مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ۔حصہ اول

جس وقت تاجدارِ ہندوستان شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر دنیا میں امن و آشتی کا نعرہ لگائے ہوئے ایک مشترک دین کی تلقین کر رہا تھا۔ اور آسمان آئین و دانش کے تارے ابو الفضل، فیضی، بیربل، راجہ ٹوڈرمل اور ملا مبارک اس کے نو رتن کے ماہ پروین بنے ہوئے تھے۔ دنیا کی ہر ایک دولت قدموں میں تھی۔ ہر ایک فیروز مندی سر تسلیم خم کئے ہوئے تھی۔ عظمت و جلالت کا سکہ دلوں پر بیٹھا ہوا تھا حتیٰ کہ دین ومذہب کی پابندیوں سے بے نیاز ہو کر ہر ایک شہسوار اور سورما شاہی درشن کے وقت زمین پر سجدہ ریزی شروع کر دیتا تھا۔ تو کس کو خیال تھا کہ یہ مذہب جس کی بنیادیں اس قدر مضبوط ہے ایسا فنا ہو جائے گا کہ تاریخ کی کتابوں میں بھی تفتیش و تحقیق کے بعد مشکل سے کچھ آثار مل سکیں گے۔ عزیزانِ من۔ بادشاہ اکبر جو اپنے زمانے کے مولویوں کو رازی اور غزالی سے بھی بہتر تصور کرتا تھالیکن جب بادشاہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان مولویوں سے بہت کچھ بےہودگیا ظاہر ہوئیںاور باہم ایک دوسرے پر زبان کی تلواریں نکال کر ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگیں۔ تو بادشاہ کے متاثر قلب پر ان کی یہ حرکت ناگوار گزری ۔ ان کا یہ اختلاف اورچھچھور پن جب بادشاہ نے دیکھا تو سامنے والوں پر غائب والوں کو قیاس کرکے سلف کا بھی منکر ہوگیا۔ اس لیے اب سلسلہ تحقیقات میں اسلام کا نام تختہ سے کاٹ دیا گیا اور طریقہ یہ رہ گیا کہ مسلمانوں کے سوا جس شخص کی جو بات بھی پسند آجاتی اس کا انتخاب کر لیا جاتا تھا۔ اور جو باتیں بادشاہ کی خواہش کے خلاف معلوم ہوتی ان سے احتراز اور پرہیز کو ضروری خیال کیا جاتا تھا۔ جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے وہ بادشاہ کے نزدیک مردود شمار ہوتا تھا۔ رواداری اور انصاف کا سارا دعویٰ انتہائی تعصب میں بدل گیا۔ اسی طرح بعض باتیں پارسیوں کی قبول کی گئی اور نصرانیوں اور مجوسیوں کے بھی دین کے کچھ اجزاء اس جدید مذہب میں شریک کر لیے گئے۔ لیکن سب سے زیادہ اس جدید مذہب پر ہندو مذہب کا اثر تھا۔ اگر بادشاہ اکبر کسی ایک مذہب پر مستقل قائم رہتا تو اس کو دوسرے مذاہب سے ٹکرانا پڑتا تھا ۔ اسی لیے اپنے دربار میں ہر مذہب کے علماء کا اجتماع کرانا، مباحثے سننا یہ اس کی سیاست تھی تاکہ ہر ایک مذہب کی توقعات اس سے وابستہ ہو۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے اصلاح کے بجائے فساد کی طرف قدم بڑھایا اور ایک نئے مذہب کی تدوین کی جس کا نام اس نے دین الہیٰ رکھا۔عہد اکبری اگرچہ مغل شہنشاہیت کا زمانہ تھا مگر ملت اسلامیہ کو علماء سو یعنی درباری مولویوں، روافض، ہندو اور عیسائی فتنوں نے گھیر رکھا تھا۔ اور یوں عہد اکبری مسلمانوں پر مظالم ڈھاتی ہوئی گزر گئی اور جہانگیری عہد شروع ہوا۔ شہزادہ " نورالدین سلیم جہانگیر" اکبر کا بیٹا بھی تھا اور مرید بھی ۔ اکبر کے خیالات جہانگیر کی فطرت میں داخل تھےجو بے اختیار موقع بہ موقع رونما ہوتے تھے ۔ جہانگیر اور اکبر دونوں ایک بنیادی غلطی میں مبتلا تھے ان کے نزدیک اسلام وہ تھا جو ان کو اچھا لگتا مگر درحقیقت یہ خدا پرستی نہیں خود پرستی تھی۔ اسلام اطاعت ہے اور اطاعت میں عقل چلانا سرکشی ہیں۔ ارسطو،افلاطون، جالینوس اور بطلیموس جیسے عقل و فکر کے لوگ دنیا میں آئے ہر ایک نے نوع اِنسان کے بہبود و فلاح کا راستہ دریافت کرنا چاہا مگر وہ کامیاب نہ ہوئے۔ اور ان کی نمائشی دانش و حکمت نے انبیاء علیہم السلام کی پاک تعلیمات کو بھی مکدر کردیا۔ اسی لیے فاطرِ ہستی نے آخری پیغام قرآن کریم میں واضح اعلان کر دیا " نہیں نہیں تیرے رب کی قسم وہ مومن نہیں جب تک آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ان تمام امور میں حکم نہ مان لے جن کے بارے میں ان کے آپس میں اختلاف ہو" النساء آیت 65 ۔ عزیزانِ من۔آئین اکبری کو پامال کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نےسرزمین ہند کے اس نام نہاد مسلمان فرمانرواؤںکی ملحدانہ اور تاریک دور میں پنجاب کے سرہند نامی ایک گاؤں میں فاروقی شیوخ کے ایک خاندان کے ہاں 14 شوال 971 ہجری کو تجدد و تنور کا آفتاب طلوع کیا۔ جس سے علم و عرفان کی اجڑی ہوئی بستی پھر آباد ہونے لگی۔ رشد و ہدایت کے خزان زدہ گلشن نے فصل گُل کی تیاری کی۔ نام مبارک احمد تجویز ہوا مگر علم و کردار کے بدولت شیخ احمد سرہندی امام ربانی مجدد الف ثانی قرار پائے۔تحصیل علم کے بعد آپ آگرہ تشریف لے گئے اور بسلسلہ درس و تدریس چند ماہ آگرہ میں قیام کیا۔ وہاں آپ کے حلقہ درس نے بہت جلد اتنی شہرت پالی کہ ابو الفضل اور فیضیجیسے اپنے زمانے کے مشہور اور خودپسند ماہرین منطق و فلسفہ بھی آپ کے زیارت کے مشتاق ہوئے۔ آگرہ میں اس قیام سے مجدد صاحب کو ان تمام سرچشموں کا علم ہوگیا تھا جنسے اکبری فتنہ کی نہریں بہہ رہی تھی۔ یہ ممکن تھا کہ آپ ابتداء ہی سے انقلاب سلطنت کی صورتیں سوچتے اور کامیابی کی جدوجہد کرتے مگر مجدد صاحب کو اپنے لیے سلطنت مطلوب نہ تھی اور دوسرے کو سلطان بنانے میں وہی دشواری درپیش ہوتی اسی لیے انقلاب سلطنت کے بجائے نظریات سلطنت کی تبدیلی کو آپ نے زیادہ مفید تصور کیا۔ حضرت مجدد صاحب کے طریق کار کی ترتیب کچھ اس طرح تھی کہ سب سے پہلے غیر سرکاری سنجیدہ طبقہ کی اصلاح اس کے بعد ارکان دولت کی اصلاح اور اس کے بعد بادشاہ کی اصلاح۔ لہذا مذہبی نقطہ نظر نیز مسلم حکومت کے بقا و تحفظ کے پیشِ نظر اصلاح کے معنی صرف یہ تھی کہ " عوام الناس، اراکین دولت اور سلاطین طے کر لیں کہ انفرادی طور پر اتباع سنت اور اجتماعی طور پر ترویج شریعت ان کی زندگی کا نصب العین اور ان کی تمام اجتماعی و انفرادی جدوجہد کا محور ہیں۔اس کے لیے مجدد صاحب نے آگرہ سے واپسی کے بعد سرہند میں قیام فرمایا اور درس و تدریس، تلقین و ارشاد کا سلسلہ جاری کردیا۔ چند سالوں کے بعد بندگان خدا میں سے ایک بڑی جماعت مجدد صاحب کے حلقہ بگوش ہوگئی۔ اور یوں باقاعدہ ایک منظم جماعت تیار کرکے سنجیدہ طبقہ کے اصلاح کے لیے ہر شہر و دیار میں ایک ایک خلیفہ بھیج دیا۔ اور ان کو بہت سی اصلاحی باتیں لکھ کر دی اور ایک کتاب جمع کی جس کا نام " مکتوبات" رکھ دیا گیا۔ انہی مکتوبات کے چند اقتباسات پڑھ لینے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیخ کیسی مجددانہ طرز سے ایک ایک بدعت کی تردید کرتے اور سنت رسول کہ اتباع کو ہی فلاح و سعادت قرار دیتے ہیں۔ مکتوب 110 جلد اول میں فرماتے ہیں کہ" وظائف بندگی کو ادا کرنا اور حق تعالیٰ کی جانب ہمیشہ اور ہر وقت متوجہ رہنا پیدائش انسان کا مقصود ہے یہ بات صرف اسی وقت پیدا ہوتی ہے کہ سنت سید الاولین و الآخرین کی ظاہراً و باطناً ہر طرح سے پوری پوری اتباع کی جائے"اہل تصوف کی اصطلاح کے لیے مکتوب 112 جلد اول میں فرماتے ہیں" کشف و الہام کی صحت کا معیار علماء اہلسنت کے علوم وتحقیقات ہے اگر کوئی کشف ان علوم سے بال برابر مخالف ہے وہ دائرہ صواب سے خارج ہے یہی علم صحیح اور حق صریح ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے گمراہی ہیں" اس کے علاوہ جماعت صحابہ سے بغض رکھنے والوں پر ضربیں لگاتے ہوئے مکتوب 66 جلد اول میں فرماتے ہیں" کافر کی صحبت سے بدعتی کی صحبت کا فساد بڑھا ہوا ہے تمام بدعتیوں میں سے بدتر بدعتی جماعت وہ ہے جو صحابہ کرام سے بغض رکھے اللّٰہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود ان کو کافر فرماتے ہیں ( لیغیض بھم الکفار) "عزیزانِ من۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کیجیے کہ آج جو لوگ صحابہ کے خلاف بھونکتے ہیں ان کے بڑے بھی اسی پر کاربند تھے اور افسوس تو ان لوگوں پر ہے جو خود کو اہل سنت سمجھتے ہیں لیکن اپنے چچازاد بھائیوں کو خوش کرنے کے لیے وہ بد بخت لوگ امیر معاویہ جیسے جلیل القدر صحابی کو " ڈیکٹیٹر" کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظمبھی صحابہکرام کے لیے صحیح الفاظ کے انتخاب تک کو ضروری نہیں سمجھتا۔ بہرحال ہم اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ چنانچہ مجدد صاحب کی درس و تدریس کی بدولت جہانگیر کے دربار کے جتنے ممتاز رکن تھے سب شیخ کے حلقہ بگوش ہوگئے۔ ان اراکین حکومت میں خانخاناں، خان جہاں، خان اعظم، خواجہ جہاں، مرزا داراب، قلیج خان اور نواب سیدفرید وغیرہ سرفہرست تھے۔ حکومت جہانگیری کے تمام سنی ارکان امراء حکام و جرنیل مجدد صاحب کی تحریک کے اعضاء و اراکین تھے لیکن پھر بھی مجدد صاحب نے علم بغاوت بلند نہیں کی کیونکہ شیخ اپنے لیے حکومت کے خواہاں نہیں تھے بلکہ حکومت کی اصلاح ان کا نصب العین تھا۔ اور مسلمان بادشاہوں کی خانہ جنگی اس وقت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر مجدد صاحب جہاد بالسیف کا اعلان کرتے تو یہی مقربین کہہ سکتے تھے کہ حکومت حاصل کرنے کا ایک ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اور مجدد صاحب کی دعویٰ اصلاح کو بھی وہی اصلاح تصور کرتے جس کو" ابراھیم لودھی" کے مقابلہ میں" بابر" نے اور" ہمایوں" کے مقابلہ میں" شیر شاہ سوری " نے کیا تھا۔ اور ویسے بھی اس وقت ہندوستان میں شیعہ پارٹی برسرِ اقتدار تھی کیا کوئی شک ہو سکتاتھا کہ ملکہ" نور جہاں" کی امداد کے لیے ایرانی قزلباش دندناتے ہوئے ہندوستان پہنچ جاتے۔ جاری ہے
 

Malak gohar iqbal khan ramakhel
About the Author: Malak gohar iqbal khan ramakhel Read More Articles by Malak gohar iqbal khan ramakhel: 34 Articles with 30249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.