لڑکی کی تربیت

آج کل عموماً والدین کو بڑے فخر سے یہ کہتے سُنا جاتا ہے کہ ہم لڑکے اور لڑکی میں کسی قسم کا فرق نہیں سمجھتے -ہمارا سلوک اور برتاؤ دونوں کے ساتھ یکساں ہیے .اگر لڑکی کو اس کی فطرت کے خلاف لاڈ پیار اور لڑکوں جیسے سلوک کا مستحق گردانا جاتا ہیے تو فطرت کے خلاف بغاوت ہیے اس بداثرات سے ایسے گھرانے محفوظ بھی نہیں ایسے والدین معاشرے اور فطرت کے ساتھ مزاق کے مرتکب تو ہوتے ہیے اپنے لئے بھی کم مسائل کھڑے نہیں کرتے - بیٹی کو بیٹے جیسے سلوک اور برتاو کا مستحق سمجھنا کہاں تک جائز اور مناسب ہیے اور معاشرے میں اس کا مقام کیا ہوتا ہے-

کیا لڑکوں جیسے سلوک اور برتاؤ کے ماحول میں پرورش پانے والی لڑکی کبھی کامیاب گھر ہستن اچھی ماں , مثالی بیوی نہیں بن سکتی - مائیں اپنی ساتھ ملنے جلنے والی خواتین سے بڑے فخر یہ انداز میں کہتی ہیں اسے کچن نام سے ہی چڑ ہیے -ضرورت پڑجائے تو ایک کپ چائے بنا کر نہیں پلا سکتی یا انڈا آملیٹ تک نہیں بناسکتی - اسی طرح وہ دوسروں پر رُعب ڈالنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹی سے گھر کا زرا سا بھی کام نہیں کراتیں اور کیا چائے نہ پلانا کونسا کوئی بہت بڑی کوالفیکشین ہیے -اور کی عادتیں پروان چڑھتے دیکھ کر خوش ہوتیں ہیں اور فخر محسوس کرتی ہیں ایسی مائیں یہ کہتے بھی سُنی جاتی ہیں کہ بھئی ہم نے تو گھر اور کچن ہی میں کولہو کے بیل کی طرح گھومتے گھومتے زندگی ختم کردی , ہماری کو یہ سب کچھ نہیں کرنا -

لڑکی بھی بڑے جوش وخروش سے ان باتوں کی تائید کرتی ہیے جیسے کسی ٹیچر یا لیکچرار نے سبق پڑایا ہو شادی ہو جانے اور سسرال جانے پر جب دوسروں کو یہ علم ہوتا ہیے کہ لڑکی صرف لڑکی ہیے اُسے امور خانہ داری سے زرا بھی واقفیت نہیں -وقت پڑنے پر خود آملیٹ بنا کر پیٹ بھی نہیں بھر سکتی شوہر کی بات ماننے میں اپنی ہتک محسوس کرتی ہیں تو وہ زہنی تناو کا شکار ہوجاتے ہیے- ادھر لڑکی اس سوچ میں اپنے آپ کو ہلکان کرتی ہے -

اب اگر وہ شرما شرمی کام کاج میں حصہ لیتی بھی ہیں تو عدم شوق ودلچسپی کی بناء پر اس میں کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے جو تنقید کا دروازہ کھول دیتی ہیے حقیقتاً بیٹی کو بیٹا سمجھنا اور لڑکوں جیسی تربیت دینا قطعی غلط نظریہ ہیے - اس نظریہ کے تحت یہ تو ٹھیک ہیے کہ لڑکی کو ترقی کرنے کے اتنے ہی مواقع حاصل ہوں جتنے لڑکے کو حاصل ہیں -

ایسا ان ہی گھرانوں میں ہوگا جہاں لڑکی کو اس کی فطرت کے مطابق تعلیم و تربیت دی گئی ہو - بلا شبعہ بحثیت اولاد والدین کو لڑکی اور لڑکے کے درمیان فرق نہیں سمجھنا چاہیئے مگر ایسا اندھا پیار بھی نہیں دینا چاہیئے جس سے ان کا مستقبل متاثر ہو ہوتا ہو , تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت بھی لازم اور ضروری ہیے -
تعلیم و تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہیے دونوں لازم و ملزم ہیے اور دونوں میں سے کسی کی بھی کمی ان کے مستقبل پردور رَس نتائج کی حامل ہے.

Shoaib Ahmed Sohail
About the Author: Shoaib Ahmed Sohail Read More Articles by Shoaib Ahmed Sohail: 5 Articles with 3608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.