سچ کا شہید اول

ایتھنز (athens) یونان کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر اور جمہوریت کی جائے پیدائش ہے۔ شہر کا نام یونانی دیومالا میں ایتھنے(آتھینا) دیوی کے نام پر رکھا گیا ہے یونان کا اقتصادی، تجارتی، صنعتی، ثقافتی اور سیاسی قلب سمجھا جاتاہے۔ یہ شہر ایتنھز کا پارتھینون ہے یہاں اڑھائی ہزار سال پہلے ذہانت اور طاقت کی دیوی اتھنا کا مجسمہ ہوا کرتا تھا اس دیوی کے سامنے دل وان کا پورا شہر آباد تھادیوتا کے سامنے ایک سنگ تراشی رہتا تھا سنگ تراش کا ایک چھوٹا بیٹا تھا وہ بیٹا دیوی کو دیکھتا اور سوچتا ایک مجسمہ شہر کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے یہ سوال اسے زہر کے پیالے تک لے گیا یہ چھوٹا لڑکا سچ کا شہید اول سقراط تھا وہ لڑکا بعد میں ذہین ترین انسان کی انتہا نہ دکھائی دی سقراط جب بچہ تھا تو اس کے والد مختلف اوزار سے پھتر کو تراشتے ہوئے شیر کی شکل بنا لیتا تووہ حیران ہوتا ایک پتھر میں سے اتنی خوبصورت شیر کی شکل کیسے نکل آتی ہے ایک دن اس نے اپنے باپ سے پوچھ لیا کہ آپ کو کیسے اندازہ ہوتا ہے کہ کون سے اوزار کے ساتھ اتنی چوٹ لگانی ہے اور کہاں کتنا تراشنا ہے کہ وہ جگہ ایک مخصوص شکل میں گلتی چلی جائے باپ مصروف تھا اسے ٹالنا چاہا اور کہا بڑے ہو جاؤ گے تو سب کچھ سکھا دونگا لیکن سقراط کو جلدی تھی کہ وہ بڑا ہونے تک جواب کا انتظار نہیں کر سکتا تھا مجھے ابھی سمجھناہے تو باپ مجبور ہوکر بتانا شروع کیا سب سے پہلے تو میں شیرکوپتھر کے اندر دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ محسوس کرناہے کہ شیر پتھر کے اندر قید ہے کہ ہم نے اسے آزاد کرانا ہے پس اتنا ہی یقین کے ساتھ تراشنا شروع کریں تو معلوم ہوگا کہ کہاں اور کس اوزار کے ساتھ اتنی چھوٹ لگانی ہے کہ شیر آزاد ہو کر باہر نکل آئے سقراط کا باپ ایک سنگ تراش تو تھا لیکن اس کی ماں بھی مڈوائف تھی دوسرے دن سقراط نے اپنی ماں سے بھی سوال پوچھا ماں تو اپنا کام کیسے کرتی ہے ماں نے جواب دیا میں تو کچھ بھی نہیں کرتی میں تو بچے کو آزاد کروانے میں ماں کی مدد کرتی ہوں تو سقراط کچھ سمجھتا کچھ نہ سمجھتا اگے بڑھا لیکن سقراط والدین کے جوابوں سے اتنا تو بچپن ہی میں سمجھ گیا تھا کہ چیزیں اصل میں چھپی ہوئی ہے یعنی پوشیدہ ہے یہ ہم ہی ہیں کہ اسے آزاد کروانا چاہئے تو کروالیں ورنہ وہ ہمیشہ لاعلمی کے گہرے پردوں میں چھپے رہتے ہیں رات ہوتی تو سقراط کی ماں اسے باقی گاؤں کی ماوؤں طرح اسے دیوی اور دیوتاؤں کی کہانیاں سناتی تھی سقراط کو سوال کرنے کی عادت تھی ان پر بھی سوال اٹھا دیتا لیکن سقراط کی ماں اسے چپ کرا دیتی اور کہتے کہ دیوی اور دیوتاؤں کے بارے میں سوال نہیں اٹھاتے لیکن سقراط کا مجسم سوال تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر دیوی دیوتا اتنے بڑے عظیم الشان اور بڑے رتبے ہونے والے لوگ ہیں تو پھر وہ عام انسانوں کی طرح نفرت کیوں کرتے ہیں حسد اور غصہ کیوں کرتے ہیں ایک دوسرے سے لڑتے کیوں ہیں انسانوں کو سزائیں کیوں دیتے ہیں اور عذاب کیوں نازل کرتے ہیں وہ سوچتا تھا لیکن اسے جواب نہیں ملتے تھے وہ پوچھنا چاہتا تھا لیکن وہاں ایسے سوال پوچھنا مصیبت کو دعوت دینا تھا سوالوں کے جواب نہیں ملتا تھا اس کی باتوں کا کوئی خاص توجہ نہیں دیتے تھے چونکہ دیگر یونانیوں کے برعکس بد شکل تھا اسلئے اس کے ہم جولی اسے تنگ کرنے کے لئے عجیب ناموں سے پکارتے تھے تو وہاں بہت چڑتا تھا بدشکل ہونے کے ساتھ ساتھ قد بھی بہت چھوٹا تھا وہ سوچتا تھا کہ کچھ لوگ خوش شکل اور کچھ بد شکل کیوں ہوتے ہیں وہ اپنا سوال ذہن میں لئے محلے کے کمار کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور چاک پر مٹی کے تودے کو خاص شکل میں نکلتا ہوا دیکھتا سقراط نےیہی سوال کھمار سے بھی پوچھا تمھارے برتن زیادہ خوبصورت کیوں ہوتے ہیں گھمار تو اور بھی ہیں لیکن وہ کون سی بات ہے جو تمہارے برتنوں کو باقیوں سے زیادہ حسین بناتی ہے گھمار نے جواب دیا مجھے زیادہ تو نہیں پتا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک اچھا اور خرابی سے پاک برتن حسین ہوتا ہے اور سقراط کچھ کچھ سمجھنے لگا تھا کہ جس طرح خوبصورت موتیاں پتھروں سے نکل آتی ہیں اور مٹی کے تودے سے خوبصورت برتن بن جاتے ہیں اسی طرح میرے سوالوں کے جواب بھی کبھی نامعلوم پردوں سے نکل ہی آئینگے سقراط جب کچھ بڑا ہوا تو خاندانی رواج کے مطابق اسے بھی اپنا خاندانی پیشہ اپنانا تھا لیکن جلد ہی باپ کو اندازہ ہو گیا کہ سقراط ایک اچھا سنگ تراش نہیں بن سکتا لیکن اس کی وجہ کام چوری نہیں بلکہ کچھ اور تھے وجہ یہ تھی کہ قدرت سقراط کو انسانوں کو سمجھنے مہارت دے رکھی تھی پتھروں کی نہیں دوسرے اسکو کام سے زیادہ گاہکوں میں دلچسپی ہوتی تھی سقراط گاہکوں کو کچھ بیچنے کی بجائے ان کے ساتھ لمبی گفتگو کرنے لگ جاتا تھا سقراط کا زمانہ وہ تھا ایتنھز کی شہرت دنیا بھر میں پھیل چکی تھی ایتھنز دنیا کا واحد شہر تھا جہاں جمہوریت تھی ڈیموکریسی تھی اس طرح کی نہیں ہے جیسی آج کل یہاں ہیں لیکن جمہوریت کی ابتدائی شکل وہاں رائج تھی جس میں صرف مرد حضرات کو ووٹ کاسٹ کر سکتے تھے اور اہم فیصلے حتی کہ عدالتی فیصلے بھی ووٹنگ سے ہوتے تھے ڈیموکریسی ایتھنز والوں کی ایجاد ہے اور انہیں اس پر بہت فخر تھا اس زمانے میں عالم کے بحری جہاز ایتھنز کےساحلوں پر لنگر انداز ہوتے لوک ایتھنز کے بازاروں میں عقل دنگ رکھنے والے مجسمے دیکھتے جادوگروں کی جادو دیکھتے اہل ہنر کا ہنر دیکھتے اور نئے نئے علوم سیکھتے اور انہیں اس پر بہت فخر تھا اس زمانے میں ایک عالم کے بحری جہاز ایتھنز کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوتے لوگ ایتھنز کے بازاروں میں پتھروں کے عقل دنگ کردینے والے مجسمے دیکھتے جادوگروں کے اندر دیکھتے اور نئے نئے علوم سیکھ لیں لیکن سقراط کا فن ہی نرالا تھا ملنے والوں سے ایک کے بعد ایک سوال کرتا چلا جاتا وہ سوال سے سوال نکالتا کوئی فرد کسی چیز کے بارے میں یقین سے کچھ کہتا تو سقراط پوچھتا تمہیں کیسے پتا ہے کہ جو تم کہہ رہے ہو وہ درست ہے جواب کچھ ملتا تو پھر پوچھتا اس کے مخالف کوئی بات درست کیوں نہیں ہو سکتی اور یوں وہ سلسلہ دراز کرتا چلا جاتا تو ہر سوال کے جواب میں ایک اور سوال کر دیتا حتّیٰ کہ اس کا مخاطب لاجواب اور پریشان ہو جاتا ہے کچھ لوگ جان بوجھ کر اس سے سوال کرتے ہیں کہ سقراط کے سوال کیا سوال بنا دیتا لوگ اسے شبہ بازی سمجھتے اور پسند کرتے ہیں یہ وہ وقت تھا جب سقراط کے شہروں میں پھیلنے لگی تھی ایتنھز کے زندگی دیوتاوں کا بڑا عمل دخل تھا ذہنوں میں سنی سنائی کہانیاں تھی دیویتاوؤں کے متعلق کوئی منفی بات سننے کو تیار نہ تھا جب سقراط اس کے متعلق کوئی سوال کرتا تو لوگ اس کو جواب میں سنی سنائی کہانی سنا دیتے لیکن اس پر سوال انہیں ناگوار گزرتا تھا یونانیوں کے زیادہ تر دیوتا آسمانوں میں رہتے تھے ان میں سے سورج کا دیوتا اپا لون آپالو تھاجوپیٹرسب سے بڑا دیوتا تھا اور چاند کی دیوی صیلینی کہلاتی تھی لیکن ایک دن ایک اور یونانی نے ایتھنز اور سقراط دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہوا یہ کہ ایک دن سقراط اپنے باپ کے ساتھ ایک بڑے مندر کی تعمیر میں مدد کر رہا تھا کہ شہر کے معزز سیاستدانوں کے ساتھ ایک شخص ایا یہ شخص برسوں سے آسمان اور آسمان پر بکھرے چاند ستاروں کا مشاہدہ کر رہا تھا یہ فیساغورث تھا اور کہتا تھا کہ آسمان پر کوئی دیوی دیوتا نہیں رہتے یہ سورج ستارے اور چاند پر پتھر ہے پھتر بلکہ لوگوچاند کی تو روشنی بھی اپنی نہیں یہ چمکنے کے لیے سورج کا محتاج ہے چاند پر گھاٹیاں ہے پہاڑ ہے اور ہوسکتا ہے انسان بھی رہتےہو اڑھائی ہزار سال پہلے دور سائنسی آلات کے بغیر یہ سب معلوم کرنا غیر معمولی بات تھی اور اس کی کائنات کے متعلق نئے انکشفات کی وجہ سے لوگ اس کے خلاف ہو گئے سقراط کو عقلمند آدمی سمجھتے ہوئے مندر کے پروہوت نے اس سے پوچھا کیا تم بھی سمجھتے ہو کہ سورج کو ئی دیوتا نہیں بلکہ دھات کا ٹکڑا ہے پروہوت کاخیال تھا سقراط فیثاغورث کی مخالفت کرے گا لیکن سقراط نے اس کی مخالفت نہیں بلکہ کہا کہ اسے غلط قرار دینے کے لئے میرے پاس کوئی دلیل نہیں اور اسی طرح اسے درست قرار دینے کے لئے بھی کوئی دلیل نہیں میں ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا پروہت اور اس کے دیگر مذہبی ساتھی اس اس جماعت پر بگڑ گئے اس میں نتیجے پر پہنچنے والی کیا بات ہے کیا ہمارے سارے بزرگ چھوٹے تھے کہ ہمارے دیوتا جھوٹے ہیں مجھے تو ان میں دیوتاؤں کے خلاف لکتے ہیں یہی وہ گفتگو تھی جس کے بعد ایتھنز میں سقراط کے مخالفین پیدا ہونے لگیں اسی دوران فیثاغورث کو ایتھنز کی عدالت میں بلالیا گیا اس پر الحاد یعنی کفر لا مقدمہ چلا جس کی پاداش میں اسے موت یا شہر چھوڑنے میں سے ایک سزا دی جانی تھی جیوری میں کچھ لوگ اس کے چاہنے والے بھی تھے جنھوں نے اسے موت کی سزا سے بچا لیا اور شہر سے نکل جانے کا حکم دیا یوں ایک ماہر فلکیات مشکل سے اپنی جان بچا کر اپنے ملک چلا گیا لیکن سقراط تو ہمیشہ کے لیے بدل گیا اور سوچنے لگا کہ سچ تک پہنچنے کے لئے صرف سوالات ہی کافی نہیں اس کے لئے تجربہ اور دانشور لوگوں سے ملاقات بھی بہت ضروری ہوتی ہے چنانچہ اس نے یہ کام شروع کر دی اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی والوں نے ایک عقل مند انسان کی قدر نہیں کی سقراط کو فیثاغورث کا جملہ یاد آتا کہ انسان شہرت یا عیش و آرام کے لئے نہیں کائنات پر غور و فکر کرنے کے لئیےپیدا ہوا ہے یوں ایک بدلا ہوا سقراط اپنے شہر کے ساتھ ساتھ پورے یونان میں مشہور ہونے لگا اب سقراط بطور فلسفی ہونے لگاتھا امیر خواہش رکھتے تھے کہ وہاں انکے ساتھ کھل کر بات کریںایتھنز میں باہر سے انے والے سقراط سے ملنے کی خواہش کرتے سقراط کھل کر اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتا تھا کیونکہ وہ فیثاغورث کا انجام دیکھ چکا تھا پھر بھی اپنی مدعا باتوں باتوں میں میں پہنچا دیتا تھا اس کے شاگرد افلاطون اور ایتھنز کے دوسرے لوک اس کو یونان کا ذہین ترین انسان سمجھتاتھا یونانیوں کے مطابق یونان کے اور ایک شہر ڈلفی میں آسمان کے سب سے بڑا دیوتا اپالو رہتا تھی اپالو کے مجسمے کے نیچے ایک پجارن رہتی تھی اور لوگوں کا یہ خیال ہوتا جوبھی سوال کریں اپالو پوجارن کے زریعے جواب دے دیتا ہے اپالو دیوتا یعنی مجسمے سے جوبھی سوال پوچھتا نیچے بیھٹی پجارن اسکا جواب دے دیتا تھا لوگوں کا عقیدہ اتنا پختہ ہو چکا تھا سقراط کے شاگرد گریفن ٹیمپل چلا گیا اس نے وہاں جاکر سوال پوچھا ۔کیا سقراط سے زیادہ عقلمند کوئی ہے جواب ملا کوئی شخص سقراط سے زیادہ عقل مند نہیں گریفن ایتھنز طرف بھاگا اور لوگوں کو بتایا کہ دیوتا بھی کہتے ہیں سقراط سے ذیادہ عقلمند کوئی بھی نہیں اس پر ایتھنز کے لوک دو حصوں میں بٹ گئے کچھ کہتا تھا کہ دیوتا سچ ہی تو کہتے ہیں کچھ نے طنز کیا کہ گریفن نےپجارن کو رشوت دی ہے اس جواب پر سب سے زیادہ حیران خود سقراط بھی تھا پجارن نے مثال کے طور پر میرا نام لیا ہوگا ورنہ میں تو اپنی کم عقلی کو پہچانتا ہوں بجارن کی اعلان کے بعد سقراط کے پاس نوجوانوں کا رش بڑھ گیا سقراط کی باتوں سے متاثر ہو کر ایتھنز کے کمانڈر اینڈ چیف کرشماتی شخصیت ایلس باگین بھی شاگرد بنا پھر اچانک باگنی کو جزیرے سسلی کی طرف ایک فوجی مشن پر بھیجنے کا فیصلہ ہوا لیکن یہ مشن پوری طرح ناکام رہی اتنی بری طرح ناکام رہی کہ ایتھنز کا تمام بحری بیڑے تباہ ہو گئےاور اس کے ساری فوج بار گئین سمیت گرفتار ہوگئیں اس نے ایتھنز کے دشمن سپارٹن سے مل گئے کیونکہ اس مہم میں ناکامیامی کی وجہ سے بارگین کو واپسی پر سزائے موت کا خدشہ تھا اسلئیے وہ واپس نہیں آیا یونان والوں نے بارگین کو غدار قرار دیا گیا اور ساتھ ہی سقراط کی عوامی اعتماد چلی گئی اور نفرت کرنے لگے بارگین کی غداری میں سقراط کا کوئی ہاتھ تو نہیں تھا سقراط کا جرم صرف بارگین اسکا شاگرد رہنا تھا کوئی خاص طبقے جو کہ سقراط کے بہت خلاف تھا انہوں نے سقراط کا باقاعدہ کردارکشی کی مہم شروع کردی تھیٹر اور ڈراموں زریعے سقراط کا مذاق اڑایا جانے لگا ڈراموں میں سقراط کو خبیث ترین انسان بنا کر پیش کئے جانے لگاسقراط کے مخالفت لوک کہنے لگا سقراط ایسا شخص ہے جو دیوتاؤں کے وجود سے انکار کرتا ہے اور نوجوانوں اور بزرگوں کو دیوتاوں پربحث کرنے پر اکساتا ہے ایک طرف سے یہ کھیل کھیلا جارہا تھا تو دوسری طرف سقراط بھی خطرے سے آگاہ ہوا تھا ریاست کی طرف سے سقراط پر الزام لگایا گیا کہ وہ قدیم یونان کے دیوتاوں کا مخالف ہے اور ان کے خلاف نوجوانوں کو بھڑکاتا ہے جس سے نوجوان دیوی دیوتاوں سے رشتہ توڑ رہے ہیں۔ ریاست کی طرف سے سقراط کو غدار اور کافر قرار دیا گیا اور اس طرح اس کا ٹرائل شروع ہوا۔ اب عدالت لگ چکی تھی۔ چاروں اطراف نوجوان تھے۔ درمیان میں سقراط کھڑا تھا۔ سقراط سے کہا گیا کہ وہ یہ تمام الزامات کو تسلیم کرے اور معافی مانگے۔ سقراط نے معافی مانگنے کی بجائے لوگوں کے سامنے قدیمی یونان کے قوانین، اصولوں، مذہب اور روایات کے خلاف سوالات اٹھانا شروع کردیئے۔ اس پر کورٹ کے جج سقراط پر بھڑک اٹھے۔ فیصلہ سنایا گیا کہ سقراط کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ کہا گیا کہ یا تو وہ زہر کا پیالہ پی لے اور مر جائے یا پھر ایتھز کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔اب وہ جیل میں تھا، چاروں طرف اس کے شاگرد تھے جو رو رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں زہر کا پیالہ پکڑا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ زہر کا پیالہ پینے سے پہلے اس نے خود اپنے آپ کو نہلایا۔ اس کے بعد جیل میں نہا دھو کر بیٹھ گیا اور آرام سے زہر کا پیالا پی لیا۔ اس طرح اس کا انتقال ہوگیا۔ جب اس سے اس کے شاگردوں نے کہا کہ سقراط کسی اور علاقے میں چلاجائے تو زندگی کے آخری لمحات میں اس کا کہنا تھا کہ سچا فلاسفر وہ ہوتا ہے جو علم سے پیار کرتا ہے اور موت سے خوف زدہ نہیں ہوتا۔ اس نے کہا میرے پیارے شاگردو اگر میں کہیں اور بھی چلا گیا تو وہاں جاکر بھی سوال اٹھاوں گا۔ پھر ریاست مجھے عدالت میں لے جائے گی۔ اور ریاست کی عدالت وہی کرے گی جو اس وقت میرے ساتھ ہوا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ غلط روایات اور اصولوں کے خلاف موت کی قربانی دینا کوئی بڑی قربانی نہیں سقراط کے آخری الفاظ یہ تھے کہ اس قربانی کے نتیجے میں میری روح میرے جسم سے آزاد ہوجائے گی۔ مجھے امید ہے کہ ایسا کرنے سے یونان کی بیماریاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ سقراط دنیا کا وہ واحد فلاسفر ہے جس نے علم کی خاطر جان قربان کردی۔ اس کی اس عظیم قربانی کو انسانی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ سقراط کو فلاسفی کے پہلے شہید ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ کا ابھرتا ہوا کاروباری مرکز ہے۔

 

Mehdi Ali
About the Author: Mehdi Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.