھ میں ہلمٹ پکڑے اس کی جانب سے بڑھنے لگا تو اﷲ تعالی نے آیت الکرسی کی وجہ سے اس کے دل میں خوف پیدا کردیا۔ وہ پستول تانے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا ۔ امکان تھا کہ کسی بھی وقت وہ فائر کردے گا - پستول کا رخ چونکہ میری طرف تھا اس لئے میں موت کو میں انتہائی قریب محسوس کررہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اے اﷲ میں نے تم سے شہادت کی موت مانگی ہے اس چور سے تو مجھے نہ مروا ۔ ابھی میں اسے پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ اچانک موڑااور موٹرسائیکل سٹارٹ کرکے نظروں سے اوجھل ہوگیا - چند منٹوں پر مشتمل یہ واردات اتنی حیرت انگیز اور اعصاب شکن تھی کہ بہت دیر تک ہم سکتے کے عالم میں اسی جگہ کھڑے رہے ۔ کہ یہ کیسے ہوگیا اور اگروہ واقعی گولی ماردیتا تو کیاہوتا ۔بے شک زندگی اور موت اﷲ ہی کی جانب سے ہے ۔

میں اب بھی نماز تہجد کے بعد دعا میں شہادت کی موت ہی طلب کرتا ہوں ‘ میری دعا ان الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اے اﷲ میں تجھ سے تیری رحمت ‘ تیرے فضل اور تیری پناہ کا طلب گار ہوں ‘مجھے آگ کی موت سے محفوظ رکھ ‘ جب بھی موت دینا شہادت کی موت دینا ‘ آسانی موت دینا اور جان کنی کی تکلیف کے بغیر موت دینا ۔ اے اﷲ مجھے عذاب قبر سے ‘عذاب جہنم سے اور آخرت کے خوف سے محفوظ رکھنا ۔ آمین یا رب للعالمین ۔ مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالی مجھے مایوس نہیں کرے گا ۔ ان شاء اﷲ
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663385 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.