کتاب۔ مشاہیر ادب کے خطوط بنام پروفیسر غازی علم الدین

پروفیسر حفیظ الرحمن احسن اسلامی ‘ اصلاحی اور تحقیقی ادب میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں ۔وہ تحسین اردو کے شریک مصنف کے علاوہ بھی فصل زیاں ‘ نرسری رائمز سمیت کئی علمی و مذہبی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ انہیں مولانا ئے مودودی ؒ کے درس قرآنی کو کیسٹوں میں محفوظ کرنے اور انہیں کتابی شکل دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ وہ پاکستان کے سب سے ضخیم ادبی شمارے "سیارہ ۔ لاہور "کے مدیر بھی ہیں ۔ادبی سیارہ ایک ایسا مجلہ ہے جو پاکستان کے علاوہ بھارت ‘ بنگلہ دیش میں اردو لکھنے اور بولنے والوں میں یکساں مقبول رہا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیارہ نے برصغیر پاک وہند کے ادیبوں ‘ شاعروں اور مصنفین کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ حمد باری تعالی اور نعت رسول مقبول ﷺ لکھنا بھی آپ کے پسندیدہ شعبوں میں شامل ہے ۔ آپ سیالکوٹ کے نواحی شہر" پسرور" کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ مرے کالج سیالکوٹ میں تعلیم حاصل کرکے درس و تدریس کے شعبے کومعاش کا ذریعہ بنایا۔ کچھ عرصے بعد ملازمت کو خیر باد کہہ کرایوان ادب کے نام سے اردو بازار لاہور میں اپنا ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جو کئی عشروں تک اردو ‘ معاشیات اور سیاسیات کی معیاری کتب کی اشاعتی مرکز بنا رہا۔ آپ حلقہ ادب کے بھی بانی ہیں جس کا ہفتہ وار اجلاس پاک ٹی ہاؤس اور دیگر مقامات پر باقاعدگی سے جاری رہا ۔ آپ کے علم و فن اور شخصیت سے مستفید ہونے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے ۔زیر نظر کتاب "مشاہیر ادب کے خطوط بنا م پروفیسر غازی علم الدین "آپ کی مرتب کردہ ہے ۔جبکہ اس سے پہلے بھی آپ کئی ضخیم کتابوں کی تدوین اورترتیب کا فریضہ انجام دے چکے ہیں ۔

پروفیسر حفیظ الرحمن احسن ‘ پیش گفتار میں لکھتے ہیں کہ مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین ‘ متنوع مزاج فکرکے حامل افراد کے رنگا رنگ مکاتیب پر مشتمل ہے جن میں مشاہیر ادب نے غازی صاحب کی تصانیف ‘ لسانی نظریات اور اسلوب کے بارے میں کھل کر اظہارخیال کیا۔اس مجموعے کااختصاس یہ ہے کہ اس میں شامل زیادہ تر خطوط لسانی مباحث (اردو زبان کے تعلق سے) شخصی مطالعات ‘ علمی اور ادبی موضوعات پر مبنی ہیں ۔یہ مجموعہ طویل اور مختصر خطوط پر مشتمل ایک قیمتی ارمغان علمی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ زیادہ تر خطوط سنجیدہ اور ذمہ دارانہ اظہار خیال پر مبنی ہیں جن میں تحسین و تنقید ‘ تحقیق و تدقیق اور تجزیہ و محاکمہ کی رنگا رنگی پائی جاتی ہے ۔جو اس کتاب کوایک منفرد حیثیت عطا کرتی ہے ۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں اس عظیم شخصیت ( پروفیسر غازی علم الدین )کا تعارف بھی کرواتا چلوں جن کے نام لکھے جانے والے خطوط اس کتاب کا محرک بنے ۔ وہ اپنے دور کی علمی و ادبی تحریک کے روح رواں ہیں ۔ اردو ادب ‘لسانی مباحث ‘ شخصی مطالعات ‘ علمی و ادبی موضوعات پر مبنی برصغیر پاک و ہند کی اردو سے والہانہ محبت کرنے والی شخصیات کو ایک لڑی میں پرو کر ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے اردو ادب میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔پروفیسر غازی علم الدین یکم جنوری 1959ء میں قصور کے ایک نواحی قصبے "برج کلاں" میں میاں شہاب الدین کے گھر پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم پرائمری سکول برج کلاں اور ثانوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول گنڈا سنگھ والا ضلع قصور میں حاصل کی جبکہ انٹرمیڈیٹ اور گرایجویشن کاامتحان گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور سے پاس کرکے ایم اے عربی اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور ‘ ایم اے اسلامیات پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ جبکہ ایم فل کی ڈگری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے 1999ء حاصل کرکے تدریسی شعبے کو ذریعہ معاش بنایا اور گورنمنٹ انٹرکالج فورٹ عباس ضلع بہاولنگر سے ملازمت کا آغاز کیا ۔بعدازاں کوٹلی ‘ میرپور ‘ ڈڈیال آزادکشمیر کے کالجز میں تدریسی فرائض انجام دیئے ۔مئی 2013ء میں آپ کو پرموٹ کرکے پرنسپل گورنمنٹ کالج گل پور آزادکشمیر تعینات کردیا گیا جہاں آپ جنوری 2014ء تک تعینات رہے ۔بعد ازاں گورنمنٹ ڈگری کالج افضل پور ‘ پوسٹ گرایجویٹ ایجوکیشن کالج میرپور میں بطور پرنسپل خدمات انجام دے کر بیسویں گریڈ میں 31دسمبر 2018ء کو ریٹائر ہوگئے ۔

آپ کی تصانیف میں میثاق عمرانی ‘ لسانی مطالعے ‘ تنقیدی تجزیاتی مطالعے ‘ سروش اقبال کے نام ‘ تخلیقی زاویے کے علاوہ لسانی لغت ‘ اردو معیار اور استعمال ‘ سہ ماہی مفاہیم ‘ اہل قلم کے مکاتیب بنام غازی علم الدین شامل ہیں ۔آپ کے ستر سے زائد مضامین علمی و ادبی اور تحقیقی رسائل میں اشاعت پذیر ہوئے جبکہ بھارت میں تیس سے زائد علمی و ادبی رسالوں میں آپ کے تحقیقی مضامین شامل اشاعت ہوئے ۔لسانی مطالعے‘ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں پی ایچ ڈی (پشتو) کے نصاب میں شامل ہیں ۔

زیر نظر کتاب "مشاہیر ادب کے خطوط بنام غازی علم الدین"مرتبہ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ لکھتے ہیں کہ غازی علم الدین سے ہم اس لیے محبت کرتے ہیں کہ وہ اردو سے محبت کرتے ہیں ۔گویا ہم دونوں اسی ظالم پر مرتے ہیں جس کانام اردو ہے ۔ اس لحاظ سے گویا وہ ہمارے حبیب ہی نہیں رقیب بھی ہیں ۔لیکن اردو سے محبت ایک ایسا رشتہ ہے کہ اس میں رقیب پر بھی پیار آتاہے۔غازی صاحب جیسے عاشقان اردو سے دل کو تقویت ملتی ہے ان کی وجہ سے ہمیں کئی اہل قلم کے نہایت عمدہ اور علمی نکات سے بھرپورخطوط پڑھنے کو مل گئے ۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار دلوی لکھتے ہیں کہ پروفیسر غازی علم الدین اردو کے ایک ممتاز ادیب اور محقق ہیں جنہیں زبان و بیان اور زبان کے متعلقات سے گہری دلچسپی ہے ۔ زیر نظر خطوط دراصل زبان وبیان کے زوال اور پاک وہند میں اردو کی تخفیف کاشہر آشوب ہیں ۔ ان میں جہاں لسانی امور زیر بحث آئے ہیں وہاں علمی و ادبی شخصیات کے خاکوں کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں ۔ کچھ خطوط ان کے لسانی مطالعے ‘ میثاق عمرانی ‘ تخلیقی زاویے اور دیگر کتب کے تعلق سے پاک وہند کے محققین اور ماہرین زبان نے لکھے ہیں ۔میں پروفیسر غازی علم الدین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اپنے لسانی مطالعے پیش کیے اورماہرین لسانیات سے اپنی خدمات کے عوض داد وصول کی۔مجھے امید ہے کہ اردو میں لسانیاتی تحقیق کا یہ کام آگے بڑھے گا ۔ ابھی اردو لسانیات کاجو بھی حال ہے وہ عالم طفولیت ہی کا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ پروفیسر غازی اور ان کے شاگرد اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں ۔

پروفیسر ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی پیش لفظ کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں کہ پروفیسر غازی علم الدین کانام ہماری علمی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ وہ اسم بامسمی شخصیت ہیں ۔ علم اور دین تو ان کے نام کے جزو ہیں ہی لیکن ان دونوں چیزوں سے ان کی محبت اور دونوں میدانوں میں ان کی جاں فشانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے غازی کا خلعت بھی ان کے قامت سے راست آتا ہے اس کے باوجود کہ ان کی تحریروں کی اشاعت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن اردو لسانیت کے اچھوتے موضوعات نیز تنقید و تجزیہ پر ان کے بصیرت افروز مضامین نے ان کی شہرت کو پاک و ہند کے طول و عرض سے نکال کر دیگر ممالک کے علمی مراکز تک پہنچا دیا ہے ۔یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں غازی صاحب کے محبین میں اور وہ میرے مہربانوں میں شامل ہیں ۔چنانچہ میں ان کی اس عادت سے بخوبی واقف ہوں کہ وہ اپنی مطبوعات ‘ ملک اور بیرون ملک اپنے وسیع حلقہ احباب میں فراخ دلی سے تقسیم کرتے رہتے ہیں۔لہذا ان کے نام خطوط بھی کثرت سے آتے ہیں۔

سردار عتیق احمد خان راولپنڈی سے لکھتے ہیں کہ غازی صاحب نے معاہدہ عمرانی کو میثاق عمرانی کا نام دے کر اپنی علمی سطح کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ معاہدہ عمرانی کے ڈانڈے "یوم میثاق "سے ملائے ہیں اس سے مغربی مفکرین کا معاہدہ عمرانی کے موجد کہلانے کا بھانڈا اپنی اس شاہکار تصنیف کی ابتدائی سطور میں ہی پھوڑ دیا ہے ۔علوم معاشرت یعنی عمرانیات سے شغف رکھنے والے محققین کو اس موضوع پر اپنی تحقیق کا آغاز تخلیق آدم سے شروع کرنا پڑتا ہے ۔ عمرانیات کے موضوع پر صدیوں سے تحقیق ہورہی ہے کہ کیا معاہدہ عمرانی کوئی دیو مالائی کہانی ہے یا اس میں کوئی حقیقت بھی ہے یہ معاہدہ کب اور کن لوگوں کے مابین ہوا اورکیا یہ معاہدہ زبانی تھا یا تحریری ۔ اس معاہدے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔یہ وہ سوالات ہیں جن پر صدیوں سے تحقیق ہورہی ہے شاید یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا۔کیونکہ یہ تحقیق کا اصول ہے کہ ہر نئی تحقیق پہلے سے ہوئی تحقیق کو یا تو سرے سے رد کردیتی ہے یا اس میں بہتری پیدا کرنے کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے ۔اگر اختلاف رائے کاعمل رک جائے تو انسان کے لیے اس کائنات میں کوئی دل چسپی و دل کشی باقی نہ رہے ۔کسی بھی نوعیت کی تحقیق کو ہم حرف آخر نہیں کہہ سکتے ۔ماسوائے اس کے جو اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا یا نبی کریم ﷺ کی احادیث میں مذکورہے ۔آپ کا مدعا "میثاق عمرانی"کے زیر عنوان اس حقیقت کو آشکار کرنا ہے کہ معاہدہ عمرانی کا نظریہ مغربی مفکرین نے پیش نہیں کیابلکہ یہ نظریہ اسلامی مفکرین فارابی ‘ ابن خلدون اور شاہ ولی اﷲ نے پیش کیا ہے ۔ آپ نے ان مسلمان مفکرین کے نظریات کا تجزیہ اور تقابل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نظریات کا مغربی مفکرین تھامس ہابس ‘ جان لاک اور ژاں ژاک روسو کے عمرانی نظریات سے تقابل کرکے پورے ثبوت اور سند کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ مغربی مفکرین اس معاہدے کے موجد نہیں ہیں بلکہ انہوں نے یہ نظریہ مسلمان مفکرین سے چرایا ہے ۔ آپ نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ معاہدہ عمرانی ‘ غیر تحریری ہونے کے باوجود ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔

اس کتاب میں اکاسی کے لگ بھگ شخصیات کے خطوط شامل ہیں جن میں ہر ایک کا خط اپنی الگ اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں چندایک کا ذکر کرناضروری سمجھتاہوں ۔ ڈاکٹر یونس جاوید( لاہور) ‘ ڈاکٹر اصغر ندیم سید(لاہور) ‘ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی(شیخوپورہ) ‘ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن(لاہور) ‘ ڈاکٹر سید یحی نشیط(ایوت محل ۔بھارت) ‘ڈاکٹر محمد سہیل شفیق(کراچی) ‘ ڈاکٹر سعادت سعید (لاہور ) ‘ نذیر فتح پوری(پونہ بھارت)پروفیسر مسعو د علی بیگ (علی گڑھ۔ بھارت) ‘ ڈاکٹر نبیل زبیری( کراچی) ‘محبوب عالم تھابل( لاہور) ‘ فیاض عادل فاروقی (لندن)ڈاکٹر اسلم انصاری (ملتان)‘ڈاکٹر معین الدین عقیل (کراچی )‘ بریگیڈئر (ر)حامد سعید اختر (لاہور )‘ پروفیسر خیال آفاقی (کراچی)‘شکیل

(3)
عثمانی (راولپنڈی)ڈاکٹر محمد کامران (لاہور)‘ ڈاکٹر معین نظامی (لاہور)ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (کراچی)ڈاکٹر رؤف خیر (حیدر آباد ۔بھارت)پروفیسر احمد سعید (لاہور )پروفیسر یعقوب شاہق (راولپنڈی)پروفیسر سیف اﷲ خالد (لاہور)ڈاکٹر ایوب صابر (اسلام آباد) ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے (دھلی بھارت) محمد عالم نقوی(علی گڑھ ۔بھارت)ڈاکٹر رؤف پاریکھ (کراچی )ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم (سرگودھا)ڈاکٹر الطاف انجم ( سری نگر (مقبوضہ کشمیر)ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان (بفہ۔ہزارہ )سید شوکت حسین کاظمی (اسلام آباد) ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی (لاہور )‘ محترمہ سلمی صدیقی (اسلام آباد) اور آزاد بن حیدر ایڈووکیٹ (کراچی)شامل ہیں ۔

مشاہیر ادب کے خطوط بنام پروفیسر غازی علم الدین کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے صفحات 492ہیں ۔بہترین طباعت اور جلد بندی اپنی مثال آپ ہے ۔800/-روپے قیمت کی اس کتاب کو مثال پبلشرز ۔ رحیم سنٹر پریس مارکیٹ ‘ امین پور بازار فیصل آباد نے شائع کیا جو پروفیسر غازی علم الدین 43/F-1میرپور آزاد کشمیر موبائل نمبر 0345-9722331سے بذریعہ وی پی یا پیشگی ادائیگی کی صورت میں خریدی جاسکتی ہے ۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 663696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.