رحمت دو عالم ﷺ کی تقریب رونمائی

گذشتہ دنوں معروف کالم نگار،مصنفہ نبیلہ اکبر کی کتاب’’ رحمت دوعالم ﷺ ‘‘کی رونمائی کی تقریب ای لائبریری میں منعقد ہوئی ۔جس میں صحافی برادری سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس وقت لکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر ایک مقصد کے تحت لکھنے والے آج بھی بہت کم ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔لکھنا اور مسلسل لکھنا اور بامقصد لکھنا پڑھنے والے کو ورطہ حیرت میں ڈال دینا ۔قاری کو اپنی سحر انگیز تحریر کے حصار میں اس طرح سے جکڑ لینا کہ وہ چاہ کر بھی تحریر کا آخری لفظ تک پڑھے بغیر خود کو آزاد نہ کرواسکے ۔اﷲ تعالیٰ نے ’’نبیلہ اکبر ‘‘کو ایسی قوت قلم عطا فرمائی ہے ۔باکردار بااخلاق اور جرات مند یہ خاتون اپنی ذات میں خود انجمن ہے جس نے زندگی کے جس میدان میں بھی قدم رکھا وہاں پر اپنی خداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔یہ بڑی باکمال اور بے مثال خاتون ہے ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ‘‘اس حقیقت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے ؟یہ دیوی قلوپطرہ کا روپ دھارے تو جولیس سیزر اور مارک انطونی کو سحر میں جکڑ لے ۔جون آف آرک بنے تو برطانوی لشکر کو شکست فاش دے کر فرانس کا تخت وتاج چارلس ہفتم کے قدموں میں ڈال دے۔جھانسی کی رانی کی صورت میں انگریز فوج کے دانت کھٹے کردے رضیہ سلطان ہو تومیدان جنگ میں مردوں کو زمین چٹائے ۔مدر ٹریسا کے روپ میں زمانے کے زخموں کا مرہم بن جائے ،نور جہاں بن کر جہانگیر کی سلطنت پر حکمرانی کرے اور انارکلی بنے تو تو مہابلی اور شیخو کے درمیان چنی ہوئی دیوار بن جائے ،نبی رحمت ﷺکی محبت میں ڈوبے تو ’’نبیلہ اکبر‘‘بن جائے ۔’’رحمت دوعالم ﷺ‘‘انکی پہلی کتاب ہے ۔نبیلہ اکبر بڑی خوش نصیب اور مبارکباد کی مستحق ہے کہ جس نے قلم اٹھایا بھی تو اس پاک ذات کی شان میں جن پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ہمہ وقت درود وسلام بھیجتے ہیں ۔بے شک یہ سعادت بڑے نصیب والوں کو ملتی ہے ۔اس پیکر وفا مجسمہ حیا خاتون پر مجھے رشک آتا ہے ۔سیدنا محمد ﷺکی سیرت طیبہ کے اوصاف وکمالات پر قلم اٹھانا توفیق خداوندی کے بغیر ممکن ہی نہیں ،جہاں عقل انسانی گم ہوجائے ،جس جگہ علم ودانش سکتے میں آجائیں جہاں فکر رسادم بخود ہو جائے وہاں تو صرف قوت عشق ہی معاون ومددگار رہ جاتی ہے ’’نبیلہ اکبر‘‘وہ محب رسولﷺ ہیں جو ذکر رسولﷺ میں آبدیدہ ہو جاتی ہیں ان سے تعلق قلبی ہونے کی وجہ سے ان کے اوصاف حمیدہ سے واقف ہوں ۔تقریب کے صدرنشین ڈاکٹر علامہ سید ایاز ظہیر ہاشمی ،مہمامان گرامی میں معروف ماہر تعلیم مس فاخرہ شجاع،پنجابی شاعری کے ماتھے کا جھومر فیاض قریشی،منزہ سموئیل ،اقبال راہی ،فریدہ خانم ،خالدہ اشفاق،امبرین خان ،سید فراست بخاری ،طفیل شریف ،محمد شہباز آرائیں،پروین وفا ہاشمی ،ممتاز راشد لاہوری اور بالخصوص مصنفہ کی کل کائنات لخت جگر ،نور نظر زخرف منال ،بیٹوں جیسا پیارا بھائی افضل ڈولہ،روحانی فرزند ارجمند حافظ عثمان علی معاویہ،عبدالرحمن،میاں ثقلین علی، سمیت دیگر اہم شخصیات کا جم غفیر تھا ۔اس مقدس اور بابرکت تقریب میں ’’نبیلہ اکبر ‘‘کے والدین نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔مصنفہ نبیلہ اکبر کی پچیس سالہ پرانی سہیلی منزہ سموئیل یوکے سے خاص طور پر اس پر نور تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائیں میں محو حیرت تھا کہ ایک دوسرے مذہب کی ہونے باوجود انہوں نے مصنفہ نبیلہ اکبر کو اسکی عظیم کاوش پر اس انداز میں خراج تحسین پیش کیا کہ محفل پر رقت طاری کردیا ۔مس فاخرہ شجاع نے اپنی شاگرد مصنفہ نبیلہ اکبر کے بارے میں جو الفاظ ادا کیے وہ یقینا آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ نبیلہ کردار کی بھی غازی تھی اور گفتار کی بھی مجھے علم تھا کہ یہ ایک دن ایسا عظیم کام کرے گی کہ جس پر میرا سر فخر سے بلند ہوگا اور آج اس نے یہ ثابت کردیا ہے ۔آپﷺ کی شان میں کتاب لکھ کر اس نے اپنا نام عاشقان رسولﷺ میں لکھوا لیا ہے ۔آپ ﷺ کی تعلیمات تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہیں ۔صدر نشین تقریب ڈاکٹر علامہ سید ایاز ظہیر ہاشمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیرت نگاری میں خواتین کا حصہ بہت کم ہے مگر نبیلہ اکبر نے اس خلا ء کو بڑی خوبصورتی سے پر کیا ہے مصنفہ بجا طور پر مبارک باد کی مستحق ہے ۔بے شک آپﷺ قائد انسانیت ،رہبر انسانیت ،بانی امن ،رہبر کائنات ہیں آپ ﷺ کی تعلیمات صرف چند انسانوں ،چند زمانوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں ۔آپﷺ سارے جہانوں سارے انسانوں کے لیے رحمت العالمین ہیں ۔مظہر ایڈووکیٹ نامی ایک مقرر نے بڑا دھواں دار خطاب کیا مگر خود نمائی کے سوا کچھ نہ تھا ۔راقم الحروف تاریخ کا ادنیٰ ساطالب علم ہونے کے ناطے تاریخی حقائق سے واقف ہے کہ حضرت محمد ﷺدنیا کی وہ واحد متاثر کن شخصیت ہیں کہ جن کے فرامین ہر دور میں ہر قوم اور ہر انسان کے لیے کامیابی کے ضامن ہیں ۔آپﷺ ایک عظیم سیاست دان تھے ریاست مدینہ ؐجس کی عظیم مثال ہے ۔آپﷺ ایک عظیم لیڈر تھے ۔تیرہ سال بعد جب آپﷺ ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو ایک چیونٹی تک کو بھی نقصان نہیں پہنچایا ،قائد ایسے ہوتے ہیں ۔(سررچرڈ بیل)کہتا ہے کہ ’’یورپ شدید اضمحلال کی دہلیز پر ۔شاندار ماتھے کے پیچھے شدید ذہنی دباؤ،دیوانگی ،روحانی امراض ،جنسی بے راہ روی ،زنا بالجبر اور بڑھتے ہوئے جنسی امراض پوشیدہ ہیں ،باہمی پیار اور ایک دوسرے پر اعتبار ہوا ہو چکے ۔یورپ کے سامنے ایک ہی انتخاب ہے ۔نجات کا واحد راستہ اوور یہ راستہ ’’محمدؐکادین ‘‘ہے ‘دوسرا انتخاب ہے ہی نہیں‘‘(سرتھامس کارلائل)کہتا ہے کہ ’’ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو کہتے ہیں کہ اسلام جھوٹ ہے اور حضرت محمدؐ ایک دھوکے باز ہیں (نعوذباﷲ)۔سچ تو یہ ہے کہ حضرت محمدؐوہ شخص ہے کہ جو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عزم اور استقامت سے لڑا میں جناب محمدؐسے بڑھ کر دوسروں پع مہربان ،غریبوں کے لیے سخی اور معاشرے میں قابل اعتبار شخص کسی کو نہیں پایا‘‘۔میرے متعلق مشہور ہے اورکسی اپنے کا کہنا ہے کہ میں سردیوار لکھتا ہوں پس دیوار کے قصے ،میں زہر پیتا زہر اگلتا ہوں کیا کروں سچ زہر پینے اور جیون تیاگ دینے کا نام ہے میں جہاں فرسودہ روایات کا منکر اور باغی ہوں وہاں پر ان روایات ،اسلامی قدریں اورشعائر اسلامی جن کو آج کی نوجوان نسل فرسودہ روایات کا نام دیتی ہے کاسب سے بڑا حامی ہوں۔میں اشتہاری ،درباری،سیاسی ،سرکاری اور خوشامدی ملاؤں سے خائف ہوں جنہوں نے علمائے یہود کی طرح اپنی خودساختہ رسومات کو سند جواز سے دین بنا دیا ہے ۔یہ تقریب اپنی مثال آپ تھی مگر وہاں ایک پیشہ ور مولوی نے آداب سیرت ؐکے خلاف بات کرکے یہ ثابت کردیا کہ ’’ملاکی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور ‘‘ہے۔نبیلہ اکبر بجا طور پر مبارکباد کی مستحق ہے ۔میری دعا ہے کہ اﷲ تعالی انکو وہ عروج نصیب فرمائیں آسمان بھی جن پر رشک کرے۔آمین

Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 138824 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.