کم عمری میں شادی کے نقصانات

پاکستان جو کہ ایک اسلامی ملک ہے یہاں مختلف قسم کے مذہب اور رنگ و نسل پر مشتمل لوگ آباد ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر علاقے ، مذہب اور قوم کے الگ الگ رسم و رواج ہو تے ہیں۔اسی طرح کچھ پورانے خیالات ونظریات رکھنے والے لوگ ان رسم و رواج کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں جسے وہ اپنی نسلوں پر مسلط کر کے انکی زندگیوں کو مشکل اور تباہی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

انہیں پورانے اور منفی خیالات و رسم و رواج میں شامل کم عمری میں بچوں کی شادی ہے سندھ اور بلوچستان خاص طور پر اس رسم کی لپیٹ میں ہیں اور بہت سی ایسی زندگیاں کم عمری میں شادی کے نقصانات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں 2017 میں کیۓ جا نےوالے ایک سروے کے مطابق 16 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی کراۓ جانے والے بچوں کی تعداد(٪0_ 6) اور 18سال سے کم عمر والے بچوں کی تعداد(٪6_12) ہے جن میں زیادہ تر تعداد ان بچوں کی ہے جو اپنے خاندان کے کسی مرد کے کیے جانے والے جرم کے باداش ہار جانے کے طور پر اس سزا کے لیے منتخب کی جاتی ہیں یا ان کی شادی کروانے کے بدلے میں دی جاتی ہے۔

کم عمری میں شادی کا شکار زیادہ تر وہ بچیاں ہیں جو اپنے سے کئی زیادہ بڑے مرد کے ساتھ بیادی جاتی ہیں ایسے فیصلات مسلم معاشرے کا وہ طبقہ کرتا ہے جو تعلیم سے محروم ہوتا ہے یا جن کے نظریات ابھی تک وہی پرانے خیالات پر مبنی ہیں۔ جو ابھی یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی رحمت ان پر محض ایک بوجھ کے کچھ بھی نہیں۔ جسکو وہ اپنے کاندھوں پر سے اتارنے کے لئے اس صنفِ نازک کو بغیر کچھ سوچے سمجھے رخصت کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی کئی واقعات ہیں جو کہ دیہی علاقوں میں روزانہ وقوع ہوتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق 15 سال سے کم عمر دہران زچگی موت کا خطرہ اور تناسب پانچ گنا زیادہ ہوتا ہے اسکے علاوہ خون کی کمی , cancer carvic اور اندرونی انفیکشن جیسی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں دیہی علاقوں میں اس رسم کو ان معصوم بچیوں کے سر مسلط کیا جاتا ہے جن کی عمر پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کودنے کی ہو تی ہے اس عمر میں انہیں نئے کپڑے اور گہنوں کی لالچ دے کر دلہن بنا کر دوسرے گھر منتقل کر دیا جاتا ہے۔

کم عمری میں شادی کی وجہ سے تعلیم کی شرح میں کمی ہورہی ہے۔ کیونکہ دیہی اور قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو اتنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جو بچیاں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھ ہی رہی ہوتی ہیں اور مستقبل میں اپنے اپکو کچھ بنتا دیکھ ہی رہی ہو تی ہیں۔ ان سے انکے سارے خواب چھین کر انہی پرانے رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے اور ان معصوم بچیوں کی خوشیوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی آبادی میں ٪ 57 حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پر المیہ یہ ہے کہ ہر سال کیۓ گئے مختلف سروے اپنی جو رپورٹ پیش کرتے ہیں اس نے ہمیشہ پاکستان میں لیٹریسی ریٹ کم ہی ہوا ہے خاص طور پر صوبہ سندھ میں جسکا ایک بڑا سبب کم عمری میں شادی ہے.

سندھ میں 2013 میں ایک قانون عائد کیا گیا جس میں 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی کرنا قانونی جرم قرار دیا گیا ہے. 2013 میں جب کم عمر کی شادی کے روک تھام والا Sindh Child Marriage Restraint Act منظور نہیں ہوا تھا تب بھی مختلف سماجی تنظیمیں کم عمری سے ہونے والے نقصانات اور اسکی روک تھام کے لیئے آواز اٹھائی تھی پر تب وہ آواز اور مہم اتنی مظبوط نہیں ہوتی تھی پر SCMRA کے منظور ہونے کے بعد اسی آگاہی مہم میں تیزی اور مضبوطی آگئی۔ مختلف سماجی تنظیموں نے اس مہم میں متعلقہ سرکاری اداروں کو بھی شامل کیا گیا۔ نکاح خواں اور مذہبی رہنماؤں کو بھی شامل کیا گیا۔ جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ کم عمری کی شادی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے لیکن اب پھر بھی اس قانون میں برتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ کم عمری کی شادیوں کو روکا جاسکے۔

Abdul Rahim
About the Author: Abdul Rahim Read More Articles by Abdul Rahim: 3 Articles with 2088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.