میلاد پاک

میلاد النبی ﷺ کا ایک اہم مقصد محبت اور قرب رسول اللہ ﷺ کا حصول اور نعمت خداوندی کا شکر بجا لانا ہے۔ میلاد النبی ﷺ میں تلاوت قرآن پاک، رسول اللہﷺ کی نعت، کمالات و فضائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی غیر شرعی کام نہیں ہے۔ بلکہ تلاوت کلام پاک صحابہ اور خود رسول اللہﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔ رہی بات نعت، کمالات اور فضائل مصطفٰی کریمﷺ تو یہ صحابہ کی سنت مبارکہ(ثناء خوان مصطفٰی کریمﷺ صحابہ کے نام: حضرت حسان بن ثابت، حضرت کعب بن مالک، حضرت عبداللہ بن رواحۃ، حضرت عباس بن مطلب، حضرت حمزہ رضوان اللہ علیم اجمعین ۔ان کے علاوہ اور بھی بہت بڑھے بڑھے نام ہیں)۔

قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا ارشادِ پاک ہے: قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذٰلک فلیفرحو ھوا خیرمما یجمعون
ترجمہ: فرما دیجیے (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت کے باعث ہے( جو بعثت نبوی کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔

یہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ میری رحمت اور فضل پر خوشی مناؤ۔

آگے ایک اور جگہ پر اللہ تعالی کا ارشادِ پاک ہے: وما ارسلناک الا رحمۃ اللعلمین۔
ترجمہ: اور نہیں ہم نے آپ کو بھیجا مگر تمام جہانوں کے واسطے رحمت بنا کر ۔

اللہ تعالٰی نے پہلے اپنی رحمت اور فضل پر خوشی منانے کا حکم دیا اور خوشی بھی ایسی جو ہمارے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔ اور ساتھ ہی دوسری جگہ پر اپنی رحمت کا بھی ذکر کردیا۔

پیارے مسلمان بھائیوں سوچنے کی بات ہے کہ اللہ تعالٰی نے ساری کائنات انسان کے واسطے مسخر کردی اور ہزاروں کی تعداد میں اپنی عظیم نعمتوں سے نوازا جو ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ فرض کیا اگر سب انسانوں میں صرف ایک نعمت دیکھنے والی ختم کردی جائے تو سارے معاشرے کا کیا حال ہوگا؟ ہم پر اللہ پاک کی انتی نعمتیں اور احسانات ہیں کہ جن کو ہم چاہ کر بھی شمار نہیں کر سکتے۔ یہ سب نعمتیں اور احسانات بلا امتیاز ہر ایک پر ہیں۔ (مسلمان اور کافر کا فرق نہیں)

ارشاد باری تعالٰی ہے: لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم
ترجمہ: بے شک اللہ تعالٰی نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہیں میں سے عظمت والا رسول(ﷺ) بھیجا۔

اللہ تعالٰی نے اپنی ان گنت نعتوں اور احسانات میں کوئی ایک احسان بھی ایسے نہیں جتایا۔ لیکن ایک احسان جو بڑے واضح انداز سے مسلمانوں کو مخاطب کر کے جتایا ہے اور وہ یہی احسانِ عظیم ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشادِ باری تعالٰی ہے: لءن شکرتم لازیدنکم ولءن کفرتم ان عذابی لشدید۔
ترجمہ: اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر(نعمتوں میں) ضرور اضافہ کرونگا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو میرا عذاب یقینًا سخت ہے۔

اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے مزید برکتیں اور رحمتیں حاصل ہوتی ہیں اور اگر کوئی انکار کرے گا تو اس کے واسطے سخت عذاب ہے۔

اب اگر ہم میلاد منا کے اللہ تعالٰی کی نعمتِ عظمیٰ اور احسانِ عظیم کا شکر ادا کرتے ہیں تو یہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرمان پر ہی عمل کرتے ہیں۔

ابو لہب جیسے بد بخت کافر کے واسطے اپنے بھتیجے کی خوشی میں لونڈی آزاد کردینے پر عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے تو اس مسلمان امتی کی اللہ عزوجل کے پیارے حبیب اور اپنے آقاﷺ کے میلاد کی خوشی منانے سے کیوں نہ درجات بلند ہوں۔

ارشاد باری تعالٰی ہے: و اما بنعمۃ ربک فحدث۔
ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔

جب اللہ تعالٰی نے ہم پر اپنا نبیﷺ بھیج کر اتنا بڑا احسان عظیم کیا اور آپﷺ کے وسیلہ جمیلہ سے ہمیں ایمان جیسی اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے تو ہم کیوں نہ اس احسان کا ذکر کریں اور خوشی کریں جس کا حکم بھی اللہ تعالٰی کی ذات پاک نے دیا ہے۔

اب جن کو نبی آخر زمان ﷺ کے میلادِ پاک کی خوشی نہیں تو ہم اُن سے زبردستی نہیں کرسکتے۔

اور رہی بات میلاد کے طریقے کی تو اس میں کوئی بھی غیر شرعی حرکت نہیں کرنی چا ہیے جس طرح چند نادان لوگ کرتے ہیں۔ یہ دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔

نثار تیری چہل پہل پہ ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سواءے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں

آج میلادالنبی ﷺ ہے کیا سہانا نور ہے
آگیا وہ نور والا جس کا سارا نور ہے
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 58308 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.