وہ شخص بھی کتنا عجیب تھا

مہنگے ترین ہاسپٹل کے خوبصورت لاؤنج نما ویٹنگ روم میں ایک خوبصورت سوفہ کم کرسی پر بیٹھا ۔۔۔ دل ہی دل میں اپنے رب سے اس کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہا تھا ۔۔۔ دو گھنٹے بیت چکے تھے ۔۔۔ مگر اسے لگ رہا تھا صدیاں گزر گئی ہوں ۔۔۔۔ ڈاکٹرز آپریشن سے پہلے ہی اسے بتا چکے تھے کہ اس کے بچنے کے چانسز صرف 45 پرسنٹ ہیں ۔۔۔

دیکھئے ان کی حالت بہت کریٹکل ہے ۔۔۔ان کے سروائیو کرنے کے چانسز بہت تھوڑے ہیں ۔۔۔ آپ دعا کیجئے ۔۔۔

ڈاکٹر اس کی پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔۔۔ تو وہ بس بے بسی سے اسے دیکھے گیا ۔۔۔ اور اب تقریباً دو گھنٹے سے اوپر ہوچکا تھا اس کا آپریشن شروع ہوکر بھی ۔۔۔۔ اسے ایک عجیب سی گھبراہٹ نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا ۔۔۔ دیکھا جائے تو اندر آپریشن تھیٹر میں پڑا شخص اس کا کچھ نہیں لگتا تھا ۔۔۔ مگر ایک خواص تعلق تھا اس کے ساتھ ۔۔۔ اور اس تعلق کو وہ چاہ کر بھی توڑ نہ سکا ۔۔۔ کچھ فاصلے پر بیٹھی اس عورت پر نظر پڑی تو نفرت اور غصے نے اسے اپنی لپیٹ میںً لینا شروع کردیا تھا ۔۔۔ وہ تھوڑی دیر غصے سے اسے گھورتا رہا پھر نفرت سے نگاہیں پھیر لیں ۔۔۔وہ سرجھکائے زارو قطار بے آواز روئے جا رہی تھی ۔۔ بکھرے بال ۔۔۔ ملگجہ حلیہ اور سوجی آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی لئے اس شخص کے لئے دعائیں مانگ رہی تھی جس کے مرنے کی دعائیں کبھی مانگا کرتی تھی ۔۔۔ اور اب جب اُن بددعاؤں کی قبولیت کا وقت قریب آیا تو اسے اپنی زندگی ختم ہوتی محسوس ہورہی تھی ۔۔۔ مغرب کا وقت ہوچکا تھا ۔۔ وہ چپ چاپ اُٹھا اور ویٹنگ روم کے قریب اس چھوٹے سے کمرے کی طرف بڑھ گیا جو نماز کے لئے مختص تھا ۔۔۔ نماز سے فراغت کے بعد بے اختیار رب کے سامنے ہاتھ پھیلا دئے ۔۔۔

یا اللہ میں آج اپنے لئے نہیں صرف اس کے لئے دعا مانگ رہا ہوں یارب ۔۔۔۔ یا اللہ اس کو زندگی دے دے اسے اس طرح مرتے میں نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔ وہ ہنستا بولتا اچھا لگتا ہے میرے مالک ۔۔۔۔ میرے یار کو مجھے واپس لوٹا دے میرے مالک ۔۔۔۔ اللہ ۔۔۔۔

وہ رونے لگا تھا ۔۔۔۔ اور روتے روتے سجدے میں گر گیا تھا ۔۔۔

دیکھنا بچوُ جب نہیں ہونگا نہ تو یاد کرے گا ۔۔۔۔ ابھی تو اکڑ رہا ہے ۔۔۔۔

چونک کر سجدے سے گھبرا کر سر اُٹھا کر دیکھا تھا ۔۔۔۔ مگر کمراہ خالی تھا ۔۔۔ یہ بازگشت تو اندر سے ہورہی تھی ۔۔۔

دولت سے ہر چیز نہیں خرید سکتا توُ ۔۔۔۔ نہ توُ اپنی زندگی خرید سکتا ہے اور نہ میری ۔۔۔

پھر اس کی آواز اس کے اندر کہیں گونجی تھی ۔۔۔۔ اور پھر وہ اپنے ماضی کا ایک ایک ورق پلٹتا گیا ۔۔۔۔

××××××××××

دستک کی آواز پر وہ چونک اٹھا
اففف ۔۔۔۔۔ اس وقت کون آگیا بھئی ۔۔۔
وہ دل میں سوچتا ہوا چارپائی سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔ دوپہر کے ڈھائی بج رہے تھے ۔۔۔۔ شدید گرمی اور بجلی بھی دو گھنٹے سے غائب تھی ۔۔۔۔۔ اسے ایک اتوار کا دن ہی تو ملتا تھا گھر میں گزارنے کے لئے ۔۔۔۔ اور وہ سارا دن سو کر گزارتا تھا ۔۔۔۔۔ یہی اس کی عیاشی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن آج کا دن ہی اس کے لئے منحوس ثابت ہوا تھا ۔۔۔۔ صبح دودھ لینے نکلا تو جیب کٹ گئی ۔۔۔۔۔ اکلوتے پانچ سو روپے جیب کترے کی نظر ہوگئے ۔۔۔۔ اور راستے میں اکلوتا جوتا بھی ٹوٹ گیا ۔۔۔۔ وہ دل میں چور کے ساتھ اپنی اکلوتے جوتے کو بھی کوستا ہوا گھر میں داخل ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اور دودھ کے بغیر ہی کالی کلوٹی چائے زہر مار کی تھی ۔۔۔۔۔۔ اور باسی روٹی کھا کر ۔۔۔ پھر لیٹا تو دستک کی آواز پر ہی آنکھ کھلی تھی ۔۔۔۔ جمائی لیتا برے برے منہ بناتاوہ اٹھ کر دروازے پر آکر رک گیا ۔۔۔

کون ہے بھائی ۔۔۔۔

ابے دلاور کھول دروازہ ۔۔۔۔۔

مانوس بھدی آواز سن کر دروازہ کھولا تو شیدا جلدی سےاندر گھس گیا ۔۔

اوئے شیدے تو اس وقت ۔۔۔۔۔ یار موقع دیکھ کر آیا کرنا ۔۔

کیوں کیا تیری جورو سورہی ہے اندر جو اس طرح بول رہا ہے ۔۔۔۔

وہ پیلے دانتوں کی نمائش کرتا ہوا بولا ۔۔۔

توُ پٹنے والی باتیں نہ کر مجھ سے ۔قسم سے ایک دن کوُٹ ڈالونگا تجھے ۔۔۔

اچھا کیا ہاتھ میں میں نے چوڑیا پہن رکھی ہیں جو تیرے ہاتھوں پٹ جاؤنگا ۔۔۔۔

رشید عرف شیدا بُرا مناتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔

شیدے ڈیڑھ پسلی پر اتنا اکڑتے نہیں ہیں ۔۔۔ کنوارہ ہی کوُچ کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے کیا ۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ اچھا ایک تیرا بھلا کرو اوپر سے باتیں بھی سنو ں ۔۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا ۔۔۔۔

اچھا اب مظلوم بننے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ بتا کس کام کے لئے آیا ہے تُو ۔۔۔۔

تیرا کام ہوگیا ہے سیٹھ سے بات کی ہے تیرے لئے ۔۔۔ کل بلایا ہے تجھے ۔۔۔جاکر ملو ۔۔۔اور ہاں وقت کا پابند ہے ۔۔۔ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے آفس پہنچ جانا ۔۔۔۔

پھر جیب سے پرچی نکال کر دلاور کے ہاتھ میں تھمائی تھی ۔۔۔

یہ پتہ درج ہے اس پر ۔۔۔ اچھے سے تیار ہوکر جانامیرے مولا نے چاہا تو تیرا کام ہوجائے گا ۔۔۔۔

اوئے یار تمہارا بہت شکریہ ۔۔۔۔

دلاور فرطٍ جذبات سے لپٹ گیا تھا اس سے ۔۔۔۔

اچھا بھائی تو سے تم پر آگئے اب آپ جناب پر لانے کے لئے اور کیا کرنا پڑے گا مجھے ۔۔۔۔

تُو چاہتا ہے کے ہمارے درمیان تکلف کی دیوار کھڑی ہوجائے تو ٹھیک ہے تجھے نہیں آپ کو رشید صاحب کہہ کر بلاؤنگا آج سے ۔۔۔

اچھا اب زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ بس ہمارے درمیان تُو تڑاک ہی ٹھیک ہے ۔۔۔۔

وہ جھوٹ موٹ منہ بنا کر بولا تھا تو دلاور مسکرا دیا ۔۔۔۔جانتا تھا اپنے جگری یار رشید کو ۔۔۔۔ دُبلا پتلا رشید دل کا کتنا اچھا تھا ۔۔۔ محلے میں سب کا ہی سانجھی یار تھا ۔۔۔ جب کسی کو ضرورت پڑتی شیدا حاضر ہوتا ۔۔۔۔ لاوارث تھا ۔۔ محلے کے مولوی صاحب کے دل میں اللہ نے رحم ڈالا تو اس بے یارو مددگار بچے کو گھر لے آئے ۔۔۔ مولوی صاحب کی بیگم کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔۔۔ مگر اس مہنگائی کے دور میں مفت کا نوکر کسے برا لگتا ہے ۔۔۔ سوائے مولوی صاحب کے گھر کے باقی افراد نے اسے نوکر ہی سمجھ لیا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور دس سالہ رشید جسے مولوی صاحب کے گھرانے نے ایک نیا نام دے دیا تھا شیدا اس احسان کے بدلے اپنی ساری زندگی مولوی صاحب کی چاکری میں گزارنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔۔۔ لیکن بھلا ہو مولوی صاحب کا مرتے وقت اسے قسم دے گئے کے اب وہ ان کی خود غرض فیملی کی چاکری نہیں کرے گا بلکے اب وہ خود کے بارے میں سوچے گا ۔۔۔۔۔ اور وہ مولوی صاحب کی بات کہاں ٹال سکتا تھا ان کے انتقال کے بعد اس نے وہ گھر ہی چھوڑ دیا ۔۔۔ مولوی صاحب کی بیگم بڑا تلملائی تھی مگر اسے روک نہ پائی ۔۔۔مفت کا نوکر ہاتھ سے جانے کا اسے بڑا ملال تھا ۔۔۔ گھر تو چھوڑ دیا مگر محلہ چھوڑ کر جا نہیں سکا ۔۔۔ دلاور جو تھا یہاں ۔۔۔۔ دلاور نے ہی پیچھے پڑ کر اسے پرائیویٹ انٹر کرا دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ دلاور شیدے کا بچپن کا دوست تھا ۔۔۔ محلے کا وہ واحد بچہ جس کے کاندھے پر سر رکھ کر شیدا کبھی کبھار اپنے دل کا غبار نکال لیا کرتا تھا ۔۔۔ دلاور کی کہانی بھی کچھ کچھ شیدے جیسی ہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ دلاور کا باپ زندہ تھا مگر ماں مر چکی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ سوتیلی ماں نے اسے کبھی اپنا بچہ سمجھا ہی نہیں ۔۔۔۔ دلاور خوبصورت بچہ تھا ۔۔۔ اوپر سے بلا کا ذہین بھی ہر کلاس میں اول پوزیشن لے کر آتا تھا ۔۔۔ اور اس کے سوتیلے بہن بھائی واجبی شکل صورت کے تھے ساتھ میں کڑھ مغز ساتویں آٹھویں کلاس سے آگے پڑھ ہی نہ پائے ۔۔۔۔ سوتیلی ماں نے کوشش تو بہت کی کسی طرح دلاور کو بھی پڑھائی سے روک دے وہ اس کا اسکول جانا تو بند نہیں کراسکی مگر بیچارے کو اسکول سے واپس آنے پر پڑھنے اور کھیلنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا ۔۔۔ کبھی گھر کی صفائی تو کبھی ڈھیر سارے برتن مانجھتا ۔۔۔ ساتھ میں سوتیلی ماں کی سلواتیں سننے کو ملتیں ۔۔۔۔۔ مگر جیسے ہی باپ کے آنے کا وقت قریب آتا ماں سر پر دوپٹہ باندھ کر کام میں جت جاتی ۔۔۔۔ اور ایسے پوز کرتی کے سارا کام تو اس نے اور اس کے بچوں نے کیا ہے اور دلاور تو فقط بیٹھ کر آرام کرتا رہا ۔۔۔ دلاور ماں کی مار کے ڈر سے خاموش رہتا ۔۔۔۔ باپ بھی اسے کام چوری اور گھر کے کام نہ کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ کرتا ۔۔۔ اور ماں دل ہی دل میں خوش ہوتی ۔۔۔ مگر اسے حیرت تھی کہ اس پر بھی وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا ہے بلکے اپنی جماعت کا سب سے ہونہار بچہ ہے ۔۔ انٹر تک یہ سلسلہ یونہی چلا پھر اس کے والد شدید علیل ہوکر صاحب فراش ہوئے تو چھوٹے بھائیوں اور بہنوئیوں نے دکان پر قبضہ کر لیا ۔۔۔ اور اس کے والد کی پرچون کی دکان بیچ کر حصے بقرے کرلئے ۔۔۔۔ اس کے والد کے بیمار ہوتے ہی سوتیلی ماں نے اپنے شوہر سے بھی آنکھیں پھیر لیں ۔۔۔۔ اور ان کے سامنے ہی اب دلاور کے ساتھ برا سلوک کرنے لگی ۔۔۔ ابراہیم اب اپنے بیٹے سے سخت شرمندہ تھے ۔۔۔ لیکن کچھ کر نہیں سکتے تھے اب اس کے لئے ۔۔ انہیں اپنی دوسری بیوی اور بچوں سے اپنے بڑے بیٹے دلاور کے لئے کسی اچھے سلوک کی امید نہیں تھی ۔۔۔ دوسال وہ یونہی بسترٍمرگ پر رہے پھر جب دلاور کراچی یونیورسٹی میں بی ایس کے تھرڈ ائیر میں تھا تب ایک دن چپ چاپ آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔ ابراہیم کی موت کے ساتھ ہی دلاور کا اپنے سوتیلے رشتوں سے رشتہ بھی ٹوٹ گیا ۔۔۔ انہوں نے اسے گھر سے باہر نکال دیا ۔۔۔۔ اور جو باپ نے اس کی پڑھائی کے لئے رقم جوڑ رکھی تھی وہ بھی چھین لی ۔۔۔۔ اس وقت ایک ہی شخص تھا اس کا ہمدرد شیدا جس سے لپٹ کر وہ خوب رویا تھا ۔۔۔ پھر شیدے نے ہی اس کے رہنے کا انتظام اسی محلے میں کر دیا تھا ۔۔۔۔ ایک کمرے کا کرایہ کا مکان دلا دیا ۔۔۔ اب صبح یونیورسٹی جاتا اور واپسی میں ڈفینس کے ایک پوش ریسٹورینٹ میں ایک ویٹر کی حیثیت سے جاب ۔۔۔۔ فائینل ائیر کے بعد کئی جگہ نوکری کے لئے سرگرداں رہا ۔۔۔ مگر کوئی اچھی جاب نہ ملی ۔۔۔ تقریباً مایوس ہی ہوچکا تھا کہ شیدا ہی پھر سے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا تھا اس کے لئے ۔۔۔اور اب جہاں وہ ڈرائیوری کرتا تھا اسی سیٹھ سے اس کے لئے بات کی تھی ۔۔۔۔ جس کی ملٹی نیشنل کمپنی تھی ۔۔۔۔
اور رشید کے کہنے پر اسے کل آفس بلایا تھا ۔۔۔۔
××××××××××××
اُفف ! یہ جو بوتھا سوجا کر رکھتی ہو نا قسم سے ایسا لگتا ہے جیسے تم نہیں سامنے ڈونلڈ ٹرمپ بیٹھا ہو ۔۔۔۔ یار کچھ تو خدا کا خوف کرو ۔۔۔۔

اچھا زیادہ بکو نہیں ۔۔۔۔ دیکھا نہیں اس ریما کو کس طرح افراز سے فری ہونے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ قسم سے اس پرکٹی کو ایک دو دھموکے لگانے کا دل چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ اور وہ افراز کا بچہ بھی کیسے بچھا جا رہا تھا ۔۔۔۔

اوہ ! تو یہ بات ہے ۔۔ جبھی تو میں کہوں یہ جلنے کی بوُ کہاں سے آرہی ہے ۔۔۔۔ ریما بی بی تو ہر کسی سے ایسے ہی فری ہوجاتی ہیں چاہے وہ افراز ہو یا کوئی اور بانکا سجیلا ۔۔۔۔ تم فکر نہ کرو ۔۔۔۔ اور اپنا خون جلانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ افراز ایسا لڑکا نہیں ہے جو ہر ایری غیری نتھو خیری کو لفٹ کراتا پھرے ۔۔۔

واہ ! میں کیوں اپنا خون جلانے لگی ۔۔۔ میری بلا سے وہ کسی سے بھی فلرٹ کرتا پھرے ۔۔۔ آئی رئیلی ڈیم کئر ۔۔۔

اوہو واقعی ۔۔۔ مس علینہ ہاشمی واقعی آپ کو کچھ فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔

ارمینہ شرارت سے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے بولی تھی تو علینہ غصے سے اسے گھورتی اُٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ اور بنا کچھ کہے کمرے سے ہی واک آؤٹ کرگئی ۔۔۔ علینہ اور ارمینہ دونوں عثمان ہاشمی کی بیٹیاں تھیں ویسے تو یہ چار بہن بھائی تھے علینہ سب سے بڑی تھی جس کی منگنی عثمان صاحب کی بہن شنیلا عرفان کے بیٹے فراز عرفان سے ہوچکی تھی ۔۔۔ اس کے بعد ارمینہ تھی انتہائی نٹ کھٹ اور لاپرواہ قسم کی پھر علی بھائی اور سب سے آخر میں صوفیہ ۔۔۔ ویسے علی بھائی اکلوتے بیٹے تھے مگر تینوں بہنوں کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی تھی ۔۔۔ امی اور بابا جان سے انہیں اسی بات کا شکواہ تھا ۔۔۔ کہ اکلوتے ایک بیٹے ہونے کے بوجود ان کے ساتھ کسی تیسری دنیا کے باشندے جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔۔۔ اور صوفیہ بیگم تھیں تو ابھی صرف دس سال کیں مگر حد درجہ سنجیدہ مزاج ۔۔۔ مجال ہے کبھی انہیں بچوں کی طرح کسی نے شرارتیں کرتے موج مستی کرتے دیکھا ہو ۔۔۔ بہرحال یہ گھرانہ ایک خوشحال گھرانہ تھا ۔۔۔۔

×××××××××××
وہ صبح فجر کی اذان سے پہلے ہی اُٹھ بیٹھا تھا ۔۔۔۔ اکلوتی گھڑی پر نظر پڑی تو ابھی صرف چار بج رہے تھے ۔۔۔۔ الارم سسٹم خراب تھا اس کا وقت پر الارم کبھی بجتا ہی نہیں تھا ۔۔۔ خیر اب اٹھ گیا تھا تو نیند تو اب دوبارہ لگنی نہیں تھی ۔۔۔ اس لئے غسلخانے میں جاکر منہ ہاتھ دھونے لگا ۔۔۔ اس سے فارغ ہو کر واپس کمرے میں آگیا اور اس چھوٹی بوسیدہ سی الماری کی طرف جو ایک سائیڈ پر رکھی تھی کے پاس جاکر رک گیا ۔۔۔ پھر الماری کا پٹ کھول کر اس میں ہینگ ہوئے ڈریس شرٹ اور پینٹ کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔ الماری میں صرف چار پانچ ہی جوڑے رکھے تھے جن میں سے دو ہی ایسے تھے جو وہ آفس اگر جاب لگ گئی تو پہن کر جا سکتا تھا ۔۔۔۔ خیر اب جاکر دیکھنا تھا شیدے کے سیٹھ صاحب اسے جاب دیتے بھی ہیں یا ٹرخا دیتے ہیں ۔۔۔۔ الماری کا پٹ بند کرتا ہوا وہ کمرے سے باہر نکل آیا اورچھوٹے سے صحن کے ایک سائیڈ پر بنے اس باورچی خانے کی طرف بڑھ گیا جسے اس نے مائیکرو اسکوپک کچن کا نام دیا تھا ۔۔۔ اپنے لئے چائے بنا کر اور انڈہ بنا کر باہر نکل آیا اور اس چھوٹی سی میز پر اپنا ناشتہ رکھ کر اکلوتی واحد پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا ۔۔۔۔ ابھی آخری لقما منہ میں رکھا ہی تھا دروازہ کسی نے زور زور سے بجانا شروع کردیا ۔۔۔۔

اتنی صبح کون آگیا ۔۔۔۔ آج تو بخش دو یار مجھے ۔۔۔

وہ جھنجھلا کر اُٹھتا ہوا خود سے بولا تھا ۔۔۔۔ اور لمبے قدم اُٹھاتا ہوا گیٹ کے قریب پہنچا تھا ۔۔۔ کچھ پوچھنے کی بجائے غصے سے دروازہ کھولا تھا مگر سامنے شیدا اپنی پوری بانچھیں چیرے کھڑا تھا ۔۔۔۔

اوئے تُو اتنی صبح ۔۔۔۔

تو میرے یار کا گھر ہے کبھی بھی آؤں تجھے کیا ۔۔۔۔

وہ اسے ایک طرف کرتا ہوا اندر داخل ہوگیا تھا ۔۔۔

ویسے تیاری میں کتنا ٹائیم لوگے ۔۔۔

کیا مطلب ! ابھی تو پونے ساتھ ہی بجے ہیں اتنی جلدی تیار ہوجاؤں ۔۔۔۔

دیکھ بھائی آج انٹرویو کے لئے تو جا رہا ہے میں نے سوچا تجھے اپنی بائیک پر آج لفٹ دے دیتا ہوں ۔۔۔ وقت پر پہنچے گا تو امپریشن بھی اچھا پڑیگا سیٹھ پر ۔۔۔ ویسے بھی وہ بہت وقت کا پابند ہے ۔۔۔ اگر بس لیٹ ہوگئی تو یہ نوکری تو تیرے ہاتھ سے گئی ۔۔۔۔

ٹھیک ۔۔۔ ابھی تیار ہوجاتا ہوں ۔۔۔۔ کچھ اور حکم ۔۔۔

وہ سر خم کرتا ہوا بولا ۔۔۔

نہیں توُ جاکر تیار ہو میں تیرا چوہے کا بٍل ( کچن ) تو ذرا دیکھ لوں ۔۔۔ وہ اس سے کہتا ہوا کچن کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔

پیٹو کہین کا ۔۔۔ دلاور یہ کہہ کر اپنے کمرے میں جاکر تیار ہونے لگا ۔۔۔۔

××××××××××××××××××××

افراز میاں کافی عرصے سے دیکھ رہے تھے علینہ کے بگڑے مزاج کو ۔۔۔ نہ فون پر بات کرتی اور نہ ہی گھر پر آنے پر لفٹ کراتی ۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوگیا تھا اسے ۔۔۔ خیر کچھ سوچ کر ارمینہ کا سیل نمبر ملانے لگے ۔۔۔۔

تیسری بیل پر ارمینہ کی جگہ اسی کافر ادا کی آواز گونجی تھی ۔۔۔

یہ تم نے ارمینہ کے نمبر پر کیوں فون کیا ہے ۔۔۔ کیا بات کرنا چاہتے ہو اس سے ۔۔۔

شک میں پوُر پُور ڈوبی آواز ۔۔۔

کیوں کزن ہے میری اس سے بات کرنے کے لئے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے مجھے ۔۔۔

افراز میاں کو بھی بات سن کر تاؤ آگیا ۔۔۔۔ جس پر ادھر سے سیل فون بند کردیا گیا ۔۔۔۔ تو غصے سے انہوں نے بھی اپنا سیل فون زمین پر پٹخ دیا ۔۔۔ ابھی باہر نکلنے لگے تو زمین پر پڑا سیل فون بجنے لگا ۔۔۔ نکلنے کا اٍرادہ ترک کر کے واپس پلٹے اور فون اُٹھا دیکھا تو سکرین پر ارمینہ کا نمبر بلنک کر رہا تھا ۔۔۔۔ فوراً کان سے لگا لیا ۔۔۔

ہیلو افراز بھائی اسلامُ علیکم ۔۔۔ آپ نے فون کیا تھا ۔۔۔

جی اور غالباً آپ کی جگہ آپ کی بہن نے اُٹھا لیا تھا ۔۔۔

جی معلوم ہے مجھے ۔۔۔

ویسے محترمہ کو ہوا کیا ہے ۔۔۔۔

میں خود بھی سمجھ نہیں پارہی ہوں ۔۔۔ پتہ نہیں اسے ہو کیا گیا ہے ۔۔۔۔

پلیز اسے سمجھاؤ ذرا ذرا سی بات پر شک کہیں ہمارے رشتے میں دراڑ نہ ڈال دے ۔۔۔

جی ۔۔۔

وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی ۔۔۔ کہتی بھی کیا ۔۔۔ ابھی اس کے فون پر افراز کا فون کرنے پر ہی اس نے عجیب سی بات کی تھی جسے سن کر ارمینہ شاکڈ رہ گئی تھی ۔۔۔

××××××××××

ان کے کمرے میں تنتناتی ہوئی داخل ہوئی تھی ۔۔۔

امی مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔

ہمم کہو ۔۔۔ ویسے یہ علی کہاں رہ گیا ۔۔۔

مجھے نہیں معلوم علی کا ۔۔۔۔ آپ میری بات سنیں گی یا نہیں ۔۔۔۔
کیا بات ہے علینہ ۔۔۔ یہ تم مجھ سے کس لہجے میں بات کر رہی ہو ۔۔۔

امی میں افراز سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔

وجہ ؟

وہ ایک آوارہ اور بد چلن شخص ہے ۔۔۔ اور میں اپنی زندگی ایک آوارہ کے ساتھ نہیں گزار سکتی ۔۔۔

علینہ تمہارا دماغ تو درست ہے ۔۔۔ یہ تم کیا اول جلول بکے جارہی ہو ۔۔۔

رئیسہ بیگم اس کی بات سن کر چکرا گئیں تھیں ۔۔۔

بالکل ہوش میں ہوں ۔۔۔۔ میں اس بے غیرت انسان سے شادی نہیں کرناچاہتی ۔۔۔۔ وہ ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے ۔۔۔۔ آپ کو پتہ ہے آپ کی چہیتی ارمینہ اور افراز پیٹھ پیچھے کیا گُل کھلا رہے ہیں ۔۔۔

کک کیا مطلب ! یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم ۔۔۔۔

یقین نہیں آرہا ناں مجھ پر تو یہ دیکھیں ۔۔۔۔

بایاں ہاتھ جس میں کچھ تصویریں دبی ہوئی تھیں سامنے کیا تھا ۔۔۔ کپکپاتے ہاتھوں سے رئیسہ بیگم نے وہ تصویریں اس کے ہاتھ سے لیکر دیکھی تھیں ۔۔۔ ان تصاویر کو دیکھ کر انہیں غش آگیا تھا اور وہ وہیں گر کر بے ہوش ہوگئیں ۔۔۔۔۔

×××××××××

ارمینہ کالج سے جب واپس گھر لوٹی تو گھر میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اسے ایک عجیب سی ویرانی اور وحشت سی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔

امی ۔۔۔ امی ۔۔ کہاں ہیں آپ ۔۔۔۔ بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔ پلیز جلدی سے کھانا نکال دیں ۔۔۔

وہ آوازیں دیتی ہوئی ان کے کمرے میں جھانکا تھا ۔۔۔ جو خالی تھا ۔۔۔۔ علی اور صوفیہ ہمیشہ اس کے بعد گھر پہنچتے تھے ۔۔۔۔۔ وہ کچھ دیر تو اپنی ماں کو ڈھونڈتی رہی ۔۔۔ مگر وہ ہوتیں گھر تو ملتی خیر پریشانی میں علینہ کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔

ہیلو ۔۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔ علینہ امی کہاں ہیں ۔۔۔۔

اوہ تم ہو ۔۔۔۔ امی اس وقت ہوسپٹل میں ہیں ۔۔۔۔ اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔

کک کیا مطلب ۔۔۔۔ میں سمجھی نہیں ۔۔۔۔

سمجھ جاؤ گی ذرا ابو اور امی کو گھر تو پہنچنے دو ۔۔۔ بے غیرت ہنہ ،،،

زہر خند لہجے میں کہہ کر علینہ نے فون بند کردیا تو وہ حیرت سے اپنے سیل فون کو دیکھنے لگی ۔۔۔

امی ہوسپٹل میں ۔۔۔ مم میری وجہ سے ۔۔۔
خود سے سوال کیا تھا ۔۔۔ بھوک اڑ گئی تھی امی کے ہوسپٹل میں ہونے کا سن کر ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد علی اور صوفیہ بھی گھر پہنچ گئے تھے ۔۔۔۔

ارمینہ یہ امی کہاں ہیں قسم سے بڑے زور کی بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔۔

علی نے ارمینہ سے پوچھا تھا اور ساتھ ہی بھوک کا رونا بھی رویا تھا ۔۔۔۔ تو وہ اس کی بات کا کچھ جواب دینے کی بجائے کچن میں چلے گئی تھی ۔۔۔۔

اُف بھائی ایک تو آپ کی بھوک کا کچھ علاج کرنا پڑیگا ۔۔۔ ہر تھوڑی دیر بعد بھوک بھوک کا نعراہ لگانا شروع کردیتے ہیں آپ ۔۔۔

تو کھاتا پیتا اکلوتا ایک بچہ ہوں امی ابو کا ۔۔۔۔ تمہاری طرح چگتا نہیں ہوں ۔۔۔

جی بالکل ایک اکلوتے بس آپ ہی ہیں ۔۔ ہم تینوں تو پڑوسی کی بیٹیاں ہیں ناں ۔۔۔

صوفیہ نے بُھنا کر جواب دیا تو وہ مسکرایا تھا ۔۔۔۔ پھر ٹھنڈی سانس بھر کر ۔۔۔

کاش پڑوسی کی بیٹیاں ہوتیں تم تینوں تو کتنا اچھا ہوتا ۔۔۔۔ امی ابو اور بس میں ہوتے آہا اور پڑوسی انکل سر پکڑ کر رورہے ہوتے ۔۔۔۔

جی ۔۔۔ مگر یہ حسرت بس دل کی دل میں رکھئے ۔۔۔ اس زندگی میں تو یہ ممکن نہیں ۔۔۔

صوفیہ نے علی کو چڑایا تھا تو وہ بھی جھوٹ موٹ منہ بنا کر دائیننگ ٹیبل پر بیٹھ کر دوبارہ بھوک بھوک کا نعراہ لگانے لگا تھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں ہی ارمینہ نے کھانا نکال دیا تھا ۔۔۔ رئیسہ بیگم کے ہسپتال جانے کی خبر اس نے دونوں کو بتانا ابھی ضروری نہیں سمجھا تھا ۔۔۔۔ اس نے بھی چپ چاپ دو چار لقمے ساتھ بیٹھ کر کھا لئے تھے ۔۔۔

ارمینہ آپی یہ امی کہاں رہگئیں ۔۔۔ ابو بھی ابھی تک نہیں لوٹے اپیا (علینہ) بھی گھر سے غائب ہیں ۔۔۔ آپ نے کال کی تھی سب کو ۔۔۔

ہمم ۔۔۔ آجائینگے فکر مت کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی اتنا ہی بولی تھی ارمینہ صوفیہ کے پوچھنے پر کہ ایک دم بیل بجی تھی ۔۔۔۔

لگتا ہے امی آگئیں ۔۔۔۔

علی یہ کہتا ہوا گیٹ کھولنے گھر سے باہر نکل گیا ۔۔۔ دونوں بہنیں بھی بیتابی سے مین ڈور کی طرف دوڑی تھیں ۔۔۔
علی نے پورا گیٹ کھول دیا تو ابو کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔ پورچ میں جیسے ہی گاڑی کھڑی ہوئی ۔۔۔ عثمان صاحب ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکلے ۔۔۔ پیچھے بیٹھی علینہ بھی دروازہ کھول کر باہر نکلی پھر دونوں نے فرنٹ سیٹ کا دراوزہ کھول کر رئیسہ بیگم کو سہارا دیا تھا ۔۔۔۔ رئیسہ بیگم لرز رہی تھیں ۔۔۔ ان کے چہرے پر مردنی سی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ارمینہ ماں کی ایسی حالت دیکھ کر بے تابی سے آگے بڑھی تھی ان کی طرف ۔۔۔۔ قریب پہنچی ہی تھی کہ عثمان صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک زور کا تھپڑ مارا تھا اس کے گال پر ۔۔۔۔

خبردار ! ۔۔۔ علی اس سے کہو میری نظروں سے دور ہوجائے ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔

ارمینہ حیرت اور صدمے سے وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔۔۔ اسے نفرت اور غصے سے کہتے ہوئے پھر علی سے بولے تھے ۔۔۔ علی جو گیٹ بند کر کے پلٹا ہی تھا کہ یہ سین دیکھ کر گھبرا گیا ۔۔۔۔ عثمان صاحب کے حکم پر فوراً ہی ارمینہ کو شانوں سے تھامتا ہوا اندر لے گیا تھا ۔۔۔۔ اور ارمینہ صدمے کی سی کیفیت میں اس کے ساتھ ہولی تھی ۔۔
جس باپ کی آنکھوں میں ان کے لہجے میں ہمیشہ ایک مان اور پیار جھلکتا تھا اس کے لئے آج ان آنکھوں میں اس کے لئے نفرت تھی ۔۔۔ حقارت تھی ۔۔۔ اور اس کی وجہ اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔

××××××××××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 216099 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More