مجلس روحانی رحمتہ اﷲ علیہ

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اللہ تعالیٰ ’’حُبِّ دنیا‘‘سے میری اورآپ سب کی حفاظت فرمائے.حضرت اقدس مولانامحمدموسیٰ روحانی(رح) تحریرفرماتے ہیں: ’’احمدبن عمار(رح) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں زمانہ طالبعلمی میں دیگر رفقاء سمیت اپنے معلّم واستاذ کے ساتھ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے قبرستان کی طرف جارہا تھا.راستے میں ہم نے ایک مقام پر دیکھا کہ بہت سے کتے جمع ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے کھیل رہے ہیں ، ہمارے استاذ نے ہمیں ان کتّوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو کتوں کی بعض عادتیں کتنی اچھی ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ کتنے اچھے طریقے سے پیش آرہے ہیں.احمد بن عمار(رح)فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھنے کے بعد ہم واپس اسی راستے سے آرہے تھے ،جب کتّوں والی جگہ پر ہم پہنچے تو دیکھا کہ کسی نے وہاں ’’جیفہ‘‘یعنی مردہ جانور پھینک دیا ہے اور وہ کتّے اس جیفے یعنی مُردار کو کھانے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں،ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں،غصہ سے بھونک رہے ہیں اور غُرّا رہے ہیں،ان میں سخت ترین جنگ جاری ہے اور ہر ایک کتّا اس مُردار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمارے اُستاذ نے جب یہ حالت دیکھی تو ہم سے فرمایا کہ یہ عبرت وموعظت ونصیحت کا مقام ہے اور فرمایا کہ جب یہ دنیاوی چیز ان کتّوں کے سامنے نہ تھی تواس وقت یہ کتّے ایک دوسرے سے محبت والفت کا اظہار کر رہے تھے اورجب اُن کے مابین یہ دنیاوی چیز ﴿مُردارجانور﴾آگئی تو اب اُن کے مابین محبت کے تمام علاقے ختم ہوگئے اور عداوت وجنگ وجدال کی نوبت آگئی.ہمارے استاذ نے فرمایا کہ یہی حال ہے انسانوں کا.جب انسانوں کے دلوں میں’’حُبّ دنیا‘‘نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اور آپس میں الفت سے پیش آتے ہیں،اور جب دنیاوی منفعت اُن کے سامنے آجائے تو وہ ایک دوسرے سے کتّوں کی مانند لڑنے لگتے ہیں.سابقہ حکایت میں ہمارے لئے عبرت کا عظیم سبق ہے،حُبّ دنیا خُدا سے دور کرنے والی اور شیطان کے قریب کرنے والی چیز ہے.آج کل حبّ دنیا وحرصِ دنیا کی وباعام ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ آفات ، بلاؤں ،مصیبتوں اور عداوتوں کے طوفان میں گِھرے ہوئے ہیں،یہی ’’حُبّ دنیا‘‘موت کے وقت اور قیامت کے دن مُوجب حسرت کا ہوگا لیکن اُس بے جا حسرت سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا‘‘ ﴿گلستان قناعت﴾

ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:’’بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی کا انتقال ہوگیا. اُس کے دو بیٹے تھے، ان دونوں کے مابین ایک دیوار کی تقسیم کے سلسلے میں جھگڑا ہوگیا .جب دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انہوں نے دیوار سے ایک غیبی آواز سنی کہ تم دونوں جھگڑا مت کرو.کیوں کہ میری حقیقت یہ ہے کہ میں ایک مدت تک اس دنیا میں بادشاہ اور صاحب مملکت رہا.پھر میرا انتقال ہوگیا اور میرے بدن کے اجزاء مٹی کے ساتھ گھل مل گئے.پھر اس مٹی سے کمہار نے مجھے گھڑے کی ٹھیکری بنا دیا.ایک طویل مدت تک ٹھیکری کی صورت میں رہنے کے بعد مجھے توڑ دیا گیا.پھرایک لمبی مدت تک ٹھیکری کے ٹکڑوں کی صورت میں رہنے کے بعد میں مٹی اور ریت کی صورت میں تبدیل ہوگیا.پھر کچھ مدّت کے بعد لوگوں نے میرے اجزائے بدن کی اس مٹی سے اینٹیں بنالیں اور تم مجھے اینٹوں کی شکل میں دیکھ رہے ہو. لہٰذا ایسی مذموم اور قبیح دنیا پر کیوں جھگڑتے ہو.والسلام.

کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے:
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آپڑا
یکسر وہ استخوان شکستہ سے چُو رتھا
کہنے لگا کہ دیکھ کر چل راہ! بے خبر
میں بھی کبھی کسی کا سر پُر غُرور تھا

ایک اور شاعر کہتا ہے:
غرور تھا، نمود تھی، ہٹو بچو کی تھی صدا
اور آج تم سے کیا کہوں لحد کا بھی پتہ نہیں

آہ،آہ.یہ دنیا بڑی فریب دہندہ ہے.فانی ہونے کے باوجود یہ لوگوں کی محبوب بنی ہوئی ہے.یہ اپنی ظاہری رنگینی اور رعنائی سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے آخرت سے غافل کرتی ہے.‘‘﴿گلستان قناعت﴾

ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:’’حضرت حسن بن بصری (رح) کا قول ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ دنیا میں پانچ قسم کے لوگ رہتے ہیں:اول علماء ہیں جو انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں.دو م زاہدین ہیں﴿یعنی تارک دنیا حضرات﴾ یہ قوم کے رہنما ہیں. سوم غزاۃ ہیں ﴿ مجاہدین یعنی کفار سے جنگ کرنے والے﴾یہ اللہ تعالیٰ کی تلواریں ہیں.چہارم تجارت کرنے والے ہیں. یہ اللہ تعالیٰ کے امین ہیں.پنجم بادشاہ ہیں یہ مخلوق کے نگران ہیں. پھر حسن بصری(رح) نے فرمایا: جب علماء دنیا کا لالچ کرنے والے بن جائیں اور مال جمع کرنے لگیں تو پھر کس کی پیروی کی جائے گی اور کون رہنما ہوگا؟اور جب زاہدین،مال میں رغبت کرنے والے ہوجائیں تو پھر کس سے رہنمائی حاصل کی جائے گی اور کون نیک ہوگا؟اور جب غازی ریاکار ہوجائیں تو پھر دشمن پر فتح کون حاصل کرے گا؟اور جب تاجر خیانت کرنے والے ہوجائیں تو پھر کون پسندیدہ اور امین ہوگا اور جب بادشاہ وسلاطین خود بھیڑئیے بن جائیں تو پھر بکریوں﴿یعنی رعایا﴾ کی حفاظت کون کرے گا؟‘‘﴿گلستان قناعت﴾

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’عبداللہ بن فَرَج(رح) فرماتے ہیں کہ کسی نے داؤد طائی(رح) کو خواب میں دیکھا کہ وہ صحراء حیرہ میں دوڑ رہے ہیں﴿حیرہ ایک شہر کا نام ہے﴾تو اُس نے پوچھا کہ اے داؤد!یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ دوڑ کیوں رہے ہیں؟داؤد(رح) نے فرمایا کہ میں ابھی ابھی جیل سے رہا ہوا ہوں اس لئے خوشی سے دوڑ رہا ہوں.

لوگوں نے سوچا اور غور کیا تو پتہ چلا کہ داؤد(رح) کی وفات اسی دن ہوئی تھی جس دن انہیں خواب میں دوڑتے ہوئے دیکھا گیا تھا.احبابِ کرام!حدیث شریف میں ہے ’’ الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر‘‘ یعنی ’’ دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے‘‘.کامل مؤمن.یعنی متّقی مسلمان،موت کے بعد اُن نعمتوں اور خوشیوں سے ہم آغوش ہوتا ہے جو تصوّر سے بلند ہیں.اہل اللہ کے لئے موت رحمت اور نعمت ہے. موت سے دنیوی خواہشات، مشقتیں، جھگڑے اور بیماریاں ختم ہوکر فراغت حاصل ہوجاتی ہے،جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے:
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
موت سے جینے کی صورت ہو گئی
جی رہا ہوں موت کی امید پر
مر ہی جاؤں گا جو صحّت ہو گئی
اب تو میں ہوں اور شُغلِ یادِ دوست
سارے جھگڑوں سے فراغت ہوگئی
اس کو ہر ذرّہ ہے ایک دنیائے راز
منکشف جس پر حقیقت ہوگئی
آپڑا ہوں قبر میں آرام سے
آج سب جھگڑوں سے فرصت ہوگئی
﴿گلستان قناعت﴾

ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ’’کُتب تاریخ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حاتم اصم(رح) نے جہاد کے سفر کے لئے تیاری کی تو آپ نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ تمہارے لئے کتنا راشن چھوڑ جاؤں تاکہ تمہیں میری عدم موجودگی میں کوئی تکلیف نہ ہو؟اس اللہ کی نیک بندی نے جواب دیا کہ آپ میری زندگی بھر کے لئے راشن کا بندوبست کردیں،حاتم اصم(رح) فرمانے لگے کہ ارے اللہ کی بندی!تیری زندگی تو میرے اختیار میں نہیں ہے لہٰذا مجھے کیا معلوم ہے کہ تو کب تک زندہ رہے گی؟بیوی نے جواباً کہا کہ اگر میری زندگی آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو میری روزی آپ کے اختیار میں کیسے ہے جس کا آپ انتظام کرنا چاہتے ہیں.پس جس مالک المُلک کے قبضۂ قدرت میں کسی جاندار کی زندگی اور موت ہے اسی کے ذمہ اس کی رزق رسانی بھی ہے،لہٰذا آپ اس بات کی فکر نہ کریں اور اپنے مبارک سفر پر روانہ ہوجائیں.‘‘﴿گلستان قناعت﴾

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’لالچی اور حریص شخص کے نزدیک عزت وعظمت کا مدار’’مال‘‘ہوتا ہے ،وہ شخص حصول مال وجاہ کو اپنی کامیابی وعزت وسعادت سمجھتا ہے ،حالانکہ یہ مال ودولت فانی چیزیں ہیں. کامل مسلمان کے نزدیک سب سے بڑی عزت تقویٰ ہے ، قناعت ہے، عبادت ہے اور ذکر اللہ ہے.کیوں کہ یہ امور باقی اور دائمی ہیں اور یہ سب امور کلمۂ توحید کے یعنی ’’لاالہ الااللہ‘‘ کے ثمرات ہیں.مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی عزت یہ ہے کہ انہیں’’لاالہ الااللہ‘‘پڑھنا نصیب ہوا ہے اور اسی کلمہ مبارکہ پر انہیں ناز ہے. ایک شاعر نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:
سُنا ہے چند مسلمان جمع تھے یک جا
خدا پرست، خوش اَخلاق اور بلند نگاہ
کہا کسی نے یہ اُن سے کہ یہ تو بتلاؤ
تمہاری عزت و وقعت کا کس طرح ہے نباہ
نظر کرو طرفِ اقتدارِ اہل فرنگ
کہ اُن کے قبضے میں ہے ملک ومال وگنج وسپاہ
اُنہی کا سکّہ ہے جاری یہاں سے لندن تک
انہی کی زیرنگیں ہے ہر اِک سفیدوسیاہ
کلیں بنائی ہیں وہ وہ کہ دیکھ کر جن کو
زبانِ خَلق سے بے ساختہ نکلتی ہے واہ
تمہارے پاس بھی کچھ ہے کہ جس پہ تم کو ہو ناز
کہا انہوں نے کہ ہاں ،لاالہ الّا اللہ
﴿گلستان قناعت﴾

بے شک ’’لاالہ الااللہ‘‘سب سے عظیم نعمت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عظیم کلمے کی قدر کرنے کی توفیق عطاء فرمائے.اس کلمے کے مقاصد کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے.اور اس کلمے کی عظمت اور سربلندی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی توفیق نصیب فرمائے.واقعہ یہ ہوا کہ رات خواب میں اچانک پہلے حضرت ابّا جی (رح) سے اور پھر حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی(رح) سے ملاقات نصیب ہوگئی.سعدی فقیر تنہائی کے جنگل میں پڑا رہتا ہے تب اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے کبھی کبھی اپنے پیاروں کو اُس کے خوابوں میں بھیج دیتے ہیں.حضرت مولانا محمد موسیٰ صاحب نوراللہ مرقدہ سے بھرپورملاقات ہوئی .خوب گلے لگایا دونوں طرف سے بوسوں کا تبادلہ ہوا.اور دل حلاوت سے بھر گیا.صبح اپنے مکتبے سے اُن کی چند کتابیں اٹھا کر لایا.اور ایصال ثواب کے بعد اُن کی کتاب’’گلستان قناعت‘‘ کو دیکھنا شروع کیا. اوپر جو عبرت آموز واقعات اور اشعار آپ نے پڑھے وہ اُسی میں سے نقل کردیئے تاکہ.آج رنگ ونور کی محفل میں ہم حضرت(رح) سے فیض یاب ہوں.’’حُبّ دنیا‘‘کا فتنہ اُمت مسلمہ کو چاٹ رہا ہے.جہاد فی سبیل اللہ اس فتنے کا مؤثر علاج ہے.

ہلاکت اور تباہی سے بچنے کے لئے بہترین نسخہ یہی ہے کہ ہم اخلاص کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں لگے رہیں. آئیے آخر میں حضرت مولانا محمد موسیٰ صاحب(رح) کے لئے دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے صدقات کو قیامت تک جاری رکھے.جامع مسجد’’سبحان اللہ‘‘کے لئے عطیات دینے والے بھی قابل رشک ہیں.اُن کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے لگائے مال کو قبول فرمائے.اور انہیں اس کا بہترین اور شاندار بدلہ اور اجر عطا فرمائے.
آمین یاارحم الراحمین
اللہم صل علیٰ سیدنامحمدوآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیماکثیراکثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 196119 views A Simple Person, Nothing Special.. View More