جب میں مر گیا تھا

میرے پاؤں سے درد کی ایک لہر اٹھی جو کہ میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ وہ پاؤں سے اوپر کو آنے لگی ساتھ ساتھ میرے پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے۔۔۔۔۔۔خوف سے میرا رنگ ہلدی کی طرح زرد۔۔۔۔۔۔۔جسم سے پسینہ پانی کے قطروں کی طرح ٹپ ٹپ گر رہا تھا۔۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ آخری ٹائم ہے چیخا چلایا۔۔۔۔۔۔ منتیں کی مجھے چھوڑ دو۔۔۔۔۔وقت پورا ہو چکا تھا لہذا مہلت نہ ملی مجھے میرا اپنا ماضی آنکھوں کے سامنے دکھائی دینے لگا مارے شرم کے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔سارے ظلم، جو میں نے لوگوں پر کیے،، غیبت جو لوگوں کی کیا کرتا،نمازیں جو سستی اور غفلت کی وجہ سے چھوڑ دیتا،،،یہ سب میرے سامنے آنے کے ساتھ ساتھ مجھے مزید خوفزدہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔ان اعمال کے ساتھ میں کیا منہ دکھاؤں گا رب کی بارگاہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔روح بڑی تکلیف کے ساتھ میرے جسم سے نکل رہی تھی۔۔۔۔۔عزیز واقارب میرے دائیں بائیں کھڑے رو رہے تھے۔۔۔۔۔رونے کے علاوہ آخر کوئی کر بھی کیا سکتا؟؟؟

خوف کی وجہ سے میری چیخ نکلی۔۔۔۔۔۔۔مجھے موقع چاہیے۔۔۔۔۔مجھے موقع چاہیے۔۔۔۔۔۔۔کیا ہوا تجھے؟ غور کیا تو وہ میری ماں کی آواز تھی ماں نے مجھے ہلایا۔۔۔۔۔۔تو میں اٹھ بیٹھا مجھ پر خوف کی کیفیت طاری تھی۔۔۔۔۔۔ماں نے کہا بیٹا تجھے کیا ہوا جو تو چیخ رہا تھا مجھے موقع دو مجھے موقع دو۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے سب سے پہلے تو شکر کیا کہ یہ محض ایک خواب تھا مجھے یقین ہے یہ خواب محض ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جس کا سامنا ہر ایک نے ایک نا ایک دن کرنا ہے۔۔۔۔۔۔بعض زندگی میں اچھے اعمال کر کے اپنے آخری وقت خوش ہوتے ہیں جبکہ بعض خوفزدہ اپنے برے اعمال کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔میں نے الف سے ب تک ماں کو سارا خواب سنایا۔۔۔۔۔اور شکر کیا مجھے ایک نئی زندگی مل گئی نیک اعمال کرنے کے لیے۔۔۔۔البتہ خواب میں جو تکلیف میں نے اپنے جسم میں محسوس کی تھی وہ آج تک نہیں بھول پایا۔۔۔

عبیداللہ کھوکھر
About the Author: عبیداللہ کھوکھر Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.