زندگی تجھے کیسے گزاروں

ہم جینے کو ہی صرف زندگی کا نام نہیں دے سکتے زندگی تو وہ ہوتی جو گزاری جائے اور گزارنے کا مقصد بھی دکھتا ہو، زندگی تو اپنے اندر بہت کچھ رکھتی ہے اسے جتنی آسانی سے گزاریں گے اتنی ہی مشکل ہوتی جائے گی اور جتنی مشکل سے گزاریں گے اتنی آسان ہوتی جائے گی.

یہ زندگی جو ایک حسین خواب ہے جہاں خوشیوں کے میلے ہیں جہاں ہر طرف بہار ہی بھار ہوتی ہے- جہاں چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ ہے- جہاں انسان سکون کی تلاش کا ایک مسافر ہے- جہاں مقاصد کو حقیقت کی شکل دینے پر لوگوں کی کوشش جاری رہتی ہے- جہاں ہر تاریخی میں ڈوبا شخص روشنی کا پیروکار ہے- جہاں ہر شخص دکھوں کا بوجھ اٹھا کہ تھک چکا ہے- جہاں ہر کسی کی زبان پر گلے شکوے رہتے ہیں- جہاں ہر کوئی حالات کے طوفان سے چور ہو چکا ہے- جہاں ہر شخص بے اعتبار زندگی کا متلاشی ہے- جہاں کوئی بھی اعتماد کے قابل نہیں - جہاں مطلب کے سائے تلے زندگی گزار دی جاتی ہے جہاں انسانی ضمیر کا کوئی وجود نہیں رہتا جہاں انسانی ہمدردی کی کوئی قدر نہیں ہوتی جہاں انسانی جزبات کا مزاق بنا دیا جاتا ہے- جہاں انسان کی قدر اس کے رویے سے نہیں بلکہ اسکے روپ دیکھ کر کی جاتی ہے-جہاں سچی بات کہنے والا زلیل ہو جاتا ہے- جہان جھوٹ زندگی کا حصہ سمجھا جاتا ہے- جہاں رشتوں کی قدر دیکھی نہیں جاتی جہاں رشتے بے نام سی زندگی گزارتے ہیں- جہان ایمانداری ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔جہاں بے ایمانوں کا سر فخر سے اونچھا ہو جاتا ہے- جہاں غریبی زندگی لعنت ملامت میں گزر جاتی ہے- امیر لوگوں کے دل غرور سے مردہ ہو جاتے ہیں- جہاں بے رحم کو بارشہ اور رحمدل کو حیوان اور جاھل سمجھا جاتا ہے-

اس مطلبی زندگی میں انسان جائے تو کہاں جائے- کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ زندگی میں زندہ رہنے کی ساری امیدیں کھو چکی ہیں- پھر ایک بات یاد آتی ہے کہ جو بھی ہو کچھ بھی ہو امید کا دامن ہاتھ سے نا چھوٹے کیونکہ کہتے ہیں یہ زندگی امید سے ہی قائم ہے- نا امیدی کا مطلب بے رحم دنیا سے ہار جانا- نہ جانے کیوں لوگ دکھوں کا سامنہ نہیں کر کہ اپنی جان گوا دیتے ہیں- لو مان لیا کہ دکھ حد سے زیادہ ہیں لیکن اگر ہم اپنی زندگی میں ہر چھوٹی نعمت کا شکر ادا کریں تو شاید دکھ ہمارا پہچھا چھوڑ دے- کبھی کبھی شکایتیں رہتی ہیں کہ کیوں ہمیں زندگی پہلے سمجھ نہیں آئی شاید یہ دکھ ہم کو جھیلنا پڑتا ہے اس لئے کہتے ہیں کہ وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ کچھ نہیں ملتا-

زندگی کے وقت اور حالات انسان کو زندگی کے مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت دیتے ہیں- شاید اس فانی دنیا کو لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے یا کر نہیں پاتے جو آج کل زہنی تفکرات کا شکار رہتے ہیں- ہمارے ماں باپ کی زمہ داریوں میں سے ایک زمہ داردی یہ بھی ہوتی ہے کہ بچوں کو حالات کا سامنا کرنے کی تیاری کروائیں - ہماری زندگی اس وقت زندگی ہے جب اس میں انسانیت اور زندہ دلی باقی ہے- بنا احساسات کے جانور بھی زندہ رہتے ہیں- اس لیے کہتے ہیں نہ کہ زندہ رہنے کیلیے سو سال جینا ضروری نہیں بلکہ ایک دن ایسا کام کرو جس کیلیے دنیا تمہں سو سال تک یاد رکھے- اصل زندگی جینا ہی دوسروں کا نام ہے اور اچھا انسان بن کر ہم اپنےاس نا ہل دنیا کو خوبصورت بنائیں دور کی تلاش کے بدلے اپنے آپ کو روشنی میں لانے کی کوشش کریں دو دن کی ہے اسے نفرت اور حسد سے نہیں بلکہ محبت سے بھر دیں

 

FaZi dar
About the Author: FaZi dar Read More Articles by FaZi dar: 14 Articles with 21934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.