دور حاضر میں حق شناسی و رہنمائی کیلئے روشنی کی ایک کرن-حصہ دوئم

الله رب العالمین نے تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کرنے کے وقت اپنی روح میں سے روح پھونکی تو حضرت آدم علیہ السلام کو ہر طرح کے ظاہری و باطنی علوم میں سے علم عطا کیا گیا۔ کس قدر اور کتنا علم عطا کیا گیا۔ یہ الله رب العالمین ہی بہتر جانتے ہیں مگر دینی اور دنیاوی ہر طرح کے علوم میں سے علم عطا کیا گیا۔ مثلاً دنیاوی علوم میں سے معاشی، معاشرتی و تمدنی، تحقیقی و تخلیقی، طبی و کیمیائی وغیرہ علوم عطا کیے۔

دینی علوم یا علوم معرفت الہی دو طرح کے ہیں۔ دونوں علوم دراصل ایک ہی ہیں اور الله رب العالمین کے عطا کردہ ہیں۔ ایک علم شریعت یعنی ظاہری احکامات و حدود کا متعین ہونا اور ضابطہ حیات۔

دوسرا علم حقیقت اور معرفت ( طریقت، تصوف یا فقر) یعنی باطنی علم۔ باطنی علم اور معرفت ( طریقت، تصوف یا فقر) وہ علم ہے جس سے کہ انسان کا مرکز و محور حد درجہ کی باطنی پاکیزگی نفس اور اخلاص نیت سے (ریاکاری و دکھلاوے کی عبادات سے مبرا ہو کر) اپنے رب تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں کو خدا بنانے کی بجائے یا شیطانی اعمال اپنا کر اپنے نفس اور شیطان کو خوش کرنے کی بجائے صرف اور صرف راضی بالرضا ہو کر الله تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر اپنی ذات کے غرور و تکبر سے بچ کر انتہائی عاجزی و انکساری سے اپنی اصلاح کر کے دوسروں کو اصلاح کا موقع فراہم کرنے کے لیے مشعل راہ بننا ہے۔

دونوں ظاہری و باطنی علوم (علم شریعت اور علم حقیقت، طریقت یا تصوف) برحق ہیں اور دونوں علوم کا محور و مرکز رب تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ دونوں کی منزل ایک ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:
علم ہے ابن الکتاب
اور عشق ہے ام الکتاب

جیسا کہ دونوں علوم الله رب العالمین ہی کے عطا کردہ ہیں اور ایک ہی ہیں مگر دونوں کا انداز و طریقہ ضرور الگ الگ ہو سکتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کی سورہ کہف میں تفصیلاً درج ہے جسکی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف صاحب شریعت پیغمبر ہونے کی عکاسی کر رہے ہیں جبکہ حضرت خضر علیہ السلام صاحب حقیقت اولیاالله کا آئینہ ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دوران سفر بار بار حضرت خضر علیہ السلام کے اعمال و حرکات کو ٹوکنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اگر رب تعالیٰ جل شانہ نہ چاہے تو کوئی پیغمبر بھی بیک وقت دونوں علوم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تو پھر بھلا ایک عام آدمی کیسے دعویٰ کر سکتا ہے کہ علم صرف اسی کے پاس ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ اس واقعہ سے خدانخواستہ حضرت موسی علیہ السلام کلیم الله کی شان اقدس کو کم کرنا ہرگز مقصود نہیں بلکہ الله رب العالمین نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی طرف روانہ کیا۔ جس کا ذکر سورہ کہف میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں اگر مجھے سالوں سال بھی حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں چلنا پڑا تو میں چلوں گا۔

اسی واقعہ میں انتہائی اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے تمام واقعات کی تفصیل بیان کر دی تو فرمایا کہ میں نے جو کچھ کیا اپنے رب کے حکم سے کیا تو دونوں پاک ہستیوں نے اپنے راستے جدا کر لیے جس کا تعین پہلے ہی طے ہو چکا تھا۔

اسی واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر کسی کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا سمجھ سے بالاتر ہو تو تکرار کرنے، جھگڑنے یا فساد برپا کرنے کی بجائے انتہائی عاجزی و انکساری سے وہ علم سیکھا جائے یا کم از کم انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے نفس کے غرور و تکبر جیسے شیطانی فعل یا شیطانی کلمات سے بچنے کیلئے یہ کہ دیا جائے کہ رب العالمین بہتر جانتے ہیں۔-----------

جاری ہے---------------------
Iqbal Javed
About the Author: Iqbal Javed Read More Articles by Iqbal Javed: 11 Articles with 17857 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.